کراچی سے نئی سیاسی لہر کی بیداری


حکمراں اتحادی جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہوئے معاہدوں پر عمل در آمد نہ ہونے پر عملی احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ جس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے عملی طور پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی اکلوتی وزارت چھوڑنے کا اعلان کیا، جبکہ ڈیمو کرٹیک الائنس میں بھی بے چینی کو واضح محسوس کیا جارہا ہے۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ ایم کیو ایم پاکستا ن، اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کررہی ہے، جس کا منطقی انجام یقینی طور پر موجودہ حکومت کے تسلسل کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔

اسی طرح بی این پی مینگل نے بھی چھ نکات پر عمل درآمد کے جائزے کے لئے ایک بار پھر کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ دوسری جانب کراچی سے منتخب پی ٹی آئی اراکین کو اپنے وعدے پورے نہ کیے جانے کے سبب ایک خاموش پریشانی کا سامنا ہے، علاوہ ازیں ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن (فاروڈ بلاک) ، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق کے چودھری بردارن کی کمک کے لئے ایک نئے میثاق پر اندرونی خانہ تیاریوں میں مصروف ہیں، وفاقی حکومت اگر ایم کیو ایم پاکستان، ڈیمو کرٹیک الائنس یا بی این پی مینگل کے تحفظات فوری دور نہ کیے جاسکے تو وفاقی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا، جبکہ سابق فاٹا کے اراکین موجودہ حکومت سے پہلے ہی نالاں ہیں۔

کراچی کی صورتحال کے حل کے لئے سنجیدگی کی ضرورت اس لئے بڑھ چکی ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے فیصلے تبدیل کرنے میں وزیر اعظم سے زیادہ یو ٹرن لینے اور جواز دینے کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی آفر ایم کیو ایم پاکستان کے لئے اتنی اہم نہیں ہے جتنا ایم کیو ایم پاکستا ن کو اپنی کنگ میکر کی حیثیت کی بحالی درکار ہے۔

ایم کیو ایم پاکستا ن سیاسی طور پر کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر نہیں آتی ہے، سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کا بیانیہ مضبوط ہونے لگا ہے، پاکستا ن پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کراچی میں واضح میدان ملنے کے باوجود حقیقی نمائندگی نہیں مل سکی۔ اس لئے ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں عوامی رائے عامہ اپنے حق میں بحال کرنے میں ابتدا کردی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کو سندھ کی شہری سیاست کا متبادل سمجھا جارہا تھا لیکن عام انتخابات میں بدترین شکست کے بعد کارکنان میں بددلی نے پاک سرزمین پارٹی کو تیزی سے بڑھنے سے روک دیا۔

پاک سر زمین پارٹی اس وقت دو شخصی محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ سید مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے گرد گھومنے والی سیاست کی وجہ سے پاک سرزمین پارٹی میں لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ یہی کیفیت لندن قیادت میں تھی کہ ایم کیو ایم ایک شخصی نظام کے گرد گھومتی تھی جس کی وجہ سے عوامی لیڈر شپ پیدا نہیں ہوسکی۔ ڈاکٹر فاروق ستار وغیرہ ایم کیو ایم میڈیا سیل کے مرہنون منت عوامی شناخت کا سبب بنے، نیز ایم کیو ایم کے انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے بانی ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت متبادل کے طور پر سامنے ہی نہیں لائی گئی جو کسی سیاسی خلا کو پُر کرسکتی، پاک سرز مین پارٹی اُسی ڈگر پر رواں ہوئی، کراچی آپریشن کی وجہ سے ایک ریلا پی ایس پی کا حصہ بنا، لیکن عملی طور پر عوامی مسائل کے حل کے لئے انہیں کسی بھی حکومت میں شمولیت کی اشد ضرورت تھی، لیکن عام انتخابات میں حد سے زیادہ خود اعتمادی نے انہیں ناکام کیا۔

گو کہ ایم کیو ایم پاکستان کے مقابلے میں توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ ناراض ووٹر مصطفی کمال پر اعتماد کریں گے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت، عروج کے سبب کراچی سے پی ٹی آئی کو بھرپور مینڈیٹ ملا، اہل کراچی کو امید تھی کہ اُن کے دیرینہ مسائل سب سے پہلے حل کیے جائیں گے، لیکن پی ٹی آئی نے اپنی حلیف جماعت کو ہی نہیں بلکہ اپنے نمائندوں کو بھی ناراض کرکے فاروڈ بلاک بنوادیا۔

ڈیمو کرٹیک الائنس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف قوم پرستی کی بنیاد پر ایک اتحاد بنایا تھا، جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں اہم کردار کا سبب بنی۔ پی ٹی آئی سے ڈیمو کرٹیک الائنس کے اتحاد میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہوچکی ہیں کیونکہ سندھ میں تبدیلی کے لئے پی ٹی آئی پاکستان پیپلز پارٹی میں پنجاب کی طرح گروپ بنانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس سے پی پی پی سندھ حکومت کو نقصان پہنچے۔ ڈیمو کرٹیک الائنس بلدیاتی انتخابات میں بھرپور قوت کے ساتھ سندھ کے دیہی علاقوں پر اپنی گرفت کو مضبوط بنانے کے لئے وفاقی حکومت سے تعاون کا مطالبہ کررہی ہے لیکن پی ٹی آئی نے اپنی تمام توجہ مخصوص ایجنڈے پر مرکوز رکھی جس کی وجہ سے حلیف جماعتوں میں تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

پنجاب میں جنوبی پنجاب کے لئے پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کے منحرف اراکین نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا، لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی سیاسی طور پر اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ن میں موجود غیر اعلانیہ فاروڈ بلاک کا پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب رجحان سیاسی بازی پلٹنے کے لئے سبزی جھنڈی کا انتظار کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان، ملکی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھے ہوئی ہے، انہوں نے پہل کرکے دیگر حلیف جماعتوں کو بھی واضح اشارہ دے دیا ہے کہ ڈیڑھ برس میں ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہیں ہوا تو اگلے برسوں میں خاموش رہنے سے ان کی عوامی مقبولیت کو بڑا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اس سے پی ٹی آئی کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا اور انہیں عوامی ردعمل سے مزید نقصان پہنچے گا۔

حلیف جماعتوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کے ووٹرز کو علاقوں میں بدظن کرنے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے تاکہ عوام میں یہ تاثر پھیلے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود ان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس لئے حلیف جماعت ایم کیو ایم پاکستان، حکومت کا حصہ رہنے کے لئے شہری علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے اس موقع سے فائدہ اس لئے بھی اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ بانی ایم کیو ایم کا بظاہر پاکستان کی عملی سیاست و ذرائع ابلاغ سے کردار تقریباً ختم ہوچکا ہے اس لئے مستقبل کی سیاست میں آزادنہ فیصلوں کے لئے رابطہ کمیٹی کو مضبوط و فعال بنا کر ایک نئے سیاسی دور کا آغاز پھر بھرپور طریقے سے کرنا اولین خواہش بن گئی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان اس وقت سیاسی میدا ن میں تشدد کے بغیر اپنی شناخت کی بحالی کے لئے عوام کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے، تاکہ کراچی میں کسی تشدد کے بغیر ایک قومی جماعت کا تاثر کو بحال کرے اور سندھ کے شہری علاقوں کو رول ماڈل بنا کر اپنا رکا سفر بحال کرسکے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اس وقت شہری علاقوں میں سیاسی حریف کے طور پر ماضی کی کسی بھی جماعت سے مقابلہ نہیں رہا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اس وقت عوامی غیر مقبولیت کی انتہائی درجے پر ہے، اے این پی سندھ کی عملی سیاست تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ پارٹی کے عہدے داران و کارکنان انتہائی درجے کی مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں، صوبائی قیادت سے انتہائی نالاں کئی گروپ بندیوں نے کراچی میں اے این پی سندھ کی سیاست کو منوں مٹی تلے دفنا دیا ہے۔ اے این پی سندھ کے کارکنان صوبائی قیادت کی تبدیلی چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے مسائل حل نہ ہونے کا سب سے بڑا ذمے دار سمجھا جارہا ہے، وفاق و سابق صوبائی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اے این پی نے اپنے کارکنان و علاقوں میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کرایا، سینیٹر بننے کے باوجود صوبائی قیادت نے شہری علاقوں میں پختون کا مقدمہ نہیں لڑا۔

عام انتخابات میں عہدے داروں کا رویہ کارکنا ن سے انتہائی تضحیک آمیز رہا جس سنے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اے این پی سندھ کا سیاسی مستقبل ایک بردبار و سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت آنے پر ہی بحال ہوسکتا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، اے این پی و دیگر علاقائی چھوٹی جماعتوں کوکراچی میں سیاسی کردار کے لئے عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا، اپنی پالیسیوں و ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ عوام اب شعوری طور پر بیدار ہوچکے ہیں، انہیں جذباتی نعروں و سبز باغ دکھا کر مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments