کوئی ہیرو نہیں جانتا کہ وہ ہیرو ہے


ہیرو وہ ہوتا ہے جو اپنے طے شدہ فرائض اور ضمیر کی آواز پر کچھ ایسا کر گذرے کہ خود نہ اسے یقین آئے نہ دیکھنے والے کو کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔ ہیرو کا ذاتی مذہب و عقیدہ کچھ بھی ہو مگر بنیادی عقیدہ انسانیت پر ہی استوار ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو تو پھر وہ ہیرو یا ہیروئن ہی کیوں ہو ؟

سات جنوری دو ہزار چودہ کو جب خیبر پختونخوا کے شہر ہنگو کے گاؤں ابراہیم زئی میں سولہ سالہ اعتزاز حسن سکول جا رہا تھا تو اسے تھوڑا معلوم تھا کہ وہ کتنا بڑا کام کرنے والا ہے۔ بس اس نے سیکنڈوں میں فیصلہ کیا کہ خود کش بمبار کو اپنے سکول میں نہیں گھسنے دینا جہاں اس لمحے سات سو کے لگ بھگ بچے موجود تھے۔ چنانچہ اعتزاز خود کش بمبار سے لپٹ گیا ۔خود چلا گیا مگر سینکڑوں بچے بچا لیے۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور بلوچستان میں غیر معمولی برف باری نے زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔

کوئٹہ کے قریب کچلاک کے رہائشی سلیمان خان کو بس ایسے ہی خیال آ گیا کہ اس وقت شاہراہوں پر جو لوگ پھنسے ہوئے ہیں ان کی مدد کے لیے اپنی لینڈ کروزر کو کیوں نہ استعمال کیا جائے۔ سرکار تو جو کر رہی ہے سو کر رہی مگر جو شہری قدرے بہتر پوزیشن میں ہیں انہیں بھی تو آگے بڑھ کے کچھ کرنا چاہیے۔ چنانچہ سلیمان خان نکل کھڑا ہوا اور اس نے گاڑیوں میں پھنسے لگ بھگ سو لوگوں کی ہر ممکن امداد کی۔ تاآنکہ حکومتی مشینری متحرک ہو گئی۔

اسرائیل میں ہر سال ایک پولش خاتون آئرین سینڈلر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا جولائی دو ہزار چودہ میں اٹھانوے برس کی عمر میں وارسا میں انتقال ہوگیا۔

آئرین دوسری عالمی جنگ میں ایک عام سی بلدیاتی افسر تھیں جب نازی جرمن فوجوں نے ان کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ نازیوں نے عام آدمیوں کو بالعموم اور پولش یہودیوں کو بالخصوص اپنا نشانہ بنایا۔ آئرین یہودی نہیں تھی لیکن اس نے ایک خفیہ مزاحمتی گروہ منظم کیا اور جتنے یہودی بچوں کو تھیلوں میں بند کرکے یا گندے پانی کی نکاسی کے نالوں کے ذریعے نازی جرمنوں کی نگاہ سے بچا کے نکال سکتی تھی نکال لیا اور انہیں ایسے پولش خاندانوں کو دے دیا جو انہیں چھپا کر رکھ سکتے تھے۔

اس طرح آئرین نے لگ بھگ ڈھائی ہزار بچوں کی جان بچائی۔ دو ہزار تیرہ میں پولش پارلیمنٹ نے آئرین سینڈلر کو متفقہ طور پر قومی ہیروئن قرار دیا۔ اس موقع پر آئرین نے اپنے پیغام میں کہا ’ہر وہ بچہ جسے بچانے میں میرا تھوڑا سا ہاتھ تھا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دھرتی پر میرا وجود بے مقصد نہیں رہا۔ لیکن اس میں سینہ پھلانے والی بھلا کیا بات ہے۔ یہ تو سب کو ہی کرنا چاہیے۔‘

بھارتی ریاست بہار کے علاقے گیا میں اونچی پہاڑیوں سے گھرا ایک گاؤں ہے گیہلو گھاٹی۔ اس کا ایک رہائشی دسرتھ مانجھی اٹھارہ اگست دو ہزار سات کو دلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کینسر سے انتقال کرگیا۔ اس ان پڑھ دیہاتی کی آخری رسومات حکومتِ بہار نے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ دسرتھ کی بیوی کا انیس سو انسٹھ میں بروقت طبّی مدد نا ملنے کے سبب دورانِ زچگی انتقال ہوگیا۔ دسرتھ کا گاؤں پوری دنیا سے کٹا ہوا تھا اور سوائے پہاڑ پر چڑھ کے دوسری جانب اترنے کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ دسرتھ نے بیوی کے کریا کرم کے بعد قسم کھائی کہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک پہاڑ کاٹ کے نا رکھ دے تاکہ جیسے اس کی بیوی بے بسی سے مری کوئی اور نا مرے۔

دسرتھ نے کچھ بکریاں بیچ کر ایک رسی، چھینی اور ہتھوڑا خریدا اور پہاڑ کاٹنا شروع کردیا۔ پورے گاؤں میں وہ پاگل مشہور ہوگیا۔ لیکن بائیس برس میں اس نے ایک چھینی اور ہتھوڑے سے پہاڑ کو بیچ میں سے چھ فٹ چوڑائی میں کاٹ ڈالا اور یوں گیہلو گھاٹی کے رہائشی دوسری جانب جانے کے لیے کہاں ستر کلومیٹر کا چکر کاٹتے تھے اور کہاں یہ فاصلہ ایک کلومیٹر رہ گیا۔

چین میں ایک صوبہ ہے ووہان۔ یہاں آباد کروڑوں لوگوں میں سے ایک صاحب لی زونگ وین بھی ہیں ۔وہ ایک تنہا اور تنخواہ دار آدمی ہیں۔ایک دن وین صاحب نے ایک لاغر زخمی کتے کو سڑک پر پڑا دیکھا اور وہ ازراہِ ہمدردی اسے گھر لے آئے۔ پھر انہیں ایک اور کتا نظر آیا، پھر ایک اور ۔۔۔۔۔۔آج وین صاحب کے گھر میں ایک سو چالیس کے لگ بھگ لاوارث کتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے دو وقت کا کھانا وین صاحب خود بناتے ہیں۔ ان کے ایک دوست قابلِ علاج کتوں کو دوائیں اور دیگر طبی اشیا فراہم کرتے ہیں۔ جو صحت مند اور موٹا تازہ ہو کر جانا چاہے یا کوئی شخص کسی کتے کو لے جائے تو اس کی جگہ ایک اور لاغر یا زخمی کتا لے لیتا ہے۔

وین صاحب اپنے ان مہمانوں کی تربیت بھی کرتے ہیں اور انہیں سکھایا جاتا ہے کہ بات بے بات بھونکنا یا خامخواہ دم اکڑا لینا اچھی بات نہیں ہوتی۔ چنانچہ جب وین صاحب ایک بڑے سے کڑھاؤ میں کھانا تیار کر رہے ہوتے ہیں تو چھوٹے بڑے سب کتے کڑھاؤ سے زرا فاصلے پر سکون سے بیٹھ کر ہلتا ہوا کف گیر دیکھتے رہتے ہیں اور جب کھانا بٹتا ہے تو کوئی چھینا جھپٹی نہیں ہوتی۔ مقامی بلدیہ نے وین صاحب کو اس بابت مالی اعانت کی بھی پیش کش کی ہے لیکن وین صاحب نے تاحال پیش کش قبول نہیں کی۔

نوبیل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب رومین رولاند کے بقول ” ہیرو وہ ہوتا ہے جو اپنی بساط کے مطابق جو کچھ بھی کرسکتا ہے کر گذرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).