برطانیہ نے بی بی سی کے ذریعے کیسے روئٹرز کی مشرقِ وسطیٰ میں خفیہ فنڈنگ کی؟
برطانیہ کے دفتر خارجہ کی جاری کردہ تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کیسے سرد جنگ کے دنوں میں برطانوی سول سرونٹس کی ایک خفیہ ٹیم نے عالمی میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
دلچسپ اور حیرت انگیز طور پر برطانوی حکومت نے 1960 کی دہائی کے اواخر میں برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کو مشرق وسطیٰ میں رپورٹنگ سروس شروع کرنے کے لیے بی بی سی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ دیے۔
یہ منصوبہ دفترِ خارجہ کے ایک پراسرار سیکشن انفارمیشن ریسرچ ڈیپارٹمنٹ (آئی آر ڈی) نے تیار کیا تھا جو 1948 میں سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین سے پروپیگنڈا کے میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
یہ سیکشن خفیہ طور پر کمیونسٹ مخالف مواد بھی شائع کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان مخالف پروپیگنڈا، انڈین نیٹ ورک بے نقاب
روسی انقلاب کے ابتدائی ایام کے دس پروپیگنڈا پوسٹرز
ڈیم فنڈ کا چندہ اور جعلی اکاؤنٹس کی چاندی
سنہ 1969 میں روئٹرز آئی آر ڈی کی خفیہ درخواست پر سیاسی بحران کے شکار مشرق وسطیٰ میں اپنا دفتر کھولنے پر آمادہ ہو گیا۔ روئٹرز مشرق وسطیٰ کے اخبارات اور براڈکاسٹرز کے لیے مقامی اور بین الاقوامی خبریں عربی اور انگلش میں تیار کر کے بھیجتا تھا۔
حال ہی میں برطانیہ کے ’قومی آرکائیوز‘ میں منظرِ عام پر لائے جانے والی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کیسے سرکاری اہلکاروں نے یہ منصوبہ بنایا اور اس پر غور و فکر کیا۔
دستاویزات کے مطابق آئی آر ڈی کے عملے نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس سے ان کا روئٹرز پر کوئی ’ادارتی کنٹرول‘ تو نہیں ہوگا جو کہ ’حکومتی کنٹرول تسلیم بھی نہیں کرے گا‘ لیکن انھیں یہ امید تھی کہ برطانوی حکومت اس سے ’کچھ حد تک سیاسی اثر و رسوخ‘ حاصل کر سکے گی۔
حکام کا خیال تھا کہ ’یہ اثر و رسوخ مشورہ کرنے اور اپنے کام پر دی گئی رائے کو سننے میں روئٹرز کی رضامندی کے ذریعے اعلیٰ سطح تک پہنچے گا۔‘
روئٹرز کی سروس نے اس سے پہلے موجود ریجنل نیوز سروس (مڈل ایسٹ) کی جگہ لے لی جسے آئی آر ڈی دنیا بھر میں اپنے کئی دیگر نیوز آپریشنز کی طرح براہِ راست فنڈنگ اور کنٹرول کرتی تھی۔ مگر محکمے کے مطابق اس کے اخراجات اس کے اثرات سے زیادہ تھے، اور اسے تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
مشرق وسطیٰ میں برطانوی سفارتکاروں کو تشویش تھی کہ کہیں دشمن اور ان سے ہمدردی رکھنے والے ادارے اثر و رسوخ کے خلا کو پُر نہ کر لیں۔ انھیں مصر کی مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی، سویت یونین کی ٹاس اور حتیٰ کہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بھی پریشانی لاحق تھی۔
جس چیز کو وہ ’جانبدار‘ اداروں کی جانب سے ’نپے تلے جھوٹ‘ قرار دیتے تھے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ ایک ’بامقصد اور اعلیٰ درجے کی سروس‘ تیار کرنا چاہتے تھے۔
ان دنوں روئٹرز کو بین الاقوامی طور پر سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا جس کی وجہ سے اسے نئی سروس شروع کرنے کے لیے سبسڈی درکار تھی۔ مگر دفترِ خارجہ اسے کھلے عام فنڈ نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اس سے ایجنسی کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
بی بی سی کے ذریعے فنڈنگ
چنانچہ اس کام کے لیے ایک غیر روایتی منصوبہ بنایا گیا جس میں بی بی سی کو بھی شامل کیا گیا جو روئٹرز کو ’بہتر سبسکرپشن‘ کی مد میں اس کی نیوز کاپی حاصل کرنے کے لیے زیادہ پیسے دیتی۔ بعد میں محکمہ خزانہ بی بی سی کی حکومتی سبسڈی سے چلنے والی بین الاقوامی سروسز کے ان اضافی اخراجات کو پورا کر دیتا۔
اس طرح روئٹرز کو ’خفیہ طریقے سے مدد‘ فراہم کی جاتی تھی۔ دفتر خارجہ کی ایک یادداشت کے مطابق یہ اہم تھا کہ ’روئٹرز اور برطانوی حکومت (ایچ ایم جی) کے درمیان خفیہ معاہدے کا کوئی اشارہ بھی سامنے نہ آئے۔‘
اس منصوبے کی باقاعدہ منظوری سر چارلس کوران نے دی جو اس وقت بی بی سی کی عالمی سروسز کے سربراہ تھے جو بعد میں بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل بھی بنے۔ بی بی سی کے صرف دو دیگر سینیئر افراد اس کے حقیقی مقصد سے باخبر تھے۔
سر چارلس نے دفتر خارجہ کو بتایا کہ اس کام کے لیے 30 ہزار پاؤنڈز سے زائد سالانہ سبسڈی ’مشکوک‘ ہوگی اور ’یہ حکومت کی دوسرے مقاصد کے لیے بھونڈے انداز میں خفیہ رکھی گئی سبسڈی تصور ہوگی۔‘
مگر اس کے بعد اس پر رضامندی ہوگئی کہ بی بی سی روئٹرز کو چار برس میں ساڑھے تین لاکھ پاؤنڈز دے گا۔ ان دستاویزات میں صرف 1970 تک کی تفصیلات شامل ہیں اور ان فائلز سے یہ واضح نہیں کہ روئٹرز کو دی گئی اس رقم میں سے کتنا حصہ بی بی سی کو حکومت سے واپس ملا تھا۔
برطانیہ کی امیدیں
امید یہ تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ روئٹرز مشرقِ وسطیٰ کی اس نئی نیوز سروس کو اپنے آپ میں منافع بخش بنانے میں کامیاب ہوجائے گا، بھلے ہی دفترِ خارجہ کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
ایک اہلکار نے لکھا: ’منافع بخش سروس بنانے کے لیے کیا روئٹرز کو یہ خواہش نہیں ہوگی کہ وہ مقبول چیزوں (کھیل، ہلکا پھلکا مواد، عوامی دلچسپی کی کہانیوں) پر توجہ دے اور سیاسی مواد بالکل چھوڑ دے جسے ہم سب چاہتے ہیں؟ ہم سب ’کیک پر آئسنگ‘ کی دلیل سے واقف ہیں لیکن اگر صرف آئسنگ ہی فروخت کی جائے اور کیک کو چھوڑ دیا جائے تو ہمارے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔‘
اس کے علاوہ دفترِ خارجہ روئٹرز کو ایک اور فرنٹ کمپنی کے ذریعے لاطینی امریکہ میں رپورٹنگ کے لیے خفیہ سبسڈی بھی دے رہا تھا مگر وہ ایسا ہی انتظام مشرقِ وسطیٰ میں نقل نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔
حکام نے لکھا کہ مذکورہ کمپنی کے ’بمشکل ہی قابلِ اعتبار سالانہ اکاؤنٹس‘ تھے اور ’اگر کوئی بھی شخص یہ تحقیق کرنا چاہے کہ ایسی غیر فعال اور غیر منافع بخش کمپنی اپنا کام کیسے جاری رکھے ہوئے ہے، تو اسے یہ بہت ہی عجیب و غریب لگے گا۔‘
آئی آر ڈی کے سٹاف کو فکر تھی کہ برطانوی پریس کے مرکز یعنی ’فلیٹ سٹریٹ‘ کو اس کی بھنک نہ پڑ جائے۔ مگر انفارمیشن ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کا کام 1970 کی دہائی کے اواخر تک پوشیدہ رہا جس کے بعد اسے 1977 میں اس وقت کے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ اووین نے بند کر دیا۔
’آج کے دور میں ہم ایسا نہ کرتے‘
روئٹرز کے ترجمان ڈیوڈ کرنڈویل نے بی بی سی کو بتایا: ’کئی نیوز اداروں کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی نہ کسی صورت میں ریاستی سبسڈی ملی مگر 1969 میں کیا گیا انتظام ہمارے ’اعتماد کے اصولوں‘ سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہم آج کے دور میں ایسا نہ کرتے۔‘
انپوں نے مزید کہا کہ: ’روئٹرز کو کوئی سرکاری فنڈنگ نہیں ملتی اور یہ دنیا کے ہر حصے میں آزادانہ، غیر جانبدار خبریں فراہم کرتی ہے۔‘
بی بی سی کے ایک ترجمان نے بتایا: ’بی بی سی کا چارٹر ادارتی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے چاہے اس کی فنڈنگ برطانوی حکومت سے آئے، لائسنس فیس سے یا پھر کمرشل ذرائع سے۔‘
دفترِ خارجہ نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا مگر اب یہ آئی آر ڈی سے متعلق تاریخی ریکارڈز بتدریج زیادہ جاری کرتا جا رہا ہے جبکہ اس کی ماضی کی سرگرمیوں کے بارے میں اعترافات کر رہا ہے۔
- کراچی میں جاپانی شہریوں پر حملہ کیسے ناکام ہوا؟ - 19/04/2024
- نائن الیون سے قبل امریکہ میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حملہ جس میں سابق فوجی ملوث تھے - 19/04/2024
- کیا میدہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟ - 19/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).