ارسلان جوکھیو: پاکستانی ہچ ہائیکر جو لفٹ لے کر پورے ملک کی سیر کر چکا ہے


ہچ ہائیکر

دنیا گھومنے کا شوق کِسے نہیں ہوتا۔ کبھی کسی بچے سے سوال کر کے دیکھیں کہ وہ بڑا ہو کر کیا کرنا چاہے گا تو جھٹ جواب ملے گا کہ پوری دنیا کا سفر کروں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑے ہونے پر ہم میں سے اکثر بچپن کے اِس ارمان کا خون کر دیتے ہیں۔

لیکن کچھ دیوانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لڑکپن کی اِس خواہش کو مرنے نہیں دیتے۔ یہ سیلانی (آوارہ گرد) ہزار جتن اور دنیا بھر کی مخالفت مول لے کر انجان راستوں اور گمنام منزلوں کا رُخ کرنا نہیں چھوڑتے۔

پاکستان کے شہر کراچی کے 27 سالہ فوٹو گرافر اور ولاگر ارسلان جوکھیو بھی ایسے ہی ایک آوارہ گرد ہیں۔

ارسلان دنیا گھومتے ہیں لیکن جیب سے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر۔ کیسے؟ جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے۔

ہچ ہائیکنگ اور کاؤچ سرفنگ

جب سے انسان نے سفر شروع کیا ہے، تب سے ہی ہچ ہائیکنگ بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ لیکن جدید اصطلاح میں ہچ ہائیکنگ ایسے سفر کو کہا جاتا ہے جس میں مسافر انجان لوگوں کی گاڑی میں لفٹ لے کر سفر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کوئٹہ کی سیر، ہنہ جھیل سے لنجو پارک تک

کینیڈا کی ’موٹر سائیکل گرل‘ پاکستان کی سیر پر

چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا

دورانِ سفر کچھ ہچ ہائیکرز رہائش کے لیے کاؤچ سرفنگ بھی کرتے ہیں۔ یہ بین الاقومی سطح پر مروّج ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے کوئی بھی شخص کسی اجنبی کے گھر مفت قیام کر سکتا ہے۔

اِس کے لیے کئی ویب سائٹس استعمال کی جاتی ہیں جن میں سب سے مشہور ’کاؤچ سرفنگ ڈاٹ کام‘ ہے۔ ویب سائٹ کے ذریعے رہائش فراہم یا حاصل کرنے والے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور اِس طرح ایک شخص میزبان جبکہ دوسرا مہمان بن جاتا ہے۔

لفٹ لے کر ہی سفر کیوں؟

ایس او ایس چلڈرن ویلج میں اپنا پورا بچپن گزارنے والے ارسلان جوکھیو سفر کو صحیح معنوں میں انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک گاڑی یا ہوائی جہاز میں سوار ہو کر دوسری طرف اُتر جانے میں کوئی ایڈونچر نہیں ہے۔

’اصل مزا تو اِس میں ہے کہ اگر میں 100 کلومیٹر بھی سفر کروں تو کم از کم دو، تین نئے دوست بناؤں اور اپنا فرینڈ سرکل وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھی گھوم لوں۔‘

ارسلان کا ہچ ہائیکنگ کا شوق ابتدا میں اُن کی ضرورت تھا۔ ہر نوعمر لڑکے کی طرح اُن کی بھی جیب خالی اور خواب بڑے تھے۔

’بچپن میں بوائز سکاؤٹس کے ساتھ رہ کر مجھے سیاحت کا شوق ہوا اور میں نے اپنا ملک گھومنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اِس کے لیے میرے پاس وسائل نہیں تھے۔‘

ہچ ہائیکر

مہنگا شوق

ارسلان جوکھیو کہتے ہیں کہ چونکہ سیاحت ایک مہنگا شوق ہے، اِس لیے ہچ ہائیکنگ اور کاؤچ سرفنگ اِس کا بہترین متبادل ہیں۔

’میں نے یوٹیوب پر غیر ملکی ہچ ہائیکرز کی ویڈیوز دیکھیں اور اُن سے رہنمائی لی۔ اب میں بجٹ ٹریولنگ کرتا ہوں اور بہت کم خرچ میں اپنی پسندیدہ جگہوں کی سیر کر لیتا ہوں۔‘

لیکن ارسلان کے نزدیک ہچ ہائیکنگ صرف مفت سفر کرنے کا نام نہیں۔

’یہ درست ہے کہ بغیر پیسے خرچ کیے سفر کرنا ہچ ہائیکنگ کا سب سے بڑا فائدہ ہے لیکن ہچ ہائیکنگ اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ انجان علاقوں میں نئے دوست بنانے اور اپنا حلقہِ احباب وسیع کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔‘

ہپی ٹریل

سنہ 1950 سے 1970 کی دہائی تک دنیا بھر میں ہپی کلچر عروج پر تھا اور ہپیوں کا پسندیدہ ذریعہِ سفر ہچ ہائیکنگ ہی تھا۔

ہپی ٹریل پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان ہچ ہائیکرز کی مقبول منزل تھا اور کراچی، لاہور، پشاور اور راولپنڈی کی سڑکوں پر ہپی ہچ ہائیکنگ کرتے عام نظر آتے تھے۔ یورپی اور امریکی ہچ ہائیکرز ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے۔ یہاں سے وہ انڈیا کا رخ کرتے اور پھر نیپال تک جاتے۔ یہ سلسلہ سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب اور پھر افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کے بعد ختم ہو گیا۔

موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی مقبولیت کے بعد یہ رواج اب پھر فروغ پا رہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے کئی ولاگرز پاکستان آ کر یہاں ہچ ہائیکنگ کر چکے ہیں۔

ہچ ہائیکر

’نکلے تیری تلاش میں‘

ارسلان جوکھیو نے سفر کی نیت کی تو بیک پیک میں ٹینٹ اور سلیپنگ بیگ باندھا اور انگوٹھے کا نشان بنا کر سڑک کنارے کھڑے ہو گئے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران گاڑیوں میں لفٹ لے کر وہ آدھے سے زیادہ پاکستان دیکھ چکے ہیں۔

’میں اب تک پاکستان کے اکثر سیاحتی مقامات پر جا چکا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے صوبہِ سندھ میں تھرپارکر کا رُخ کیا کیونکہ میں ابتدا میں اپنے صوبے کو دریافت کرنا چاہتا تھا۔ پھر میں نے بلوچستان اور شمالی پاکستان کے علاقے بھی ہچ ہائیکنگ کے ذریعے دریافت کیے۔‘

ارسلان ہچ ہائیکنگ کے ذریعے پاکستان کے سب سے بلند مقام درہِ خنجراب تک جا چکے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں جانے کے نام سے بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔

ارسلان جوکھیو نے ہچ ہائیکنگ شروع کی تو ساتھ ہی ایک یوٹیوب چینل بھی بنا لیا۔ یہاں وہ اپنی آوارہ گردی کی کہانیاں لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور اُنھیں ہچ ہائیکنگ سے متعارف کراتے ہیں۔

’میرے سبسکرائبرز بھی مجھے نت نئے سیاحتی مقامات کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ وہ اکثر پیغامات بھی بھیجتے ہیں کہ آپ فلاں مقام پر ہچ ہائیک کر کے جائیں تو اِس طرح میں اُن کی خواہش بھی پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘

صبر کا پھل میٹھا

ہچ ہائیکنگ صبروتحمل کے بغیر ناممکن ہے۔ ارسلان جوکھیو کا کہنا ہے کہ جس شخص کے اندر صبر اور برداشت نہیں، ہچ ہائیکنگ اُس کے لیے نہیں ہے۔ ارسلان کے بقول وہ سڑک پر کھڑے ہو کر لفٹ کا انتظار کرنے کو ایک مسئلے کی طرح نہیں لیتے۔

’میرا مقصد کچھ اور ہے۔ میرا مقصد انجان اور دشوار راستوں پر سفر کرنا ہے۔ میں روڈ پر نکلا ہی ایڈونچر کے لیے ہوں، اسی لیے میں وقت کی قید سے آزاد ہوں۔ جو کوئی بھی ہچ ہائیکنگ کے ذریعے سفر کرنا چاہتا ہے وہ اِس مقصد کے لیے اپنے پاس کافی وقت رکھے۔‘

ہچ ہائیکر

پرابلم؟ نو پرابلم!

ملک کے چند گنے چنے ہچ ہائیکرز میں شمار کیے جانے والے ارسلان جوکھیو بتاتے ہیں کہ پاکستان میں لفٹ لے کر سفر کرنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں۔

’صرف یہ ہے کہ جب کبھی سفر کے دوران رات ہو جاتی ہے تو مجھے رُکنا پڑتا ہے۔ کبھی کسی ڈھابے پر رات گزارنی پڑتی ہے تو کبھی کہیں کیمپ لگانا ہوتا ہے۔‘

ارسلان گُر کی بات بتاتے ہیں کہ جب کافی دیر تک اُنھیں ایک مقام سے لفٹ نہیں ملتی تو وہ پیدل چلنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ نئی جگہ پہنچ کر لفٹ لے سکیں۔

’ایک بار مجھے تھرپارکر میں گرمیوں کی تپتی دھوپ میں 20 کلومیٹر ہائیک کرنا پڑی تھی۔ مجھے لگا کہ میں جہاں کھڑا ہوں وہاں لفٹ ملنی مشکل ہے تو میں نے پیدل چل کر جگہ تبدیل کی۔‘

ہچ ہائیکرز کے بقول کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

ارسلان یاد کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سندھ میں گورکھ ہِل سے واپس آتے ہوئے جامشورو ٹول پلازہ پر اُنھیں چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔

’میں تصّور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اتنی مصروف جگہ سے لفٹ لینے میں مجھے چار گھنٹے لگ جائیں گے۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور ڈٹا رہا کہ اگر آگے جاؤں گا تو ہچ ہائیک کر کے ہی جاؤں گا۔ پھر خوش قسمتی سے ایک شخص مل گیا جس نے مجھے میری منزل پر پہنچایا۔ دورانِ سفر وہ اتنا اچھا دوست بن گیا کہ آج بھی اُس سے رابطہ ہے۔ تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔‘

ہچ ہائیکر

’ٹاٹا‘ کرتے لوگ

تجربہ کار ہچ ہائیکرز بتاتے ہیں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہچ ہائیکنگ کوئی بچوں کا کھیل ہے۔ سخت جسمانی مشقت کے ساتھ ساتھ اِس کام کے لیے مضبوط اعصاب اور جذبات پر قابو پانے کا سلیقہ بھی آنا چاہیے۔

ارسلان کے مطابق ایسا اکثر ہوتا ہے کہ گاڑیوں میں سوار افراد مدد کرنے کے بجائے مذاق اُڑاتے ہیں۔

’جب میں سڑک کے کنارے کھڑا گاڑی روکنے کا اشارہ کرتا ہوں تو کچھ لوگ جواباً ہاتھ کے اشارے سے ٹاٹا کرتے نکل جاتے ہیں۔ تو اُس وقت تھوڑی مایوسی ہوتی ہے۔‘

جہاں کچھ لوگ جان بوجھ کر ہچ ہائیکرز کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں سفر کے اِس انوکھے طریقے کے بارے کچھ معلوم نہیں۔ ارسلان ایسے لوگوں کو ہچ ہائیکنگ کے بارے میں معلومات دیتے ہیں۔

’کچھ پوچھتے ہیں کہ مفت میں سفر کرنے کیوں نکلے ہو۔ کیا تمھارے پاس پیسے نہیں ہیں یا کیا تم غریب ہو۔ لیکن جب میں اُنھیں بتاتا ہوں کہ میں ہچ ہائیکنگ کر رہا ہوں اور ہچ ہائیکنگ کیا ہے تو وہ بڑے متاثر ہوتے ہیں اور مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

ہچ ہائیکنگ ضرور کریں

ارسلان جوکھیو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ ایڈونچر کے شوقین ہیں اور آپ کے پاس وقت بھی ہے تو زندگی میں ایک بار ہچ ہائیکنگ ضرور آزمائیں۔

’اگر آپ کو خوف ہے تو ابتدا میں کسی دوسرے شخص کے ساتھ مل کر ہچ ہائیک کریں۔ کوشش کریں کہ چھوٹے سفر سے شروع کریں اور اپنے شہر میں ہی دو تین دفعہ لفٹ لے کر تجربہ کریں۔‘

ارسلان ہچ ہائیکنگ کے دوران خود بھی محتاط رہتے ہیں۔

’میری کوشش ہوتی ہے کہ چوکنا رہوں اور گاڑی میں سو کر وقت نہ گزاروں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ ہمیشہ دن کے دوران سفر کریں اور اگر رات ہونے لگے تو وہیں رُک جائیں اور کسی نزدیکی ڈھابے یا پیٹرول پمپ پر رات گزاریں۔‘

ارسلان کے مطابق ہچ ہائیک کرتے وقت ضرورت کا سامان، کھانے کی کچھ چیزیں اور پانی ضرور ساتھ رکھیں۔ اور موبائل فون بمعہ پاور بینک ساتھ رکھنا ہرگز نہ بھولیں۔

ہچ ہائیکر

لفٹ لینے کی بہترین جگہ

ہچ ہائیکنگ کے دوران لفٹ لینے کے لیے بہترین جگہ پیٹرول پمپس، ٹرک اڈے اور ڈھابے ہیں۔ ارسلان جوکھیو کے بقول اگر آپ ہائی وے پر کھڑے ہو کر کسی کو رُکنے کا اشارہ کریں گے تو ڈرائیور کے لیے گاڑی روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن یہی ٹرک اگر کسی ڈھابے پر کھڑا ہو گا تو ڈرائیور آپ کی بات توجہ سے سُنے گا اور ممکن ہے آپ کو لفٹ بھی مل جائے۔

’ٹرک ڈرائیور صرف اِس لیے لفٹ دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی تنہائی ختم کرنا چاہتے ہیں اور کسی اجنبی شخص کے ساتھ باتیں کر کے وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ اِس لیے اپنے ساتھ بے شمار کہانیاں تیار رکھیں۔ میں جب بھی کسی ٹرک میں لفٹ لیتا ہوں تو ڈرائیور مجھ سے میری زندگی اور کام کے بارے میں بے شمار سوالات کرتے ہیں اور میں بھی اُنھیں دلچسپ کہانیاں سناتا رہتا ہوں۔‘

زندگی کا نیا زاویہ

ارسلان جوکھیو کا دعویٰ ہے کہ ہچ ہائیکنگ نے اُنھیں دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اجنبی لوگوں سے ملنے اور نئی جگہیں دریافت کرنے سے ان کی زندگی کے تجربات میں اضافہ ہوا ہے۔

’جب آپ ہچ ہائیکنگ یا کاؤچ سرفنگ کے ذریعے مقامی لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ اپنے علاقے کے بارے میں نئی اور منفرد معلومات دیتے ہیں۔ اِس طرح آپ کو بے شمار اَن دیکھی جگہیں دیکھنے اور ذائقہ دار پکوان چکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ سب چیزیں آپ کے زندگی کے نظریے کو نکھارنے کا باعث بنتی ہیں۔‘

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp