تصوف کورس کے الجھاؤ


چند دن پہلے وزیراعظم صاحب نے ملکی سطح پہ تصوف کورس کروانے کا عندیہ دیا اگرچہ اشارہ وہ القادر یونیورسٹی کے افتتاح کے موقع پہ کر چکے تھے، بہر حال اس حکومت کا اچھا قدم ہے۔ آپ کی حکومت میں سرخیل صوفیا کے مسند نشینوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور کئی لوگ جو پیشہ تصوف سے وابستہ ہیں ان کی ہمدردیاں بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

کافی عرصے سے ایک خاص طبقہ تصوف کی تعلیم رائج کروانا چاہ رہا تھا اور کئی نامور مفکرین و علماء اس کی ضرورت و اہمیت بیان کر رہے تھے بلکہ یوں کہیے کہ پاکستان میں تصوف کورس شروع کروانے کا پہلا خواب بھی شاعر ِ مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ علامہ اقبال اپنے خطبات ”The Reconstruction of Religious Thought in Islam“ میں لکھتے ہیں کہ:

”Humanity needs three things today a spiritual interpretation of the universe، spiritual emancipation of the individual، and a basic principle of a universal import directing the evolution of a human society on a spiritual basis“۔

”انسانیت کو آج تین اشیاء کی ضرورت ہے ( 1 ) کائنات کی روحانی تعبیر، ( 2 ) فرد کا روحانی استخلاص اور ( 3 ) ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشو و نما میں رہنما ہوں۔

وزیر اعظم صاحب القادر یونیورسٹی کے افتتاح کے موقع پہ اسی خطبے کی تشریح کرنا چاہ رہے تھے کہ روحانیت پہ رحونیت و روحونیات کا غلبہ ہو گیا اور بات مذاق بن گئی

خیر میں تصوف و صوفی کی تعریف و تخصیص اور اس کی وضاحتی بحث میں الجھے بغیر جس الجھن کا شکار ہوں وہ یہ ہے کہ تصوف کورس کا کورس کیا ہو گا اور اسے کون لوگ مرتب کریں گے اور اس مضمون کا دائرہ کار کس حد تک ہو گا۔ کیا یہ مضمون تصوف کی عالمگیر تشریح و تعبیر قبول کرے گا یا ہمارے ملک میں رائج صوفی روایت کی حکایات کا نام تصوف کورس رکھا جائے گا اور اس کی تعلیم کن اداروں میں ہو گی اور اس ڈگری کا مقصد کیا ہو گا؟

جہاں تک میرا اندازہ ہے اس وقت شاید ہی کوئی بستی ایسی ہو جہاں کوئی صوفی درگاہ نہ چل رہی ہو اگر میں اپنی سوچ کا دائرہ بڑھا بھی لوں تو ہر یونین کونسل لیول پہ دو یا تین صوفی درگائیں چل رہی ہیں۔ اب وہ کس طرح چل رہی ہیں اور انہیں کون چلا رہا یہ جاننے کے لیے شاید آپ کو کسی انوسٹی گیشن ایجنسی کی مدد حاصل کرنا پڑے۔ بعض خانقائیں تو زمانہ قدیم سے رونق ِخاص وعام ہیں جیسے پاکپتن شریف میں درگاہ بابا فرید رح، حجرہ شاہ مقیم رح، بہاء الدین ذکریا رح، موسی پاک شہید رح، جلال الدین بخاری اوچی رح مستونگ کی چشتی مودودی درگاہ، سیون میں سخی شہباز قلندر رح کی درگاہ، داتا صاحب علی ہجویری رح، بی بی پاک دامن علیہ سلام، چشتی بابا سواتی رح پیر مانکی، بھٹ شاہ وغیرہ کی درگاہیں جو سینکڑوں سالوں سے قائم و آباد ہیں۔ اورآج بھی اوقاف اور اپنے سجادگان کے ذریعے فیض جاری رکھے ہوئے ہیں۔

درگاہوں کی دوسری قسم جو اب رواج پا رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ بندہ سید خاندان سے ہے فوت ہو گیا ہے تو اس کا دربار بن گیا اور ایک مدرسہ اس سے ملحق ہو گیا اور درگاہ فیض بانٹنے لگے گی۔ کوی بڑے عالم دین یا مولوی صاحب انتقال کر گئے ہیں تو ان کا دربار کھڑا کر دیجیے وہ بھی صوفی درگاہ بن جائے گی۔ یہاں تک کہ کسی بھی خاندان کے کسی بھی بڑے بزرگ کی قبر پہ قبہ سج گیا تو وہ بھی سال بھر میں صوفی درگاہ کہلائے گی۔

تو کیا یہ درگائیں اب تصوف یونیورسٹی کا کام کریں گی جیسے مدارس سکول کے متبادل اپنی الگ تعلیمی شناخت رکھتے ہیں کیا اسی طرح یہ تیسرا تعلیمی طبقہ بھی اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ معرض وجود میں آنے لگا ہے؟

مجھ تصوف کی تعلیم رائج کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ میں اچھا قدم سمجھتا ہوں لیکن ساتھ ایک خوف بھی لاحق ہے کہ جب عام طالب علم وحدت الوجود و شہود کے نظریات پکڑ کے مولوئی سے بحث کرئے گا تو اپنے آپ کو کفر کے فتووں سے کیسے بچائے گا، منصور کے اشعار اور ابوبکرشبلی کی عبارات کی تشریح کرتے ہوئے وہ کس منطق کا سہارا لے گا، کیا مدرسے میں پڑھائی جانے والی منطق ابن العربی کا احاطہ کر سکے گی؟ تعویز، دم اور گنڈے بھی کیا اس کورس میں شامل ہوں گے۔ شاید نصاب مرتب کرنے والے ان عوامل کو بھی مد ِ نظر رکھیں گے۔

پھر بھی اس پر قانون سازی کیسے کی جائے گی، آرڈینینس آئے گا یا پارلیمان کا امتحان لیا جائے گا، کیا دربار بنوانے کے لیے متوفی کو این او سی لینا پڑے گا، نذرانوں پہ ٹیکس تو لاگو نہیں ہو گا؟ کیا پیروں کے لیے تصوف میں ایم اے کرنا ضروری ہو گا؟ کتنے سی جی پی اے والا کتنا بڑا پیر ہو گا، اول اول پیپر کون چیک کرے گا، کیا بڑی درگاہوں کے موجودہ گدی نشینون کو بھی یہ کورس مکمل کرنے تک بیعت لینے سے روک دیا جائے گا، کیا شاہ محمود قریشی بھی تصوف کورس میں داخلہ لیں گے؟

میں جو خود ایک صوفی روایت سے جڑا ہوں میرا کیا بنے گا فلسفہ و قانون کی تعلیم کے بعد تصوف کورس میرے لیے آسان رہے گا بھی کہ نہیں۔ میں واقعی تجسس کا شکار ہوں اور جہاں وزیر اعظم کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ تصوف کی باقاعدہ تعلیم دی جائے گی تو یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے میں جہالت کم ہو گی، اور آخرکار روحانی درگائیں نا اہل افراد کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچ جائیں گی وہیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا ہم اس قسم کی تعلیم کے لیے تیار بھی ہیں کیا تصوف کی ڈگری کے حصول کے بعد ہر شخص نذرانے بٹورنے اور جادو وادو کی چکر بازی سے عام عوام کو بلیک میل کرنے میں مشغول تو نہ ہو جائے گا؟ وزیر اعظم صاحب خدارا ٹکڑوں میں بات نہ کیا کریں اپنا پورا پلان عوام کے سامنے رکھیں اور بتایے کہ وہ کون سا کورس کریں جس سے مہنگائی کم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments