علی شیر نوائی، ازبکستان کا قومی شاعر


تاشقند کی اِس میٹھی سی دھوپ میں یہ سنتے اور نوائی کے چمکتے مجسمے پر نگاہ ڈالتے ہوئے میں نے قدرے تعجب سے اپنی گائیڈ آریانا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”ارے تمہارا شاعر کیسے ہوگیا۔ یہ تو افغانستان کے مغربی شہر ہرات جیسی تہذیبی اور علمی جگہ کا جم پل اور وہیں دفن بھی ہے۔ “

نوجوان آریانا نے فخر وغرور سے پُر لہجے میں تُرت جواب دیا تھا۔

”ہرات ہمارا ہی تو حصہ تھا۔ ہمارے تیمور جیسے عظیم شہنشاہ کے دور میں اور نوائی اُسی دور کا ہیرا ہے۔ “

”اوہ“

کہتے ہوئے مجھے اپنی کم علمی پر افسوس ہوا۔ البتہ پھر یہ ضرور ہوا کہ اپنے اِس سیر سپاٹے اور تاشقند یونیورسٹی میں شعبہ اورینٹیئل سڈیز میں گھومتے پھرتے کتابیں دیکھتے پھرولتے شاعر میری ترجیحات میں رہا۔

تو 9 فروری 1441 ء میں ایک ارسٹوکریٹک فوجی خاندان میں پیدا ہونے والا یہ علی شیرنظام الدین علی شیرہروائی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ تعلیمی سلسلہ زیادہ ہرات اور مشہد میں ہوا۔ یہ شخصیت ادب اور فنون لطیفہ کی چند ایک نہیں بلکہ بے شمار جہتوں سے نہ صرف وابستہ بلکہ اُن میں کمال فن کے درجے پر پہنچی ہوئی تھی۔ اگرچہ وہ رومی کے کوئی 250 سال بعد پیدا ہوا۔ وسط ایشیا کا یہ عظیم انسان اپنی صوفی روایات سے جڑا ہوا تھا۔

اتنی مختلف جہتوں میں کام کرتا، کہیں کمال کا مصور، کہیں سیاست دان، کہیں ماہر تعمیرات۔ ان سب کے ساتھ شاعری کے والیوم۔ اِس سلسلے میں وہ دانتے Chaucer (قرونِ وسطیٰ کا انگلش شاعر) اور Galoardsجیفرے (لاطینی شاعر) کی طرح کا ہی تھا۔ شاعر، ادیب، مترجم، سیاست دان، ماہر لسانیات، ماہر تعمیرات، صوفی کتنے روپ تھے اِس نوائی کے۔

اس وقت کا ہرات علم وادب کا گہوارہ، اسلامی تہذیب وثقافت کا مرکز گردانا جاتا تھا۔ شہنشاہ تیمور بذات خود علم وفن سے بہر ہ ور اور اس کا بانی وسرپرست تھا۔ علی شیر خود چغتائی امر (جنہیں فارسی میں میر کہا جاتاتھا) سے تعلق رکھتا تھا جو اُس وقت کی سوسائٹی کی ایلیٹ کلاس تھی۔ باپ غیاث الدین کچکیناkichkina خراسان کے حکمران شاہ رخ مرزا کے محل کا افسر اعلیٰ تھا۔ ماں بھی محل میں شہزادے کی گورنس تھی۔ خاندان تیمور شہنشاہ کے بہت قریب تھا۔ اپنے پہلے ٹرکش دیوان کے دیباچے میں وہ لکھتا ہے۔

میرا باپ تو محل باڑی کی مٹی جھاڑتا تھا ماں وہاں خادمہ تھی

خود میں اُس درباری باغ کی بلبل یا کوّا اس باغ سے باہرجو کچھ بھی ہوتا

میری روح جدائی کی ٹیسوں سے بے حال رہتی

عظیم تاریخ دان Hondamir کے مطابق عہد ساز شاعر نطفی نے اس کے بچپن میں اُسے دیکھا۔ بات چیت کی اور کہا۔

”بہت فطین بچہ ہے۔ نامور ہوگا۔ “

1447 ء میں خاندان کو ہرات سے بھاگنا پڑا کہ شاہ رخ کی موت نے خراسان میں ابتری کی صورت کو جنم دیا تھا۔ علی شیر نے اپنی تعلیم مشہد ہرات اور سمر قند سے حاصل کی۔ علی شیر نوائی کی زندگی سادہ بے حد مذہبی اور مجر د قسم کی تھی۔ شادی نہیں کی۔ ملازمت کا جہاں تک تعلق ہے خراسان کے سلطان کے منتظم اور مشیر اعلیٰ تھے۔ وہ ماہر تعمیرات بھی کمال کے تھے کہ تعلیمی درسگاہیں، مسجدیں، خانقاہیں، سرائے، پل، حمام بہت کچھ تعمیر کروایا۔ تعمیرات میں سب سے اہم صوفی شاعر فرید الدین عطار نیشاپور کا مقبرہ ہے اور ہرات کا مشہور مدرسہ۔ تعمیرات، ادب، شاعری اور دیگربے شمار حوالوں سے اِس عہد کو تیمور کا دُور ِنشاۃ ثانیہ کہا جاسکتا ہے۔

آغاز کا کچھ کام پرانی ازبک زبان میں ہے۔ مغرب میں اِسے چغتائی لٹریچر کہا جاتا ہے۔

نوائی ترکی زبان کا بہت بڑا مدّاح تھا۔ وہ اِسے فارسی زبان پر فوقیت دیتا اور مقابلتاً افضل گردانتا تھا اوراِس بارے وہ بڑا واضح اور دوٹوک تھا۔ شاعری کو اِس نے اپنی مقامی زبان میں کرنے کو ترجیح دی۔ شاید کہیں اس کی دلی محبت کا جھکاؤ بھی یہاں شامل تھا۔ اس نے اِسے اپنے کام سے ثابت بھی کیا۔ جب لکھنا شروع کیا تو قلمی نام نوائی رکھا۔ علی شیر نوائی نے ترک زبانوں میں انقلابی سطح کا کام کیا۔ تیس سالوں میں تقریباً تیس والیوم کا کام جس نے چغتائی زبان کو محترم و معزز بنادیا۔ بہت سا کام فارسی میں بھی ہے۔ یہاں قلمی نام فینی تھا۔ عربی میں البتہ قدرے کم ہے۔ اِس منفرد چغتائی زبان میں شاعر ی کرنے کی وجہ سے ترکی بولنے والی پوری دنیا میں وہ ترک لٹریچر کے اولین بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔

نظموں میں بہترین کام زیادہ تر چار دیوانوں میں موجود ہے۔ بہت سا کام شاعری کے مجموعوں میں بھی پایا جاتا ہے جو تقریباً 5000 اشعار پر مشتمل ہے۔ شاعری کی انفرادیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس کے کام کا ہر حصّہ زندگی کے مختلف حصّوں کا منفرد انداز میں ترجمان ہے۔

اِن نظموں کی ایک اور نمایاں خوبی غزل کی ساخت ہے۔ قدیم عربی شاعری کے اندازو اطوار کے ساتھ غزل خراسان اور وسط ایشیا میں پھیلتی چلی گئی۔ جس پر صوفیانہ رنگ ڈھنگ اثر انداز ہوتا گیا۔ اس کی ساخت کے ڈھانچے میں وہی مخصوص محبت اور جدائی کا رنگ غالب رہا۔

استنبول کی سلیمان ذی شان لائبریری میں نوائی کے مندرجہ ذیل دیوان موجود ہیں۔

1۔ غاراب الصغیر (بچپن کے اسرار ) 2۔ نوادرال شباب (جوانی کی ندرتیں )

3۔ بدی ال وسط (اُدھیڑ عمری کے معجزے ) 4۔ فوائد الکبیر (بڑھاپے کے فوائد)

اس کاپہلا چغتائی ترک دیوان غاراب الصغیر بہت ساری وجوہات کی بنا پر بہت دلچسپ ہے۔ اس کا دیباچہ ہی اندر کی ساری کہانی کھول دیتا ہے۔

جوانی کے جوشیلے جذبوں کا پاگل پن جس نے شاعر کو سنجیدہ مطالعے، موسیقی اور شراب سبھوں سے قدرے دور کر دیا تھا۔ اِس کا اظہار احمد عبد اللہ حجازی کی سوانح حیات کے خاکے میں محسوس کیا جا سکتاہے۔ سلطان حسین کے لئے شکر گزاری کے گہرے جذبات کہ جو کردار سلطان نے اپنے وقت میں علم وفنون کو عروج دینے اور اس کی شاعری کو سنوارنے میں ادا کیا وہ لائق صد تحسین ہے۔ شاعری میں اس کا اظہار اس طرح سامنے آیا ہے۔

جب بادشاہ نے درستگی کے لئے قلم ہاتھ میں پکڑا

تب ہر سطرشاہکار بنی اور ہر لفظ معتبر ٹھہرا

علی شیر نوائی کے بہت سے دیگراہم کاموں میں خمسہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ پانچ رزمیہ نظموں کی صورت میں موجود ہے۔ ایک طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظامی گنجوی کے خمسہ کی کسی حد تک نقل ہے۔

1۔ حیرت ال ابرار (صالح لوگوں کے اسرار) 2۔ فرہاد وشیریں 3۔ لیلیٰ ومجنون 4۔ سبعہ سیّار (سات سیارے )

5۔ سد سکندری (سکندر اعظم کے بارے ) 6۔ لسان اطیر

نوائی کے خمسہ کی دوسری داستان شیریں فرہاد جو 1484 ء میں لکھی گئی اس کا شمار کلاسیک میں ہوتا ہے۔ رومیو جیولیٹ کی طرح کی رومانی داستان وسط ایشیا کی محبوب کہانی۔ اسی طرح چار موسموں پر بھی قصیدے ہیں۔

ترک شاعروں کی نوائی نے بہت مختلف انداز میں بھی تربیت کی۔ ”میزان ال اوزان“ یعنی میٹروں فاصلوں پر بھی شاعری کی اصطلاحیں ایجاد کیں۔ ”مجالس ال نفیس“ میں بڑے لوگوں کی مجلسی محفلوں کے آداب پر پوری عصری شعرا کی سوانح حیات اور اُن کے کام کی تنقیدی جائزوں پر مشتمل کتاب 450 خاکوں پر مشتمل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مجموعے کو سونے کی کان سے مشابہت دی جاسکتی ہے کہ جس نے امیر تیمور کے زمانے کی خوبصورت ثقافتی اور دلکش تصویریں کھینچ دی ہیں۔

منطق لسان بظاہر پرندوں کی بولیوں پر مگرایک بے حد انوکھی وضع کی کتاب جو اس کے فلسفیانہ اور صوفیانہ نظریات پر مبنی ہے۔ انسان جسے خدا کی ضرورت ہے اور تلاش ہے۔ دنیا بھر کے پرندوں کو مثالیہ انداز میں کردار بناتے ہوئے جو اپنے بادشاہ سے دور اور اس کی کھوج میں ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہاں کیا وہ نیشا پور کے فرید الدین عطار کی شہرہ آفاق کتاب منطق اطیر سے متاثر ہوا۔

Waqfiaوقفیہ بھی نوائی کا ایک اہم دستاویزی کام ہے۔ اسے بھی 1481 ء میں فینی کے نام سے لکھا گیا۔ اس میں شاعرکی دنیا داری سے بھر ی ہوئی زندگی کی جھلکیاں ہیں۔ رومانیت کا وہ کسی حد تک قائل تھا اور اس کی روزمرہ زندگی میں کتنا دخل اس کاتھا۔ اس کے تشنہ خواب اس کی ادھوری رہ جانے والی خواہشوں سبھوں کے عکس ان کا اظہار بہت دل پذیر انداز میں سامنے آتا ہے۔ Wagfiyaتیرہویں صدی کی سماجی اور ثقافتی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی کتاب ہے۔ اسی طرح لیلیٰ مجنون چھتیس ابواب پر مشتمل 3622 اشعار پر مشتمل۔ یہ بھی انہی سالوں میں لکھی گئی۔

سروج المسلمین۔ یہ اور اہم کا م ہے۔ اسلامی قوانین اور اسلام کے پانچ اہم ستون شریعہ، نماز، زکوٰۃ، اور حج۔ اُسے حکومت ازبکستان نے 1992 ء میں بہت اہتمام سے چھاپا۔

نور الدین عبدالرحمن جامی کی نغمات انس کو چغتائی ترکی میں ترجمہ کیا۔ اور اسے کیا خوبصورت نام دیا۔ نسیم المحبت۔ اس کے صوفیانہ اور مذہبی خیالات اس کتاب میں بھرپور انداز میں سامنے آئے۔ فارسی کی شاعری بھی 6000 لائنوں پر مشتمل ہے۔

نوائی کا آخری شاہکار کام Muhakmat al۔ Lughataynمحا کمتہ اللغتین کا ہے۔ 1499 میں لکھی جانے والی یہ کتاب دراصل دو زبانوں کے درمیان ادبی تقابلی جائزہ لیتی نظر آتی ہے۔ یہ کام بھی وہ بڑے دلچسپ انداز میں کرتا ہے۔ عورت کے چہر ے پر حسن کے نشان کے لیے ترکی میں جو لفظ موجود ہے وہ فارسی میں نہیں۔ چغتائی زبان میں الفاظ کے تین چار معنی بہت عام ہیں۔ جبکہ بقول نوائی کے فارسی میں نہیں۔ یعنی دو زبانوں کا موازنہ۔ فارسی اور ترکی کی صورت میں ہوا۔ جہاں بہرحال انہوں نے بڑے مضبوط دلائل سے ترکی زبان کی وسعت پذیری، اس کا لوچ، رس اور صحت کو افضل گردانا۔

یورپ میں علی شیر نوائی کے نام اور کام سے شناسائی بہت دیر میں ہوئی۔ ڈینس ڈیلی Dennis Daily کو پڑھئیے کہ وہ اِس ضمن میں کیا کہتا ہے۔

تمہارے سامنے ایک خداداد لکھاری ابھرتا ہے جو شاید تمہارے لیے میری طرح نہیں ہو۔ میرے لئے تو سب سے پہلا سوال خود اپنے آپ سے تھا کہ یہ شاعر کون ہے؟ اور میں نے اس کے بارے اب تک کیوں نہیں سُنا اور پڑھا؟ میری عمر کے بہت سے لوگوں کی طرح میری بھی توجہ تعلیم اور مغربی ادب پڑھنے پر ہی مرکوز رہی۔ پھر جب دوسرے خطوں کے ادب نے توجہ کھینچی تو سب سے پہلے فارسی کے صوفی رومی اور حافظ نے متاثر کیا۔

مگر نوائی کو پڑھنا کتنا حیرت انگیز تھا۔ رومی اور دوسرے شعرا کی طرح نوائی کی نظمیں بھی اپنی ظاہری چمک دمک کے ساتھ ساتھ معنی کی بھی بہت گہرائی میں بھی اُترتی ہیں۔ پڑھنے میں لُطف دیتی، دوبارہ اور سہ بار پڑھنے پر اُکساتی آپ کے قلب و نظر میں سکون اتارتی چلی جاتی ہیں۔

دیکھیے ذرا۔

کتنے سال میں گوشہ نشین رہا

خواب، خواہشیں اور منظر اکساتے ہیں

کتنے سال میں نے خود کو چھپایا

کہ زندگی کے موتیوں کی کھوج کروں

یہ حیران کرنے والی بات نہیں

کہ نوائی صحرا کی طرف چل پڑا

اس تسکین کے حصول کے لیے

جو درد عشق نے پیدا کیا

اور یہی تو وہ ہے جو اس کے اندر گہرائی میں اُتر گیا

ذرا اِسے پڑھیے۔

میرے نزدیک ذہنی وسعت اور خوش نصیبی کے بغیر

بے صبری کی آگ بھسم کردینے والی ہے

عقل و خرد کے محافظ غائب ہوگئے ہیں

اور میر کارواں متوقع آگ سے بچاؤ کے لیے بے بس ہے

ایک برق سی کوندی ہے اور اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا

بھیڑ کا بہاؤ پھٹتا ہے

اور جیسے آگ کا سمندر سا بن جاتا ہے

سمجھو

نوائی میں اپنے درد سے منکر ہوجاتا ہوں

جیسے Masandran کے جنگل آگ سے سرخ ہوجاتے ہیں۔

یہاں نوائی کا ایک اور انداز دیکھئیے۔

تمہارے بغیر بہارمیرے لئے

دوزخ جیسی ہی ہے

جوبن پر کھلا ہوا سرخ پھول

جیسے دہکتی آگ ہو

یہ ہرگز عجیب بات نہیں

کہ جنت بھی دوزخ جیسی ہی ہے

اگر وہاں تمہاری دید نہیں

اس کے خوابوں کی فینٹسی جب مجھے محسوس ہوتی ہے

میرے چہرے پر آنسو دردو غم کی جھریوں کی قطاریں بنا لیتے ہیں

طبیب بیمار آدمی کے لیے لذیز پھل تجویز کرتا ہے

یہ حیرت کی بات نہیں

اگر تمہارے شریں لبتضحیک آمیز رویہ اختیار کریں

بے رحم حسینہ، ستم گر حسینہ

روح اپنی عدم وجودیت میں کسی ہاتھ تھامنے کی متمنی ہورہی ہے

کیونکہ اسے احساس ہے

یہ وجود اپنی صورت میں بڑاٹیڑھا اور گنوار ہے

مت کہو کہ نوائی بے لباس ہے

نہیں وہ پہنتا ہے

عدم وجودیت کا چوغہ

بدقسمتی کا پیرہن جسے جھوٹ نے سیا ہے

دسویں دن کا چاند جب کمان کی صورت رہ جائے

تب آسمان

بادشاہ کے نیلے گھوڑے کے سامنے شاہی نقیب بن جاتا ہے

اسے بھی پڑھئیے۔

میں تمہارے بغیر زندگی گزارنا

جان گسل اذیت سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔

اے روح مرجانا بہتر ہے

بجز راس زندگی کے جو تمہارے بغیر گزرے

مردے سانس نہیں لیتے

میری آہ و بکا اور چیخ و پکار بے ثمر ہے

اگر تم مجھ پر نظریں نہ ڈالو۔

یہ ایسے ہی ہے

جیسے دنیا کی نظروں سے اوجھل بلندوبالا پہاڑوں پر بجلی چمک جائے

میرے رنج و الم و وارفتگی کے کوئی معنی نہیں تمہارے بغیر

بالکل ایسے ہی جیسے پہاڑوں پہ بجلی گرے

رنج و الم اور فکر سے مردوں کو بھلا کیا غرض

لیکن تم سے جدائی کا رنج مجھے چور چور کردیتا ہے

جدائی کی تکلیف سے آسمان میرے سر پر پھٹ گیا ہے

دیکھیں یہ دن آخر کار کیا رنگ دکھاتے ہیں

اگر تم عہد وفا کرو تو نوائی لافانی ہوجائے

تم سے جدا ہوکے تو اک پل بھی ممکن نہیں میرا زندہ رہنا

میری خواہش ہے کہ کبھی کسی پر ایسا مشکل وقت نہ آئے

جیسا کہ مجھ پر ہے

تمہارے بغیر میری ہوش مندی، عقل و خرد اور کاردُنیاسب بیکار ہیں

سچ تو یہ ہے کہ نوائی وسط ایشیا کے ترک لوگوں کے محبوب شاعروں میں سب سے اہم نام ہے۔ اُسے بلا شک وشبہ چغتائی زبان وادب کا بہت بڑا نمائندہ کہا جاسکتا ہے۔ اس زبان پر اس کی مہارت اور کام کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ اُسے نوائی کی زبان کا ہی درجہ دے دیا گیا ہے۔ سوویت اور ازبک ذرائع کا اعتراف ہے کہ ازبک زبان کا بانی بلا شبہ نوائی کو ہی کہا جاسکتاہے۔

1941 ء میں پورے سوویت یونین میں نوائی کا پانچ سو سالہ جشن منایا گیا تھا۔ پورے وسط ایشیا میں بے شمار مقامات اور جگہیں اس کے نام پر منسوب ہوئیں۔ تاشقند میٹرو اسٹیشن، انٹرنیشنل ائیر پورٹ۔

تاہم اب آزادی کے بعد ازبکستان نے اپنے شاعر کوابدیت کا پھول کا ٹائیٹل اس کی پانچ سو اکہترویں 571 سالگرہ کے موقع پر دیاہے۔

اس کی نظم کے اس بند سے اُسے خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اِسے ختم کرتی ہوں۔

گرینائیٹ کے انبار میں موتی کی طرح

راکھ کے ڈھیر میں دہکتے کوئلے کی طرح

کانٹوں کے درمیان سرخ گلاب کی طرح

اور بے جان وجود میں ایک صاحب ِعلم روح کی طرح


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments