حریم شاہ کے پہلو میں مفتی قوی۔۔۔ خدا خیر کرے


کبھی جانا آپ نے، کیسے کوئی بنتا ہے اسفل السافلین!

آنکھ سےلہو رستا ہے، دل ہے کہ تھم تھم کے چلتا ہے۔ ہم نے ایک مرد کی ہرزہ سرائی سنی اور دیکھی ہے، جھوٹی انا، غرور اور اپنے آپ کو ہر جزا اور سزا سے مبراسمجھنے والے مرد کے الفاظ نے کانوں میں سیسہ انڈیل دیا ہے۔

کیا کوئی قوت بصارت رکھنے والا اس قدر اس قدر نادان ہو سکتا ہے کہ اسےاپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آئے؟ یہ کس طرح کا مولوی ہے جو سر عام فلرٹ اور معنی خیز باتیں کرتا ہے؟ یہ کیسا بے حس ہے جس کے کر دار پہ پچھلے دھبے دھلےنہیں اور یہ پھر نکل کھڑا ہوا اپنا جھوٹا وعظ لے کر؟ کس طرح کی حیا کی تلقین کرتا ہے جو صرف عورت کے گرد گھیرا تنگ کرتی ہے؟

موصوف نہی عن المنکر، امر بالمعروف کی چلتی پھرتی تصویر بنے پہلے ایک جہنمی عورت کو کیفر کردار تک پہنچا چکے، کوئی مائی کا لال، بال تک بیکا نہ کر سکا۔ اب اگلے شکار کی تیاری پہ کمر کس کے پیغام بھیجا جا چکا کہ تم ان راہوں پہ چل کےمعاشرے کے جن اشراف کا اصل چہرہ دکھانے چلی ہو، وہ ناگوار خاطر تو ہے لیکن پھر بھی میں آگاہ ہوں کہ تمہارے دل میں کلمئہ طیبہ رچا بسا ہوا ہے۔

“بس ذرا آ کے اک ملاقات تو کر لو”

یہ ہیں مفتی قوی المعروف قندیل بلوچ فیم جن کا حالیہ وڈیو کلپ زبان زد عام ہے۔ موصوف دست شفقت حریم شاہ کے سر پہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، گویا حریم شاہ کو بھی موت کا ٹکٹ الاٹ کر کے، بخشش کی نوید سنا کے، جنت کی حور بنانے کا ارادہ ہے۔

اب کے بھی موصوف کا طریقہ واردات بھی وہی ہے اور انداز بھی۔ چونکہ قندیل بلوچ کو ٹوپی پہنانے کے بعد ملنے والی شہرت سے دستار اچھل گئی تھی، سو اس دفعہ جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے سوچ کی پرواز ذرا مختلف رنگ لئے ہوئے ہے۔ گرگ باراں دیدہ کے ناخواندہ مرید قندیل بلوچ کی ٹوپی پہنے ماڈرن اندازکی سیلفی سے برافروختہ ہوئے تھے سو ان کے جذبہ ایمانی کی تسکین کے لئےحریم شاہ کو دوپٹہ پہنا کے سیلفی بنوانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔

وڈیو کلپ میں موصوف نوجوان کمپیر سے اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں اور کسی جملے میں لفظ چاند کہہ کے خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ افسوس ہمیں کمپئرنگ کی سعادت حاصل نہ ہوسکی ورنہ سیدھے سبھاؤ پوچھ ہی لیتے کہ درون خانہ بھاری چلمن کی اوٹ میں کتنے چاند ان کے سائے میں پل رہے ہیں اور کیا ان سے بات کرتے ہوئے بھی زبان و بیان میں شیرینی اور حلاوت اسی طرح گھلتی ہے؟

موصوف بڑی ڈھٹائی سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ رشید ذرا ڈرپوک ہیں، سو جلدی دل چھوڑ چھاڑ کے خانہ خدا کی زیارت کو نکل جاتے ہیں۔ البتہ مفتی صاحب اپنے آپ کو ان وارداتوں کا گھاگ، ماہر فن سمجھتے ہیں سو وہ کھل کھیلنے کے شوقین بھی ہیں، عادی بھی اور بے خوف بھی۔

مفتی صاحب، مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا کے مصداق اپنی عمر اٹھائیس برس پہ ٹھہرانا پسند فرماتے ہیں۔ ان کی قیمتی رائے میں اس عمر کا مرد بہت تجربہ کار ہوچکا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شکاری چارہ ڈالنے اور گھیرا تنگ کرنے میں کماحقہ کمال حاصل کر لیتا ہے۔ شکار کو کتنی ڈھیل دینی ہے؟ کب پھندا کس لینا ہے؟ کس کے ہاتھ میں پھندا دے کے ہلا شیری دینی ہے؟ یہ سب ترکیبیں ازبر ہو جاتی ہیں۔

مفتی قوی کا گناہ گار عورتوں کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرنے کا شوق عروج پہ نظر آتا ہے۔ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، ہمارے معاشرے کے مردوں کی اکثریت اسی مالیخولیا میں مبتلا ہے۔ مذہب کا چولا اوڑھ کے تلقین شاہ بننے کاشوقین، سوشل میڈیا میں ہمہ وقت رہنے کی فکر، گزری جوانی کو روکنے کےحربے، نو عمر اور ناپختہ خواتین کی طرف دیکھ کے معنی خیز جملے، آنکھ میں بوالہوسی، اور پھر یہ سمجھنا کہ مجھے ہے حکم اذاں!

ہمارے ہاں کا مرد اپنی رنگین جوانی بتا کے، خدا کے ہاں حاضری سے پہلے اپنے نامہ اعمال میں بھٹکی ہوئی عورت کو رہ راست پہ لانے کا لاحقہ سجانا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ عورت کو ہمہ وقت شیر کی آنکھ سے دیکھنا جیسے بکریوں کےریوڑ کے ساتھ ایک چرواہا مسلسل قطار سے نکلنے والیوں کو چھڑی سے ہنکاتا پھرتا ہے۔ گلے سے منہ موڑنے والیوں کو نہ صرف چھمک کا حقدار سمجھا جاتاہے بلکہ مقتل گاہ میں قربانی بھی جائز قرار دی جاتی ہے۔

منافقت کی حد دیکھیے کہ یہ وہی مرد ہے جس کی نظر میں وہ خود اسلام، اخلاق اور تمام معاشرتی حدود وقیود سے بالاتر ہے۔ سو تبلیغ اپنی جگہ مگر یہ ماننے میں تامل نہیں کہ وجود زن کا ساتھ چاہیے سو دن عید اور رات شب برات بنانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ عورت کی ہمراہی کی تمنا تو رکھتا ہے لیکن کھڑکیوں پہ دبیز پردے کی تہیں بھی چاہتا ہے تا کہ جھوٹی پارسائی کا پردہ چاک نہ ہو، مصنوعی بھرم نہ ٹوٹے، پگڑی اونچی رہے۔

ہمیں ہنسی آتی ہے ان سب کی سادہ لوحی دیکھ کے، آئینوں کے شہر میں، جس حمام میں سب ایک جیسے ہیں، وہاں آرزو ہے کہ پس پردہ ناز وانداز کا کاروبار چلے۔

ہمیں نہ ہی قندیل بلوچ سے کچھ لینا دینا تھا اور نہ ہی ہم حریم شاہ کے مداحوں میں شامل ہیں۔ ہماری آرزو تو صرف اتنی ہے کہ گدھ بننے والے مردوں سے یہ عرضی گزاری جائے کہ کبھی تو، کہیں تو منہ سے گرتی ہوئی رال اور آنکھ سےٹپکتی ہوئی ہوس پہ کچھ بند باندھنے کا خیال کیا جائے۔

دوسروں کو دوزخ کی آگ سے ڈرانے والے کیا امیدیں باندھے کھڑے ہیں آخر؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments