حلال بستی حرام خواب


اس بستی تک پہنچے کے لئے ہم نے ٹرانسپورٹ کون سی استعمال کی یاد نہیں پھر بھی ہم پہنچ گئے تھے۔ بستی کے بارے میں آج تک جو معلومات مختلف ذرائع سے حاصل کرچکے تھے وہ جنت کے بارے میں میرے معلومات سے مشابہت رکھتے تھے۔ مگر ایک بات شروع میں کنفرم ہوجائے کہ میں دنیا کو جنت جیسی بنانا اور دنیا میں جنت جیسی کسی بستی کا تصور حرام سمجھتا ہوں۔ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں ایسی بستی کے وجود کو انسانیت کی توہین سمجھتا ہوں بھلا دنیا میں ہی جنت جیسی بستی کا وجود۔

کیا واہیات تصور ہے۔ دنیا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ایک دوسرے کی برائی کرنے، اپنی رائے مسلط کرنے، اپنا پورا علم دوسرے کو غلط ثابت کرنے اور خود کو جنت کا حقدار قرار دینے کے لئے بنی ہے۔ یہ سب کام انجام دینے کے بعد دنیا کا جو حال ہوگا اس حال میں دنیا جنت تو بننے سے رہی اس لئے میں اس رائے سے سو فیصد متفق ہوں کہ دنیا کو جنت یا جنت جیسی بنانے کی ہر کوشش حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ میں خود اور نہ دنیا کے کسی باسی کو دنیا میں تھوڑی سی بھی بہتری لانے، مخلوق خدا کی زندگی میں کوئی بھی آسانی پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش سے ہمیشہ روکے رکھنا اپنے فرائض میں شمار کرتا ہوں۔

تو آئیے سنتے ہیں سفر کی کہانی! جس معاشرے سے اٹھ کر اس بستی میں آئے تھے اسی معاشرے کے مزاج کی عکاسی کرتے ہوئے سفر کے آغاز میں اس بستی کے پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے بہت تلاش کیا کہ کوئی ٹھیکہ دار مل جائے اور میری اس بستی کے سفر کو جائز یا ناجائز قرار دے۔ بیانیہ وصول کرے، اوپر تک اپنی پہنچ کے بارے میں دلائل پیش کرے، اپنے علم پر نازاں اور میری کم عقلی پر ماتم کرے، اپنے آپ کو سندیافتہ اور میرے لئے بھی دونوں جہاں کی کامیابی کا سرٹیفیکٹ تیار کرے۔

مگرتلاش بسیار کے بعد بھی کوئی ایسا نہیں ملا۔ ہم حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ یہ کیسی بستی ہے جہاں ہر بات پر روکنے ٹوکنے والا اور اپنی دکان چمکانے کے لئے دوسروں کی زندگی حرام کرنے والاکوئی فرد موجود نہیں۔ یہ بستی کیسے آباد ہے بلکہ قائم ہی کیوں ہے۔ نیک لوگوں کی غیر موجودگی میں تو اس بستی کو برباد ہوناچاہیے تھا۔

جب لگا کہ میں ٹھیکہ داروں کی دنیا سے بہت دور کہیں کسی ایسی بستی میں آگیا ہوں جہاں ایک انسان صرف انسان ہے۔ کسی کو فرشتہ بننے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو انسانوں کو مختلف درجات میں تقسیم کرکے ان میں سرٹیفیکٹ تقسیم کرنے کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ دل کو یک گونہ سکون میسر ہوا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں خود بھی کئی ٹھیکہ داروں کے ساتھ کام کرچکا تھا۔ کچھ کچھ ٹھیکہ داری کے گر میں خود بھی سیکھ چکا تھا اور اگلی نسل کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ سارے حربے آزمانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اس کنٹرول کو اپنا حق بھی سمجھتا تھا اور آنے والی نسل کی ضرورت بھی۔ اگر میں اس ٹھیکہ داری سے دستبردار ہوتا تو ہزاروں اور لائن میں اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ ان کو میری دستبرداری اطمینان ہی بخشتی۔ زمانے اور زمانے کے اصولوں یا پھر ٹھیکہ داروں کو کیا فرق پڑتا ایک میری دستبرداری سے۔ کچھ بھی تو نہیں۔

پہلی دفعہ اپنی مرضی سے منوں کے حساب سے کھینچ کے گہری سانس لی۔ آزادی کا احساس جب ہر سو ہونے لگا تو اپنی حالت کا جائزہ لیا پتہ چلا کہ جسم کے روئیں روئین میں ایک عجیب شیرین سی بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور اردگرد کے ماحول میں خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں۔ نشہ کیا ہوتا ہے نہیں پتہ مگر اس بستی کی خوشبو میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ میں پاؤں کہیں رکھنا چاہتا وہ کہیں اور پڑتا۔ فضول میں مسکرانے کو جی چاہنے لگتا۔ حالانکہ بے وجہ مسکرانا بھی مکروہ ہے مگر میں بے اختیار ہوچکا تھا یہاں جو بھی ہورہا تھا اپنے آپ ہورہا تھا۔ اور دل نمک حرام ہر خوشبو اپنے آپ میں جذب کرتا جارہا تھا۔ پتہ نہیں اس بستی میں جاکر پہلی دفعہ کیوں لگا کہ میں بھی ”انسان“ ہوں۔ شاید اس شیرینی کا قصور تھا جو بے سبب ہر سو پھیلی ہوئی تھی یا پھر اس نشے نے جواز فراہم کیا جس کے ماخذ کا پتہ نہیں تھا۔

مگر پھر! غیروں کی اس بستی میں اپنی ذات کی تلاش کے لئے اپنی جیبیں ٹٹولنا شروع کیا جو پہلی چیز ہاتھ لگی وہ ایک موبائل سیٹ ہیڈ فون سمیت تھا۔ میری بستی میں چونکہ یہ سب خرافات اور بے راہ روی کے شکار لوگوں کے اوزار ہیں اس لئے میں نے اپنے آپ کو آج تک ہیڈ فون، میوزک اور اس جیسی دوسری خرافات سے بچا کر رکھا تھا۔ آج اس بستی میں بھی اس سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر بچ نہیں پایا اردگرد کا جائزہ لیا تو کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ یعنی اگر موبائل کے ہیڈفون کا استعمال کرکے کچھ بھی سنتا ہوں تو اس سے کم از کم میرے علاوہ کسی اور کے اخلاقی گراوٹ کا کوئی چانس نہیں تھا فون تو ایک عرصے سے میرے استعمال میں تھا ائیر فون لگانے کا تصور تک موجود نہیں تھا مگر آج سب کچھ معمول سے ہٹ کر ہورہا تھا میں نے بھی فوری ائیر فون کانوں سے لگایا تاکہ سن سکوں کہ اس بستی کے لوگ کون سی کون سی خرافات سننے کے عادی ہیں۔ حیرت دوچند اس وقت ہوئی جب ہیڈ فون سے میرزا علی جان کی آواز میں چترالی زبان کی مشہور غزل

اشرو دریا ہا پھے تام چے قیو مستی نو دونی

عشقو طوفان کیا معلوم گان آوائی کشتیو گانی

بے رحم دوست کیا خبر آہ ریتام ہر دیو دوسی

ہزار ساحل اوشونی کے ڑیتام خودیو لوڑی

چل رہی تھی، زندگی میں پہلی دفعہ ان کا یہ حرام کام اچھا لگا۔ دماغ نے تنبیہ کی کہ ہیڈ فون فوری طور پر ہٹائے جائیں۔ مگر دل کسی طور راضی نہیں ہوا۔ سفر جاری رہا، قدرتی خوشبو سے پورا علاقہ معطر تھا۔ دور سے ایک خوبرو حسینہ کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ہم نے راستہ بدلنے کی بہت کوشش کی قدموں نے ساتھ نہ دیا۔ حسینہ اپنی قاتل مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑی تھی اور ہم پسینے میں شرابور اس لمحے کو کوسنے لگے جب ہم نے اس بستی کا رخ کرکے اتنے سارے گناہ سمیٹ لیے تھے۔

بے اختیاری کا مرض یہاں بھی کام کرنے لگا۔ حسینہ نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ قدم خود بخود اس سمت محو سفر ہوگئے۔ اس قاتل حسینہ نے اپنے گھر میں جو پہلی چیز پیش کی وہ دیسی شراب تھی۔ مے خانے کا بھرم رکھنے کے لئے اس وقت تک پیتے رہے جب تک کھانے کے لئے بکرے کا گوشت پیش نہیں کیا گیا۔ گوشت کی خوشبو کے ساتھ کہیں سے جون ایلیا بھی تشریف لائے۔ گوشت پر نظر پڑتے ہی کہنے لگے ”میاں یہاں شراب حلال ہے مگر گوشت تو حرام ہے“۔ ہم نے بھرم قائم رکھنے کے لئے ان سے کہاکہ ہم تو آپ سے ملنے آئے تھے۔ ہماری بات سنتے ہی جون کہتے ہوئے اٹھنے لگے کہ

مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں

بیٹھئے میں بلا کے لاتا ہوں

جون ایلیا اپنے آپ کو بلانے جیسے ہی دروازے سے باہرنکلے ہم نے بھی فوری وہیں سے رخصت ہونے میں ہی عافیت جان کر چلتے بنے۔ حسینہ عالم کے دروازے سے نکلتے ہوئے ہم جس شخص سے ٹکرائے وہ جون ایلیا تھے ہم تحقیق بھی نہ کرسکے کہ وہ کون سے والے جون ایلیا تھے کیونکہ تحقیق سے پہلے ہی ہماری آنکھ کھل چکی تھی اور خوابوں کی دنیاسے یک لخت ٹھیکہ داروں کی دنیا میں پہنچ چکے تھے۔

مگر یارو! اس حلال بستی کا کیا زبردست ”حرام خواب“ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments