افکار علوی: شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا


ہرچیز کی طرح فنون لطیفہ کے بھی قاعدے اور قوانین ہیں۔ آپ موسیقی کی مثال لے لیجیے۔ موسیقی کی بنیاد سات سر وں پر ہے۔ ٹھمری، راگ، غزل، گیت، قوالی، یہاں تک کہ پاپ موسیقی تک گانے والوں کو ان سات سروں کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ جو ان سے باہر نکلے گا بے سرا کہلائے گا، اس کی گائی چیز بہت مقبول بھی ہوجائے تو وہ مثال نہیں بن سکتی۔

شاعری کیا ہوتی ہے اور کیا نہیں اس موضوع پر اساتذہ نے بہت کچھ کہہ رکھا ہے، لکھ رکھا ہے۔ بہت سے تکنیکی معاملات ہیں، بہت سی رمزیں ہیں، بحریں ہیں، غزل اور نظم، آزاد نظم، رباعی، ثلاثی سے ہائیکو تک کے علوم ہیں، بحثیں ہیں۔ پھر آگے تجربے ہیں، ترقی پسند شعرا ہیں اور رہے نام اللہ کا۔

شاعر خود پسند بھی ہوتا ہے، خود پر تنقید کو ناپسند کرنے کے باوجود دوسرے پر تنقید بھی کرتا ہے۔ ظفراقبال کے بقول ان کے پاس اچھے شعروں کی تعداد غالب سے بھی زیادہ ہے، منصور آفاق کے نزدیک فراز میر سے بڑا شاعر تھا۔ ناقدین بہت کچھ کہتے لکھتے رہتے ہیں۔ یہ خاکسار ناقدین کا قائل نہیں کیونکہ شاعری، شاعر اور قاری کے درمیان خود رشتہ پیدا کرتی ہے اسے وسیلے یا بقول کسے تیسرے آدمی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن بہرطور بنیادی فنی محاسن پر تو بات ہوگی اور ہوتی رہے گی۔

تکنیکی معاملات تو اساتذہ کے ذمے رہے لیکن شاعری کی ایک بہت ہے سادہ لیکن جامع تعریف اس عہد کے ایک بڑے نام عبیداللہ علیم نے کررکھی ہے۔ اس کم ازکم تعریف پرعام آدمی بھی شاعری کو پرکھ سکتا ہے۔ علیم نے کہا تھا کہ ”محض حق کا بیان شاعری نہیں ہوتی اور اچھی شاعری حق کے بیان کے بغیر بھی ممکن نہیں۔ “

سوشل میڈیا پر نظم مرشد مشہور ہوئی اور یہاں تک ہوئی کہ ہر طرف مرشد مرشد ہوگئی۔ نظم پڑھتے وقت شاعر کے جذبات الفاظ میں جھلکتے نظر آئے۔ مضامین بھی روزمرہ کے ہیں اور پورے درد اور کرب کے ساتھ نظم میں شامل ہیں کہ بقول غالب

خون جگر ودیعت مژگان یار تھا۔

نظم میں سرائیکی کے مصرعے بھی شامل ہیں ان پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایک مصرعہ اردو اور ایک فارسی جیسے تجربات بھی ہو چکے ہیں۔ اس پر نئی نسل کے دو بہترین لکھاریوں وقار احمد اور حسنین جمال نے نے بہت احسن انداز میں لکھا بھی ہے۔ وقار نے گونجتے مصرعوں سے تشبیہ دی ہے کہ نظم کا ایک ایک مصرعہ جہاں مرضی رکھ لیں، مضمون بن جائے گا۔ جبکہ حسنین نے بھی نظم اور شاعر کی ٹھیک ٹھاک تعریف کی ہے اور کچھ اعتراضات کا مناسب جواب بھی دیا ہے۔

افکار علوی کے لہجے کی سچائی اور اس نوجوان کے جذبات بہت ہی عمدہ اور حقیقت پر مبنی ہونے کے باوجود ایک طالبعلمانہ گزارش سن لیجیے کہ ”محض حق کا بیان شاعری نہیں ہوتی“ اس کے کچھ اور بھی ضابطے ہیں جن کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ نظم کا بہت زیادہ معروف ہوجانا بھی پیمانہ نہیں۔ حسنین جمال نے ن م راشد کی نظم حسن کوزہ گر کی مثال دی کہ اسے فی زمانہ کتنے لوگ سمجھتے ہیں تو برادر عزیز سے عرض ہے کہ اگر یہ نظم آج کے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں تو بھی نہ ن م راشد کا اور نہ نظم کا قد چھوٹا ہوتا ہے۔ غالب تو ایک طرف فیض کو سمجھنے والے کتنے بچے ہیں پھر بھی فیض، فیض ہی رہیں گے۔ خیال اور ٹھمری سے زیادہ اگر ”آتی کیا کھنڈالا“ سمجھ میں آئے بھی تو گائیکی کے بنیادی پیمانے نہیں بدلا کرتے۔

ان ساری گزارشات کا حاصل یہی ہے کہ افکار علوی کی یہ نظم مضامین کے لحاظ سے شاندار ہونے کے باوجود بعض بنیادی فنی خرابیوں سے مبرا نہیں ہے جنہیں شاید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اوزان و عروض، صوتی آہنگ، بحریں، فنی محاسن ،ان پر قابو پا کر ہی افکار ایک بہت عمدہ شاعر بن سکتے ہیں کیونکہ مضمون میں گہرائی بہرحال موجود ہے۔ لیکن ابھی کچھ کام باقی ہے۔ نوجوان افکار علوی کے اندر صلاحیت بھی ہے، درد بھی اور سوچنے والا دماغ بھی۔ اسے پالش کرنے کی ضرورت بھی ہے اور کسی اچھے استاد کی بھی جو اس ہیرے کو تراش سکے اور ان کی شاعرانہ نثر کو نظم میں تبدیل کرسکے۔

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments