بے زبان بلوچستانی او ر قومی میڈیا


آج کل میڈیا کا دور ہے۔ گو کہ اردو میں میڈیا کو ذرائع ابلاغ کہا جاتا ہے۔ لیکن میڈیا کا لفظ اتنا مستعمل ہے کہ ذرائع ابلاغ کہتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ بلکہ سننے اور پڑھنے والے بھی میڈیا کے لفظ سے زیادہ مانوس ہیں۔ اب تو لگتا میڈیا کا لفظ اردو لغت میں شامل کر لیا گیا ہے۔ آج سے تین دہائی قبل تک اخبارات، رسائل، کتابیں اور ریڈیو ہی میڈیا کے موثر ذرائع تھے۔ پھر ٹی وی، انٹرنیٹ نے سوشل میڈیا کی صورت میں اپنی جگہ بنائی اور انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔

آج کل کی دنیا میں سوشل میڈیا زندگی کی ایک ضرورت بن چکا ہے جو سوسائٹی کو مضبوط کرنے اور پبلک کی رائے بنانے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ میڈیا نے معاشرے میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کو آشکارہ کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں عام انسان کی زندگی پاور فل مافیاز اور سیاست کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے اجیرن ہو چکی ہے۔ وہاں میڈیا کا رول بہت اہم ہو جاتا ہے۔ جب ہم اپنے نیشنل میڈیا کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔

تو بد قسمتی سے سب کی زیادہ تر توجہ اسلام آباد، پنجاب یا سندھ کی جانب ہوتی ہے۔ یا پھر آخر میں کے پی کے کی جانب رخ موڑ لیا جاتا ہے۔ کامران خان اورشازیب خانزادہ جیسے اعلی پائے کے تحقیقاتی صحافیوں کا فوکس بھی اکثر و بیشتر اسلام آباد، سندھ یا پنجاب کی جانب ہی ہوتا ہے وہیں روف کلاسرا اور عامر متین جیسے اپنی کلاس کے منفرد صحافی بھی اسلام آباد اور پنجاب سے نکلنے کو تیار نہیں۔ بلوچستان میں رہ سہہ کر ہم جیسے چھوٹے صحافی رہ جاتے ہیں جو قومی سطح پر بلوچستان کی میڈیا ہاؤسئزمیں رٹینگ کی کمی کی وجہ سے صوبے کی نام نہاد حکومتی اشرافیہ کی زیادتیوں کو اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جسے آپ نقار خانے میں طوطی کی آواز سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ حالانکہ بلوچستان میں جو گورننس کا حال ہے یا جس لیول کی کرپشن ہو رہی ہے اگر اس کا موازنہ اسلام آباد یا کس دوسرے صوبے سے کیا جائے تو وہ حجم میں بے شک کچھ کم ہو گی لیکن تناسب کہیں زیادہ ہو گا۔

یہاں گورننس کی بات کی جائے تو تقریبا 20 اور 21 گریڈ کے مجموعی طور پر 20 سے اوپر افسر ان گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہوں اور ان کی جگہ جوئینر اور غیر متعلقہ لوگ لگے ہوں تو کہیں تو مسئلہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کے افسر ان کے لئے بلوچستان نہ ہوا گویا افریقہ کا کوئی ایسا ملک جس میں جانے کے لیے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو بڑی تنخواہوں کے عوض بھجوایا جاتا ہے۔ کچھ یہی صورتحال بلوچستان میں پوسٹنگ کے لئے آنے والے پاس سروس کے افسر ان کی ہے۔

ان بلوچستان کی شاہی مہمانوں کے لیے بلوچستان جیسی کالونی میں نوکری کرنے کے لئے غالبا 2013 میں دس گرم وزن والے کاغذ پر ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیاجس کے تحت صاحب بہادروں کو نوکری کرنے کی صورت میں حکومت بلوچستان سے لاتعداد مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اگر پاس (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) کا کوئی افسر کسی بھی گریڈ میں بلوچستان آتا ہے تو اس کی تنخواہ بلوچستان کے مقامی افسر سے دگنی ہو جاتی ہے۔ فیملی کے ساتھ اندرون ملک سفر کے لیے سالانہ چار ریٹرن ہوائی ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔

اور یہاں پر پوسٹنگ بھی اپنے گریڈسے ایک گریڈ بڑی ملتی ہے اور دیگر لاتعداد مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی طرح کی ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کے درمیان تنخواہ اور مراعات کا اتنا فرق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی تو نہیں ہے۔ صوبائی سروس اور پاس کے درمیان مکمل تفریق ہے جس کی مثال یوں ہیں کہ دونوں سروسز کے گریڈ 17 کے افسران ڈیرہ بگٹی کی دو تحصیلوں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوں تو صوبائی سروس کے افسر کی تنخواہ اور مراعات پاس کے افسر کے مقابلے میں آدھی ہوگی۔

جو کہ خلاف آئین ہے اور استحصال کرنے کے مترادف ہے۔ اس بلا جواز تفریق سے نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ یہاں معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔ اس ناروا تفریق کو ختم کرنے کے لیے بلوچستان اسمبلی میں ایک قرارداد بھی لائی گئی لیکن پتہ نہیں وہ کہاں چلی گئی اور اس کا کیا بنا؟ حیران کن طور پر یہ مراعات کوئی قانون نہیں بلکہ ایک نوٹیفکیشن ہے جو کہ دس گرام کاغذ پر ہوا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے دس گرام کا کاغذ ہی درکار ہوگا لیکن شاید وہ قلم یا وہ ہاتھ ہی نہیں بنا ہے جو اس نوٹفکیشن کو واپس لے سکے۔

ابھی گزشتہ پانچ ماہ سے بلوچستان حکومت کو رپورٹ کرنے والے پاس گروپ کے گریڈ 20 کے افسر علی جان کی خدمات حکومت بلوچستان کے پاس ہیں۔ لیکن ان کووفاقی سکریڑی مذہبی امور نے حکومت بلوچستان کی پیشگی اجازت کے بغیر ڈایریکٹر معاون حج و اوقاف کے طور پر پوسٹ کردیا ہے۔ اس افسر کو جسے وزیراعلی معائنہ ٹیم میں ممبر تو تعینات کیا گیا ہے لیکن شاید ایس انیڈ جی اے ڈی کے سکیشن افسر کے سوا کسی مقامی افسر یا شخص نے انہیں دیکھا بھی نہیں ہے۔

پاس کے افسر نام تو پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کا لکھا کرتے ہیں لیکن بلوچستان میں سروس کرنے سے گھبراتے ہیں۔ روٹیشن پالیسی کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں ایسے افسران اس بدقسمت صوبے میں صرف کاغذی حد تک رپورٹ کرتے ہیں جن کوصوبائی درالحکومت کوئٹہ کے روڈز کے نام کا بھی پتہ نہیں ہوتا، اب تو کمال یہ ہوگیا ہے کہ ان کو بلوچستان کے کوٹے سے تعینات کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اس پوسٹ پر کسی صوبائی افسر کو تعینات کیا جاتا لیکن اس صوبے کے بے شرم نظام کی وجہ سے صوبائی سروس کے پسند خان بلیدی اور اسفندیار کاکڑ جیسے قابل افسر ان تنگ آکر صوبہ چھوڑ کر دیگر صوبوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

یہ ظلم کی انتہا ہے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ ایک شخص جس نے پیسے لینے تھے اس کو حساب نہیں آتا تھا جبکہ جس شخض نے پیسے دینے تھے اسے خدا کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ یہاں بھی لگتا ہے حکومت بلوچستان کو حساب نہیں آتا اور وفاقی حکومت کو اللہ سے ڈر نہیں۔

ورنہ اس طرح سب کچھ یوں نہ ہو رہا ہوتا۔ یہ کس طرح کا صوبہ ہے؟ وزیراعلی کیا کر رہے ہیں؟ شعلہ بیان ثنا بلوچ کہاں ہیں؟ اپوزیشن کہاں ہیں؟ دوسرے کیا کر رہے ہیں؟ صوبائی حکومت اگر اس سلسلے میں سہولت کار نہیں ہے توباہر سے صوبے میں آنے والے ایسے تمام افسران کے نام، عہدے، بلوچستان میں مدت ملازمت اور گریڈ کے ساتھ حکومت بلوچستان کی ویب سائٹ پر پبلک کر دیں تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ ڈبل تنخواہیں لینے والے، سالانہ چار ٹکٹوں کے مزے لینے والے اور کتنے افسر ان ہیں جو صوبے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ ہر صوبے میں، صوبائی اور وفاقی افسران کا کوٹہ ہوتا ہے اور اسی حساب سے پوسٹنگ ہوتی ہے۔ مگر یہ نوٹیفیکیشن دیکھ کر احساس ہوا کہ نہ صرف صوبوں میں، بلکہ مرکز میں بھی حالت بُری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر مذکورہ افسر کی خدمات حکومت بلوچستان کے حوالے تھیں تو منسٹری آف حج نے حکومت بلوچستان کی اجازت کے بغیر ان کے آرڈر کیسے کیے۔ حالانکہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا تھا۔ اگر ان پر عنایت کرنا ہی تھی تو پہلے حکومت بلوچستان سے اجازت تو لے لیتے۔ کب حکومت بلوچستان نے انکار کرنا تھا۔ کیونکہ جی حضوری میں حکومت بلوچستان کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن اجازت تو درکنار انہوں نے حکومت بلوچستان کو کاپی تک نہیں کی حد ہے۔ جب ہم خود کو بے بس اور دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں تو ایسا ہی ہوگا۔ ہمیں یہ رویے ترک کر کے کھڑا ہونا پڑے گا۔

اس آرڈر سے وفاق میں بھی ابتری اور بد انتظامی کی بھی انتہا نظر آتی ہے۔ ذرا بھی ہمت ہے تو صوبہ وفاق کو لکھ دے کہ ہم اسے فارغ نہیں کرتے۔ اور افسر کو حکم دیں کہ فوری کوئٹہ رپورٹ کرے۔ ایک ہی چٹھی سے سب کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے نواب اکبر خان بگٹی جیسے حکمران چاہیے۔ ویسے یہاں ہمیں اپنے مقامی بیوروکریسی سے بھی گلہ ہے کہ یہ کیوں خاموش ہیں۔ اگر یہ خود بات نہیں کرسکتے تو کم از کم ایسی چیزیں صوبے کے مفاد کی خاطرخود سامنے آئے بغیر شئیر تو کرسکتے ہیں جو کم از کم ریکارڈ پر آجائے۔ اگر یہاں آج میڈیا توجہ دیے توبلوچستان کے مقابلے میں سندھ کرپشن فری نظر آئے گا۔ لیکن پھر بھی اگر ان سب کے باوجود بلوچستان پر نیشنل میڈیا توجہ نہ دیے تو گلہ تو پھر بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments