انڈیا میں شہریت کا متنازع قانون: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر میں کیا تعلق ہے؟


خواتین مظاہرین

انڈیا میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف اس دن سے پورے ملک میں شور ہے جس دن یہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور ہوا اور پھر صدر جمہوریہ نے فوراً سے پیشتر اس پر اپنے دستخط کر کے اسے قانون کا درجہ دے دیا۔

اس کے فوراً بعد اس کی مخالفت کرنے والوں نے اس کے خلاف انڈیا کی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی کہ یہ انڈیا کے آئین کی روح سے متصادم اور سیکولرازم کے مخالف ہے۔ اس قانون کے خلاف ملک کے مختلف اداروں، سول سوسائٹی اور منفرد شخصیات کی جانب سے تقریباً 60 عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔

نئے سال کی آمد کے بعد 10 جنوری کو اس قانون کا ملک میں نفاذ بھی کر دیا گیا ہر چند کہ تقریباً ایک درجن ریاستوں نے کہا کہ وہ اسے اپنے یہاں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

شہریت ترمیمی بل: آسام میں اجتماعی بھوک ہڑتال

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

دریں اثنا اس کے خلاف ملک گیر سطح پر مظاہروں میں دو درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

پیر 13 جنوری کو حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس کی قیادت میں پارلیمان کے احاطے میں مختلف پارٹیوں کی میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ جن ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سر عام نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے خلاف بیان دے چکے ہیں وہ اپنی ریاست میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو روکیں۔

ہرچند کہ اس میٹنگ میں تین اہم پارٹیوں مغربی بنگال کی ترنامول کانگریس، دلی کی عام آدمی پارٹی اور اترپردیش کی بہوجن سماج پارٹی نے شرکت نہیں کی لیکن وہ اپنی اپنی جگہ سی اے اے کے ساتھ این آر سی کی مخالفت کر رہی ہیں۔

اس میٹنگ میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ ’سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر ایک غیر قانونی پیکج ہے جو بطور خاص غریبوں، پسماندہ طبقوں، دلتوں، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے اور این پی آر ہی این سی آر کی بنیاد ہے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ سی اے اے کسی کی شہریت لینے کے لیے نہیں بلکہ شہریت دینے کے لیے ہے، جبکہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کبھی این سی آر کی بات نہیں ہوئی اور یہ کہ این پی آر سنہ 2020 کی دوسری سہ ماہی میں شروع ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی اور خدشات پائے جاتے ہیں۔

حکومت کا الزام ہے کہ حزب اختلاف اس کے متعلق ابہام پھیلا رہی ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے اس لیے اس نے لوگوں کو سی اے اے کے متعلق بیدار کرنے کی مہم بھی چلائی ہے۔

یہاں ہم اپنے قارئین کے لیے ان تینوں چیزوں کے بارے میں تفصیل پیش کر رہے ہیں۔

سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت والے بینر پورے ملک میں نظر آ رہے ہیں

سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت والے بینر پورے ملک میں نظر آ رہے ہیں

سی اے اے

شہریت کے ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کی ملک گیر پیمانے پر مخالفت ہو رہی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ یہ آئین کے خلاف ہے اور آنے والے دنوں میں اس سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوں گے۔

انڈیا کی اہم مسلم تنظیم جمیت علمائے ہند کی جانب سے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ اور اس مقدمے کو کوآرڈینیٹ کرنے والے جمیعت کے سینیئر عہدیدار نیاز فاروقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دراصل یہ ترمیم انڈیا کے سنہ 1955 کے شہریت کے قانون کی کئی شقوں میں کی گئی ہے جس کی وجہ سے شہریت کے مکمل قانون کی روح بدل گئی ہے اور چہرہ مسخ ہو گیا ہے۔‘

’یہ انڈیا کے آئین کی شق 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مذاہب کے مابین امتیازی سلوک کرتا ہے، اسی لیے جمیعت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔‘

شہریت کا ترمیمی قانون 2019 انڈیا کے تین پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر انڈیا آنے والی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، سکھ، پارسی اور مسیحی) کو شہریت دینے کی بات کرتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا نہ شامل کیا جانا جانبداری کا مظہر ہے اور یہ کہ تین ممالک کو ہی شامل کیا جانا منطقی نہیں ہے۔

نیاز فاروقی کا کہنا ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ اسے تنہا دیکھا جائے لیکن یہ تہنا نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ یہ 1955 کے شہریت کے قانون کا حصہ ہے جس میں این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) اور این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا بھی ذکر ہے۔

سی اے اے کے قانونی جواز کے خلاف تین فریقوں کی اپیل کی پیروی کرنے والی سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل کا کہنا ہے کہ سی اے اے غیر قانونی تارکین وطن کی از سر نو تعریف کرتا ہے اور تین ممالک سے آنے والے چھ مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو مستثنیٰ قرار دیتا ہے اور انھیں پانچ سال کی مدت میں شہریت دینے کی بات کہتا ہے۔

انھوں نے لکھنؤ کی ایک تنظیم رہائی منچ کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جبکہ راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا کی جانب سے دوسری درخواست دائر کی گئی ہے۔ تیسری عرضی آسام کے معروف کارکن عبدالباطن کھانڈیکر کی جانب سے دائر کی ہے۔ ان تینوں درخواستوں میں انڈیا کے آئین کی شق 14 کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم نے کہا ہے کہ یہ قانون من مانا ہے۔ یہ آئین کے خلاف ہے اور یہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو متاثر کرتا ہے، یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سیکولرازم آئین کا بنیادی حصہ ہے۔‘

مظاہرہ

این آر سی

نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا استعمال پہلے پہل ریاست آسام میں ہوا جس میں تقریباً 20 لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں جگہ نہیں بنا سکے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے ہی آسام کے باشندوں کا کہنا تھا کہ ان کے یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کے آ جانے سے ان کے تشخص کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اس کے لیے انھوں نے سنہ 1980 کی دہائی میں شدید مہم چلائی۔ بالآخر اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم نے آسام کے لوگوں سے ایک معاہدہ کیا تھا اور اس میں این آر سی کروانے کی بات کہی گئی تھی۔

اس پر سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عمل کیا گیا اور حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کا سہرا اپنے سر لیا لیکن جب این آر سی میں بڑی تعداد میں غیر مسلم شہریت کی فہرست میں نہیں آ سکے تو بی جے پی کی ہی جانب سے اس کے خلاف مختلف گوشے سے باتیں ہونے لگیں اور پھر وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ وہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کریں گے۔

جمیعت علمائے ہند کے وکیل محمد ارشاد حنیف کی ٹیم میں شامل نوجوان وکیل علی احمد سلیم نے بتایا کہ این آر سی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں انڈیا کے ہر شہری کو پہلے غیر قانونی شہری تسلیم کیا جائے گا اور جب وہ اپنے دستاویزات دکھائیں گے اور وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ وہ انڈیا کے شہری ہیں تو پھر وہ انڈیا کے شہری ثابت ہوں گے۔

انڈیا کے لوگ بڑی تعداد میں اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ قطاروں میں لگ کر اپنی شہریت ثابت کریں۔

دہلی کے شاہین باغ میں تقریباً ایک ماہ سے مسلسل بیٹھی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اس عمر میں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں، لیکن حکومت کی جانب سے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

دوسری جانب وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں باضابطہ کہا ہے کہ وہ پورے ملک میں این آر سی لائیں گے اور اس وقت پھر سے آسام میں بھی این آر سی کا عمل ہوگا اور اس لیے آسام کے باشندے اس کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔

مظاہرے

این پی آر

نیشنل پاپولیشن رجسٹر یا این پی آر کا سرکاری طور پر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے اور یہ اس پر اگلے تین مہینے میں عمل در آمد شروع ہو جائے گا۔ جنوبی ریاست کیرالہ نے تو واضح انداز میں اسے نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت کرنے والے بھی اس کے خلاف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے۔

بُکر انعام یافتہ معروف مصنفہ اروندھتی رائے نے کہا ہے کہ جب این پی آر کے لیے لوگ آپ کے پاس آئیں تو آپ انھیں کچھ بھی بتا دیں جیسے ’رنگا بلا، کنگ فو کتا، لیکن اپنا اصل نام نہ بتائیں اور اپنے اصل کوائف نہ دیں۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ این پی آر تو سنہ 2010 میں کانگریس نے بھی کروایا تھا تو اس وقت اس کی مخالفت کیوں نہیں ہوئی جو لوگ اب اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں جو نئے سوالات شامل کیے گئے وہ اسے مشکوک بناتے ہیں۔

اس سے قبل 15 سوالات پوچھے گئے تھے لیکن اس بار اسے بڑھا کر پہلے 21 کر دیا گیا ہے۔ یہ چھ سوالات پریشان کن ہیں اور اسے لوگ این آر سی کی جانب پہلا قدم بتا رہے ہیں۔

فوزیہ

سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں تین مختلف عرضیوں کی پیروی کرنے والی وکیل فوزیہ شکیل

نئی معلومات میں شہریوں سے ان کا آدھار نمبر، ووٹر شناختی کارڈ، پین کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس نمبر، موبائل فون نمبر اور والدین کی پیدائش کی تاریخ اور جائے پیدائش شامل ہیں۔ اس کے تعلق سے لوگوں کی پرائیویسی کے متعلق بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

علی احمد سلیم کا کہنا ہے کہ ’جب آپ انھیں اپنی معلومات دیں گے تو عین ممکن ہے کہ آپ کے نام میں کوئی ہجے کی غلطی ہو۔ ایسا بہت معاملے میں ممکن ہے کہ آپ کا جو آدھار کارڈ ہے یا جو پاسپورٹ ہے یا جو آپ کی سرٹیفیکیٹ ہے اس میں آپ کے نام کی ہجے ذرا مختلف ہو تو اس کی وجہ سے یہ ہوگا کہ جب آپ این پی آر میں اپنی تفصیلات دیں گے اور وہ تفصیلات جب مقامی رجسٹرار کے پاس جائیں گی اور وہ اسے جانچيں گے اور اگر انھیں یہ لگے کہ اس میں غلطی ہے یا اسے شبہ ہوگا تو وہ آپ کے نام کے ساتھ ایک ریمارک ڈالیں گے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ ’ڈی‘ یعنی ’ڈاؤٹ فل ووٹر‘ (مشکوک ووٹر) کا ریمارک ڈالیں گے۔

اس سے قبل آسام میں بھی پہلے لوگوں کو مشکوک ووٹر قرار دیا جا چکا ہے اور اس کی وجہ سے انھیں بہت پریشانی ہوئی ہے۔ علی احمد کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب حکومت کے پاس این پی آر کے آعداد و شمار ہوں گے اور جب وہ اسے این آر سی کے اعداد و شمار سے ملائیں گے تو ایک کلک سے تمام مشکوک ووٹر ایک طرف ہو جائيں گے جس کا اثر این آر سی پر پڑے گا۔

مغربی بنگال میں مظاہرے مسلسل جاری ہیں

ریاست مغربی بنگال میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرے مسلسل جاری ہیں

ان تینوں میں رشتہ کیا ہے؟

سپریم کورٹ کی وکیل فوزیہ شکیل کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے انڈیا میں این آر سی لانے کے لیے بتدریج کام کیا ہے۔

انھوں نے بتایا: ’یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ واجپائی حکومت سنہ 2003 میں این آر سی پر قانون لائی تھی جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس سے قبل ایک این پی آر ہوگا پھر لوکل رجسٹر فار سٹیزنز ہوگا اور پھر این آر سی آئے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ پھر سنہ 2015 میں مودی کے پہلے دور حکومت میں پاسپورٹ کے قانون میں ترمیم کی گئی اور پھر اسی سال انھوں نے فارنرز ایکٹ میں ترمیم کی۔

فوزیہ نے بتایا کہ سی اے اے میں جن چھ مذہبی اقلیتوں کا ذکر ہے انھیں ہی پاسپورٹ قانون میں تبدیلی لا کر پہلے انڈیا میں داخلے کی سطح پر چھوٹ فراہم کی گئی کہ وہ بغیر درست دستاویزات یا پاسپورٹ کے انڈیا میں داخل ہو سکتے ہیں اور اگر وہ ویزا کی مدت کے بعد بھی چاہیں تو رک سکتے ہیں۔

پھر اس کے بعد فارنرز قانون میں ترمیم کرکے یہ سہولت فراہم کی گئی کہ آپ انھیں حراست میں نہیں لے سکتے گرفتار نہیں کر سکتے اور اب وہ ایک قدم آگے گئے ہیں کہ یہ لوگ اب شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

اب اسے سی اے اے کے ساتھ اس طرح ملا کر دیکھا جا رہا ہے کہ این سی آر میں شہری کی فہرست میں نہ آنے والے چھ مذاہب کے افراد تو شہریت کے نئے ترمیمی قانون کے تحت شہریت کی درخواست دینے کے لیے اہل ہوں گے لیکن مسلمان اس کے اہل نہیں ہوں گے کیونکہ ان چھ مذہبی برادریوں میں انھیں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مسلمان بھی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور ماضی میں مسلمانوں کو بھی شہریت دی گئی ہے ایسے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ پھر اس قانون کو لانے کی ضرورت کیا تھی۔ نئے ترمیمی قانون میں ان مذاہب کے لوگوں کو چھ سال کا عرصہ انڈیا میں گزارنے کے بعد شہریت دی جاسکتی ہے جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ پرانے 11 سال کی مدت پر محیط ہوگا۔

سی اے اے کے حامیان

بی جے پی کے بہت سے حمایتی سی اے اے کی بھی حمایت کر رہے ہیں

یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ انڈیا میں یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے غریبوں کو متاثر کرے گا اور انھیں بھی فارن ٹریبونل کے چکر لگانے پڑ سکتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ تدارک ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے شہریت کے اہل قرار پائیں گے۔

فوزیہ شکیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہی پناہ گزینوں کو کیوں یہ سہولت دی جا رہی ہے۔ اس میں سری لنکا، چین، میانمار کے لوگ کیوں شامل نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ صرف مذہبی طور پر جبر کا شکار ہونے والوں کو ہی شامل کرنے پر بھی سوال کیا گیا ہے کہ سیاسی طور پر، جنسی طور پر، نسلی اور لسانی طور پر ظلم و جبر کا شکار ہونے والوں کو کیوں نہیں شامل کیا گیا ہے۔

ان کا کا کہنا ہے کہ اسی طرح اگر مذہبی بنیاد پر شکار لوگوں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیں تو پاکستان کی احمدیہ اور افغانستان کی ہزارہ شیعہ برادری کو کیوں نہیں شامل کیا گیا۔

ان سب کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون من مانا ہے اور آئین کی روح اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘جو درجہ بندی یہ (حکومت والے) کر رہے ہیں اس کی کوئی بھی بنیاد نہیں ہے کیونکہ جتنے بھی لوگ کسی بھی قسم کے جبر و ظلم کے نتیجے میں پناہ گزین اور تارکین وطن ہیں وہ سب ایک درجے پر ہیں، اور اگر آپ ان میں فرق کر رہے ہیں آپ آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔’

ارشاد حنیف

جمیعت علمائے ہند کے وکیل محمد ارشاد حنیف

سپریم کورٹ سے کتنی امید؟

فوزیہ شکیل اور محمد ارشاد حنیف کا کہنا ہے کہ انھیں عدالت عظمیٰ سے پوری امید ہے کہ وہ اس قانون کو مسترد کر دے گی۔

کیا اس سے قبل ایسی کوئی نظیر ہے جب پارلیمان سے منظور ہونے والے کسی قانون کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا ہو؟

ارشاد حنیف نے کہا کہ ’اس سے قبل اس کی نظیر موجود ہے کہ سپریم کورٹ نے نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن کو کالعدم قرار دیا تھا کیونکہ عدلیہ کی آزادی بھی انڈین آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اور اسی بات کو بنیاد بناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔‘

فوزیہ شکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ایس آر بومئی نام سے ہے جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ سیکولرزم آئین کے ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے اور اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور کوئی بھی قانون جو مذہب کی بنیاد پر بن رہا ہے تو وہ سیکولرازم کی خلاف ورزی ہے۔

’یہاں پر یہ واضح ہے کہ آپ مذاہب کے درمیان امتیازی سلوک کر رہے ہیں اور یہاں بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ آپ شہریت مذہب کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں امید ہے کہ عدالت 22 جنوری کو جب ہماری عرضیوں پر غور کرے گی تو شہریت کے اس ترمیمی قانون کو مسترد کر دے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp