معاشی ترقی اور جنگ جوئی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے


ایک طرف گندم کے بحران پر وفاقی حکومت سندھ حکومت سے دست و گریبان ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم بھارت کے ساتھ جنگ کی باتیں کررہے ہیں۔ عمران خان نے گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران دو اہم بیانات دیے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق ملک کی بہبود اور معاشی استحکام سے ہے ۔

نوجوانوں کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ملکی معیشت بدترین بحران سے نکل آئی ہے اور اب بہتر دن آنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ٹوئٹ پیغام میں عمران خان نے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ بھارت کے معاملہ میں پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر جاری جارحیت اور کسی اچانک مہم جوئی کے اندیشے کی وجہ سے یہ خطہ کسی بھی وقت جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ وزیر اعظم کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی ، عوامی بہبود کے منصوبے اور جنگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان رونما ہونے والا کوئی بھی تصادم خطے میں طویل المدت بحران اور پاکستانی معیشت کے لئے تباہی کا پیغام ثابت ہوگا۔ پاکستانی قیادت کو جنگ کی بجائے امن اور تصادم کی بجائے مصالحت کی باتیں کرنی چاہئیں اور اسی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ یوں بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ پاکستان نے اپنی مختصر سی تاریخ میں بھارت کے ساتھ جتنی بھی جنگیں کی ہیں ، ان سے مسائل میں کوئی کمی نہیں ہوسکی اور جنگ کے بعد مذاکرات کے ذریعے ہی اختلافات دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور باہمی معاملات طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے لیکن بھارت میں انتہا پسند بی جے پی کی حکومت نے اپنے انتہا پسندانہ داخلی ایجنڈے کی وجہ سے مسلسل اس پیش کش کو مسترد کیا ہے۔ اس کے برعکس مودی حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات دیکھنے میں آتے رہے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تصادم کی صورت حال برقرار رہے۔

جنگ بھارت کے لئے بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ بھارت کو تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کے باوجود بھاری بھر کم آبادی کی ضرورتیں بھی پوری کرنا ہوتی ہیں ۔ اس ماحول میں پاکستان کے ساتھ ہونے والا کسی بھی قسم کا تصادم اس کی پھلتی پھولتی معیشت کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت کو اس معاملہ پر اپنے قومی حالات اور معاشی صورت حال کے حوالے سے غور کرنا چاہئے۔ بھارت کی تباہی سے پاکستان ترقی کی شاہراہ پر بھاگنے نہیں لگے گا۔ بلکہ اس کی معیشت کسی بھی قسم کے جنگی تصادم کا مالی بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

بھارت نے گزشتہ کچھ عرصہ سے جان بوجھ کر پاکستان کو  دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ یہ نئی دہلی کی سوچی سمجھی کوشش بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستان کو اشتعال دلا کر اس کی ساری توجہ عسکری تیاری اور سرحدوں کی طرف سے پریشانی پر مبذول کروائی جائے۔ اس طرح ملک میں معاشی ترقی کے سارے منصوبے نامکمل رہیں گے اور بھارت کسی جنگ کے بغیر پاکستان کو کمزور کرنے اور اس کی معیشت کو محتاج و مفلوج کرنے کے مقصد میں کامیاب رہے گا۔ جنگ اور خوف کا یہی ماحول پیدا کرکے نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور چھ ماہ سے کشمیریوں پر غیر انسانی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے اس یک طرفہ اور ناجائز بھارتی اقدامات کے بعد جب سخت رد عمل سامنے آیا تو لائن آف کنٹرول پر صورت حال کو گرم کردیا گیا ۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدگی سے گولہ باری کا مقابلہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دونوں طرف جانی و مالی نقصان ہورہا ہے۔

یہ بھی بھارت کی پاکستان دشمن حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ اس کے فوجی لیڈر کبھی آزاد کشمیر ہتھیانے کی بات کرتے ہیں اور کبھی پاکستان پر دہشت گردی اور سرحد پار سے مقبوضہ کشمیر میں جنگجو بھیجنے کا فرسودہ اور بے بنیاد الزام عائد کرکے پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے  یوں لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت اس بھارتی جال میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ بھارتی الزامات اور دھمکیوں کے جواب میں اسلام آباد سے احتجاج اور جوابی دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا تازہ ٹوئٹ پیغام بھی اسی مایوس کن صورت حال کی نمائیندگی کرتا ہے۔ اس پیغام میں بظاہر عالمی اداروں اور طاقت ور ملکوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن  اس توجہ یا تعاون کے لئے مناسب سفارتی ہوم ورک کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔

یہ سمجھنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ تحریک انصاف کی حکومت جب بھی داخلی سیاسی دباؤ محسوس کرتی ہے تو وزیر اعظم براہ راست یا اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے بھارت پر بیانات کی گولہ باری شروع کردیتے ہیں۔ ایسے بیانات عالمی طاقتوں یا اقوام متحدہ کی بجائے پاکستانی عوام کو سنانے کے لئے جاری ہوتے ہیں۔ تاکہ انہیں یہ سمجھایا جاسکے کہ ان کی حکومت تو دراصل بھارت کا مقابلہ کرنے کی تیاری کررہی ہے جبکہ اپوزیشن اس حکومت کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اقوام متحدہ ہو، امریکہ ہو یا کوئی دوسری عالمی طاقت، انہیں دونوں ملکوں کے درمیان موجود کشیدگی اور تصادم کی کیفیت کے بارے میں پوری طرح معلومات حاصل ہیں۔ پاکستان کی سفارتی کامیابی کا پیمانہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکہ اور دیگر ملکوں کے تعاون سے بھارت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ بحال کرنے اور تصادم کم کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوتا۔ تاحال پاکستان اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

خارجی خطرہ کا سامنا کرنے والے کسی بھی ملک کی حکومت سب سے پہلے داخلی طور سے سیاسی ہم آہنگی اور اشتراک عمل پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔ سروسز ایکٹ میں ترمیم کے موقع پر بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے خواہ کسی بھی مجبوری کے تحت سرکاری تجاویز کو قبول کیا  اور کسی حیل و حجت کے بغیر اس قانون کی تقریباً متفقہ منظوری کے لئے راہ ہموار کی۔ لیکن حکومت اگر سرحدوں کی صورت حال کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے اور اگر بھارت کے ساتھ کسی جنگ کا حقیقی خطرہ محسوس کیا جارہا ہے تو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مواصلت، تعاون اور ہم آہنگی کے ماحول کو مستحکم کرنے کی ضرورت تھی۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے البتہ  اسے اپوزیشن کی مجبوری سمجھ کر ٹھٹھا اڑانے اور عوام میں ان پارٹیوں کی شبیہ خراب کرنے کا نادر موقع سمجھا گیا۔ اسی لئے قومی اسمبلی میں سروسز ترمیمی ایکٹ پر ووٹنگ کے بعد حسب روایت یا پارلیمانی اخلاقیات کے مطابق قائد ایوان کے طور پر  اراکین پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ، عمران خان خاموشی سے اٹھ کر روانہ ہوگئے۔ حکومت کی طرف سے سامنے آنے والے دیگر اشاروں کے علاوہ گزشتہ بدھ کو ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا کا بوٹ میز پر رکھنے والا اسٹنٹ حکمران جماعت کی سوچ اور حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

وزیر اعظم نے فیصل واوڈا کی اس غیر اخلاقی اور نامناسب حرکت کے بارے میں ابھی تک ایک لفظ نہیں کہا۔ البتہ اس حرکت سے عسکری حلقوں کی ناراضی کا شبہ پیدا ہونے کی وجہ سے واوڈا کے انٹرویو دینے پر دو ہفتے کی پابندی کے ذریعے اشک شوئی کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ وزیر اعظم کو اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ اگر سرحدوں پر صورت حال واقعی اس قدر سنگین ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور عالمی طاقتوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھارتی جارحیت کی وجہ سے کسی بھی وقت جنگ ہوسکتی ہے تو کیا قائد ایوان کے طور پر انہیں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لینا چاہئے تھا؟ یا اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے اپوزیشن لیڈروں سے ملنے، ملک کے دانشوروں اور میڈیا کے نمائیندوں سے ملاقات کرنے اور عوام کو ذہنی طور پر کسی بڑی مشکل کے لئے تیار کرنے کی سنجیدہ اور عملی کوششوں کا آغاز نہیں کرنا چاہئے تھا؟ اس کے برعکس یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک بھر میں گندم کی قلت اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کے بعد وفاقی حکومت کے نمائیندے سندھ حکومت پر الزام تراشی کے لئے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔

عمران خان نے آج نوجوانوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ملکی معیشت کے بارے میں ایک بار پھر مثبت باتیں کی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے والا ہے، صنعتی ترقی ہورہی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔  اس طرح معاشی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملکی معیشت کو ترقی پر گامزن کرنے والا کوئی لیڈر اسی روز ایک ہمسایہ ملک کے ساتھ جنگ کی بات کیوں کر کرسکتا ہے؟ کیا عمران خان یہ بنیادی اور سادہ معاشی اصول بھی سمجھنے کے قابل نہیں ہیں کہ جنگ کے ماحول میں کوئی سرمایہ دار کسی ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ صرف ادائیگیوں کے توازن میں بہتری کسی معیشت کے استحکام کی علامت نہیں ہوتی۔ پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں کمی اور قرضوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورت حال آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان میں بہتری کا اشارہ نہیں ہے۔

وزیر اعظم مسلسل اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہیں اس خوف سے نکلنے اور اپوزیشن کی نام نہاد سازشوں سے بے پرواہ ہونے کی ضرورت ہے۔ وہ یقین کرلیں کہ ان کی حکومت کو کئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ تاہم اگر وہ حکومتی معاملات یعنی گورننس بہتر بنانے اور معیشت میں اعتماد پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو ملک کی ساری پارٹیاں مل کر بھی انہیں زوال سے نہیں بچا سکیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments