آٹا بحران پر آسما ں گرا نہ پشیمانی ہوئی


ملک میں ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسر اسر اُٹھا نے لگتاہے، تحریک انصاف حکومت اندرونی اور بیرونی سطح پر پہلے ہی کئی معاملات میں اُلجھی ہوئی تھی کہ ُاوپر سے آٹے بحران نے ہلا کررکھ دیا ہے، آٹے کا ملک گیر بحران جاری ہے، آٹے کی قیمت ملک بھر میں روز ایک نیا ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ مہنگا کرنے کے بعد آٹے کی مصنوعی قلت بھی پیدا کردی گئی ہے، جبکہ حکومتی بیانیہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ ملک میں آٹے کا کوئی بحران نہیں ہے۔

اگر ملک میں آٹے کا کوئی بحران نہیں ہے تو پھر اس کی قیمتوں میں 25 روپے فی کلو تک کا اضافہ کیسے ہوگیا اور اب آٹا مارکیٹ ہی سے کیوں غائب کردیا گیا ہے۔ اسمعاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں متحرک ہوگئی ہیں، وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سمیت تمام حکومتی عہدیدار سستی روٹی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کر رہے ہیں، تاہم بعض حکومتی ارکان اسمبلی اور وزراء کے غیر سنجیدہ بیانات سے ایک طرف عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہوئی تو دوسری جانب عوام کوریلیف دینے کی حکومتی کوششیں اپنوں ہی کے ہاتھوں متاثر ہورہی ہیں۔ یہ وقت ٹھٹھہ مذاق یا الزام تراشیوں میں ضائع کرنے کانہیں، بلکہ عوامی مسائل کے حل پر پوری توجہ دینے اور اپنی کاوشوں کے ثمرات عوام تک پہنچانے کو یقینی بنانے کا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان دنیا بھر میں ایک زرعی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، گندم سمیت کئی خوردنی اجناس اور پھل برآمد کرنے کے لئے مشہور ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح معمولی فرق کے ساتھ گندم پیداواری کاہدف حاصل کیا گیا، اس کے باوجود خیبر سے کراچی تک آٹے کے بحران کا سامنا کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ لگتا ہے۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سردست تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرناپڑرہی ہے، جبکہ دوسری طرف غربت اور مہنگائی کے مارے عوام جن کا بمشکل دو وقت کی روٹی پر گزارا تھا، آٹے کے حصول میں مارے مارے پھر تے ہوئے 70 روپے فی کلو لینے پر مجبور ہیں۔

بقول وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی، یہ حالات گندم کی اسمگلنگ کے باعث پیدا ہوئے ہیں، صرف چمن بارڈر سے ماہانہ چالیس ہزار ٹن گندم اسمگل ہونے کا مطلب فوڈ سیکورٹی سمیت قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانا ہے۔ اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی، جنہیں بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت مارکیٹ کی صورتحال یہ ہے کہ اگر فلور ملیں آٹا پانچ روپے فی کلو مہنگا کر رہی ہیں تو دکاندار اس سے بھی زیامہنگا بیچ رہے ہیں، فلور ملز کا سرکاری کوٹہ اوپن مارکیٹ میں فروخت کر نے کے باعث بھی آٹے کا بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ وفاقی وزراء گندم کے بحران کے تاثر کوغلط قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کئی لاکھ ٹن گندم حکومت کے پاس محفوظ ہے۔

اگر حکومت کے پاس گندم کا سٹاک موجود ہے تو پھر آٹے کے بحران پر قابو پانے کے لئے آئندہ ماہ کے وسط تک 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کیوں کی جارہی ہے۔ حکومت کے پاس ایک مکمل انتظامی سیٹ اپ موجود ہے جو سارا سال گندم کی پیداوار اور سپلائی کے انتظامات کا حساب کتاب رکھتا اور کسی بھی متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت منصوبہ سازی کرتا ہے۔ حکومت وزراء کی نا اہلی کے باعث انتظامی امور میں کوتاہی کے نتیجہ میں آٹا بحران سنگین صورتحال کو پہنچا ہے، اس وقت بھی موجودہ آٹے کے بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کی بجائے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں، سندھ حکومت وفاقی حکومت پر الزام لگا رہی ہے، جب کہ وفاق آٹے کی مہنگائی اور قلت کی ذمے داری سندھ صوبائی حکومت پر عائد کر رہا ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی نظر میں گندم کا کوئی بحران نہیں، جب کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میدان عمل میں نکل آئے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومت آٹے کے بحران پر جتنی مرضی وضا حتیں پیش کریں، عوام کے سامنے حکومتی نا اہلی عیاں ہے۔ عوام پہلے ہی پٹرول گیس اور روز مرہ کی دیگر اشیا کی وقیمتوں میں اضافے سے پریشان تھے کہ اب آٹے کے بحران نے ان کی تشویش اور مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے، آٹا ’گھی اور سبزی ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے، اگر ان کے حصول میں بھی اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو لامحالہ حکومت کے خلاف اس کے غم و غصے میں اضافہ ہوگا، جب کہ حکومت کے پاس ماسوائے خوشنما دعوؤں اور دلفریب وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ آٹابحران پرآسماں گرا نہ کسی کو پشیمانی ہوئی، بلکہ حکمران طبقہ غر یب بھوکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا فرض منصب سمجھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کوعوامی مسائل پر سنجیدگی سے غور کر کے لائحہ عمل بنانا ہو گا، اگر عوامی مسائل کوحل کرنے کی بجائے صرف تقریروں اور شعبدہ بازیوں سے کام چلانے کی کوشش کی گئی تو پھر بہت جلد عوام پوری طاقت سے باہر نکلیں گے اور سیاستدانوں، حکمرانوں اور لوٹ مار کرنے والے لیڈروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔

حکومت کو آٹے بحران کے پس پشت ذمہ داران عناصر کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کرتے ہوئے نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے، محض ریٹیلرز پر چھاپے مارنے کے بجائے اصل ذمہ داروں کو سامنے لا کر سزا دینی چاہیے، مگر یہ سب کون کرے گا کہ ان سب کے ڈانڈے تو تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں جا ملتے ہیں۔ آٹے بحران کے پیچھے چینی بحران چلا آرہا ہے، اگر بحران مافیا کی حوصلہ افزائی یونہی جاری رہی تو بحران سونامی سب کچھ بہا لے جائے گا۔ حکو مت وقت کے لیے آٹا بحران کی وجوہات اور اسباب تلاش کرنا جہاں ناگزیر ہے، وہاں اس کے ذمے داروں کا تعین کرکے ان کا احتساب بھی معاشی استحکام کے لیے لازم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments