ترقیاتی فنڈز پر تحریکِ انصاف کے اراکین ناراض کیوں، انہیں پیسے کیوں چاہیں؟


عثمان بزدار

پاکستان کے سب سے بڑے اور سیاسی طور پر اہم صوبے پنجاب میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے ممبران اور اتحادی حکومتِ پنجاب سے ناخوش ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں پنجاب کے ضلع لیہ سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی سردار شہاب الدین کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ان کے سمیت پی ٹی آئی کے 20 ممبران کو حکومتِ پنجاب سے شکایات ہے۔

ان میں زیادہ تر ارکانِ پنجاب اسمبلی کا تعلق جنوبی پنجاب جبکہ دیگر وسطی اور شمالی پنجاب سے بتائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں حکمران جماعت کے وفاقی وزیرِ فواد چوہدری نے بھی مقامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے وزیرِاعلٰی پنجاب اور ان کے طرزِ حکومت سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی اس حوالے سے تصدیق کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی کو حکومت سے شکایات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تحریکِ انصاف کے ارکان کی حکومت سے شکایات

جنوبی پنجاب صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم

ان شکایات میں نمایاں عنصر ‘ترقیاتی فنڈز کی عدم دستیابی’ کا ہے۔ اراکین کی شکایت ہے کہ ’انہیں ترقیاتی فنڈز نہیں دیے جا رہے اور ترقیاتی سکیموں کے اجرا کے وقت ان کے علاقوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘

اتحادی جماعت کے ساتھ ساتھ اگر حکمران جماعت کے اندر سے بھی ناراضگی کی آوازیں آنے لگیں تو حکومت دباؤ کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ اسے حکومت قائم رکھنے کے لیے ایوان میں اپنی عددی برتری برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ ایسے میں کوئی بھی حکومت اپنے ہی ارکان اور اتحادیوں کو ناراض کیوں کرنا چاہے گی؟ یہ ترقیاتی فنڈز ہوتے کیا ہیں، یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے اور حکومت ارکانِ اسمبلی کو کیوں دیتی ہے؟ انہیں اس کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟

تعمیرات

یہ رقم حکومت کے سالانہ بجٹ میں پی ایس ڈی پی یعنی عوامی شعبے کے ترقیاتی پروگرام یا سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں رکھی جاتی ہے

ترقیاتی فنڈز ہیں کیا چیز؟

احمد بلال محبوب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ یا پلڈیٹ کے سربراہ ہیں۔ ان کا ادارہ پاکستان میں مقننہ، قانون سازی اور اس کے ارتقا کے معاملات پر کام کرتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ترقیاتی فنڈز بنیادی طور پر وہ پیسے ہیں جو کسی علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں کسی علاقے میں سڑکیں بنانا، گیس، بجلی، پانی، طبی سہولیات اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یا ترقی دینا شامل ہے۔

یہ وہ پیسے ہوتے ہیں جو ہر حکومت ملک کے مخلتف علاقوں میں ترقی اور فلاح و بہبود کی سکیموں کے لیے مختص کرتی ہے۔ یہ رقم حکومت کے سالانہ بجٹ میں پی ایس ڈی پی یعنی عوامی شعبے کے ترقیاتی پروگرام یا سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں رکھی جاتی ہے۔

یہ پیسے ارکانِ اسمبلی کو کیوں دیے جاتے ہیں؟

احمد بلال محبوب کے مطابق یہ پیسے براہِ راست ارکان کو جاری نہیں کیے جاتے، یہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی سکیموں کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔

‘مثال کے طور پر حکومت کہتی ہے کہ فلاں ایم این اے کو پانچ کروڑ اور فلاں ایم پی اے کو تین کروڑ ان کے علاقے کی ترقی کے لیے دیے جائیں گے۔’ یعنی یہ پیسہ اس رکن کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری ہوتا ہے۔

ترقیاتی فنڈ

’اگر تاریخ میں ترقیاتی کاموں کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی ارکان کو حزبِ اختلاف کے ارکان کے مقابلے زیادہ فنڈز ملتے ہیں‘

احمد بلال محبوب کے مطابق بعض اوقات حکومتیں اس پیسے کے اجرا کے ساتھ شرائط بھی رکھ دیتی ہیں جیسا کہ کس قسم کے منصوبے کے لیے استعمال ہو گا اور اس کے لیے تعمیراتی کام کا ٹھیکہ کس کو اور کیسے دیا جائے۔

کیا یہ پیسہ تمام ارکان کو ملتا ہے؟

ہونا تو ایسا ہی چاہیے کیونکہ ہر علاقے میں ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہوتی ہے تاہم ایسا ہوتا نہیں ہے۔ احمد بلال محبوب کے مطابق اگر تاریخ میں ترقیاتی کاموں کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی ارکان کو حزبِ اختلاف کے ارکان کے مقابلے زیادہ فنڈز ملتے ہیں۔

‘یہ بنیادی طور پر حکومت کا صوابدیدی فنڈ ہے۔ اس کے اجرا کے لیے کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ حکومت جسے چاہے دے، جسے چاہے نہ دے۔’ حکومتیں اس فنڈ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق ہر صوبے کے وزیرِاعلٰی یہ کرتے ہیں کہ وہ یہ فنڈز اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔

‘یہاں پہ خرابی ہے۔ وہ جس پر مہربان ہوتے ہیں اس کو زیادہ دے دیتے ہیں، اور جس سے ناراض ہوتے ہیں اس کے فنڈز روک لیتے ہیں۔’

تو ارکانِ اسمبلی کو کیا نقصان ہوتا ہے؟

احمد محبوب بلال کے مطابق کسی بھی اسمبلی کے رکن کے جو چند مسائل ہوتے ہیں ان میں ایک بڑا مسئلہ ترقیاتی فنڈز کا ہے۔ ان کے حلقے کے لوگ ان کو ووٹ دیتے وقت یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے علاقے کے لیے تقریاتی کام کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کی سروے وغیرہ میں بھی ‘جب لوگوں سے پوچھا جاتا ہے تو وہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ اسمبلی میں ان کے نمائندے ان کے علاقے کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔’

‘ایسا نہ ہو تو سیاسی طور پر ارکانِ اسمبلی کو نقصان ہوتا ہے اور آئندہ انتخابات میں لوگ انہیں ووٹ نہیں دیتے۔’

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کا کام ہوتا ہے۔

ترقیاتی فنڈ

اگر لوگ ٹیکس دیتے ہیں تو بدلے میں ان کا حق ہے کہ ان کے علاقے میں ترقی بھی ہو۔

‘یہ لوگوں کا حق ہے’

صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق ترقیاتی فنڈز حلقے کے لوگوں کا حق ہے۔ ‘ایسا تو نہیں کہ یہ کوئی حکومت کے اپنے پیسے ہیں۔ اگر لوگ ٹیکس دیتے ہیں تو بدلے میں ان کا حق ہے کہ ان کے علاقے میں ترقی بھی ہو۔ یہ تو ان کا اپنا پیسہ ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں ایسے ترقیاتی منصوبوں پر انفرادی حیثیت میں یا اکٹھے بھی کام کرتی ہیں۔ کوئی پابندی نہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ ایسے کام ضلعی حکومتوں کے ذریعے ہوں۔

روپے

ترقیاتی منصوبوں پر سالانہ مختص رقم اسی سال میں استعمال ہونا ہوتی ہے

تو کیا پنجاب حکومت اسی لیے فنڈز جاری نہیں کر رہی؟

احمد بلال محبوب کے خیال میں ایسا کہنا درست نہ ہو گا ‘اگر ایسا ہوتا تو تحریکِ انصاف کی حکومت بلدیاتی نظام ختم ہی نہ کرتی یا نیا نظام جلد لے آتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔’

تاہم ترقیاتی منصوبوں پر سالانہ مختص رقم اسی سال میں استعمال ہونا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم استعمال ہو رہی ہے لیکن وہ یا تو لوکل گورنمنٹ کے ایڈمنسٹریٹر یا پھر ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے ذریعے ہو رہی ہے۔

‘اور اس طرح پھر حکومت خود انتخاب کرتی ہے اور اپنی مرضی اور پسند کے ارکان کو فنڈز کا اجرا کرتی ہے۔’

تو کیا پنجاب میں شکایات اسی لیے ہیں؟

احمد بلال محبوب کے مطابق تحریکِ انصاف کے وزرا اور اراکین جو شکایات کر رہے ہیں اس کی وجہ بھی یہی کہ ان کے اضلاع کو ترقیاتی منصوبے یا دوسرے الفاظ میں ترقیاتی فنڈز جاری نہیں ہو رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ اجرا صوبائی سطح پر قائم فنانس کمیشن کے ذریعے ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔

‘لیکن کیونکہ پنجاب میں بلدیاتی نظام ہی نہیں ہے، بلدیاتی حکومتیں ختم کر دی گئی ہیں تو کوئی فنانس کمیشن بھی نہیں ہے۔ اس لیے وزیرِاعلٰی پنجاب اپنی مرضی سے چیزیں جاری کرتے رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے شکایات بھی ہیں۔’

تو کیا وہ کوئی فارورڈ بلاک بنا رہے ہیں؟

پاکستان میں قانونی طور پر کسی سیاسی جماعت کے اندر فارورڈ بلاک بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن غیر رسمی انداز میں ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ تو کیا اس وقت بھی ایسا ہو سکتا ہے؟

صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق ایسا کوئی خدشہ فوری طور پر موجود نہیں ہے۔ ارکان کی ناراضگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایسی ہی چھوٹی موٹی بغاوت ہوتی رہتی ہے۔ اپنے اپنے مطالبات لیکن ابھی کوئی سنجیدہ حرکت نہیں ہو رہی۔ اس میں وقت لگے گا۔’

تجزیہ کاروں کے خیال میں تحریکِ انصاف کے اراکین اور اتحادیوں کی شکایات اور اختلافات کا تعلق زیادہ تر موجود حکومت کے طرز اور کام کے طریقے سے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp