میڈم شازیہ عطا مری اور ووٹ کی عقیدے سے آزادی


سانگھڑ کی سیاست میں انقلاب لانے والی میڈم شازیہ عطا مری صاحبہ۔

میں 92 سے سانگھڑ کی سیاست دیکھتا آرہا ہوں، ہمارا حلقہ اور عزیز آباد کراچی کا حلقہ ناقابل شکست رہے ہیں۔

مخالف پارٹی کے امیدوار فارم ہارنے کے لیے ہی بھراتے تھے، اور ووٹ آرڈر کے ذریعے لئے جاتے تھے۔

دونوں بڑی پارٹیوں کے نمائندوں کا منشور ایک ہوتا، ووٹ مرشد کی امانت ہے جو ان کے حکم پر دینا ہی ہے۔

ووٹرز اسے کسی وحی سے کم نہ سمجھتے تھے۔

خلیفے خلفاء اپنی جیبیں گرم کر کے عوام کو حکم جاری کرتے کہ بلا چوں و چرا ووٹ دینا ہے۔ اور یوں 1947 میں فرضی آزادی حاصل کرنے والا شہری اپنے مسائل کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خلیفوں کے آگے سر تسلیم خم کرتا تھا۔

پرویز مشرف کا دور الیکٹرانک میڈیا کے عروج کا دور تھا لیکن ہم تب بھی جنت کے لالچ میں ووٹ گروی رکھے ہوئے تھے۔

پھر دو ہزار تیرہ کے ضمنی انتخابات کا وقت قریب آیا، ایک خاتون کو تنہا الیکشن کیمپین چلاتے دیکھتا تھا، شکست یقینی تھی لیکن اس خاتون کا حوصلہ ہمالیہ سے بھی بلند تھا، سب تجزیہ نگار ماضی کے نتائج کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

لیکن اچانک رات کو آٹھ بجے ہمیں معلوم ہوگیا کہ سانگھڑ کی سیاست میں بڑا انقلاب آچکا ہے۔

سنہ 70 سے فنکشنل کی ناقابل شکست سیٹ ان کے ہاتھوں سے جا رہی تھی۔

اس رات مجھے اپنے دوست کے ہارنے کا غم تھا تو وہاں اس بات کی خوشی بھی ہو رہی تھی کہ اب ووٹ کی قدر ہوگی ووٹر کی عزت ہوگی، اب جنت اور شفاعت کے وعدوں کے بجائے کارکردگی پر ووٹ لیا جائے گا۔

میڈم شازیہ کی جیت نے ووٹر کو شعور دیا، اب خلیفوں سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے، جناب آپ نذرانہ لے لیں، لیکن ووٹ ضمیر اور کارکردگی پر دوں گا۔

دو دن سے میرے بھوکے بچوں کو جنت کے وعدوں سے زیادہ کھانے کی ضرورت ہے۔

حضور والا قیامت میں شفاعت سے پہلے میرے ننگے بچوں کو کپڑوں کی ضرورت ہے،

بیمار گڑیا کو تعویذ کے بجائے گولی کی ضرورت ہے،

آپ تو نیسلے کا امپورٹڈ پانی پیتے ہو میرے بچے اچھڑو تھر کا سنکھیا Arsenic ملا پانی کیوں پئیں؟

خلیفہ صاحب آپ تو معمولی گیس پرابلم پر آغا خان اور ساؤتھ سٹی جاتے ہو، میرے بچے سانپ ڈسے کی ویکسین سے محروم کیوں رہیں؟

آپ تو امپورٹڈ گاڑیوں میں سفر کرتے ہو میرے بچے کب تک بسوں پر لٹکتے سفر کریں گے؟

تم بھی آدم کی اولاد ہو میں بھی بابا آدم کی اولاد ہوں پھر یہ طبقاتی اوچ نیچ کیوں؟

تم جب میرے گھر آتے ہو میں بچوں کے دودھ کے لیے رکھی واحد بکری ذبح کر کے دعوت کرتا ہوں لیکن جب میں تمہارے بنگلو پر آتا ہوں تو سو گز دور مجھے چپل اتروائی جاتی ہے۔

تمہارے بچے تو سٹی اور ایچی سن میں پڑھیں اور میرے بچے مدرسے کے سوکھے ٹکڑوں پر پلیں۔ (چھور سے خیرپور تک اچھڑو تھر میں کوئی مڈل اسکول، ہائی اسکول اور کالج نہیں ہے ) ۔

آپ نے تو میرے ووٹوں کے بدولت شگر مل بنالی، لاکھڑا کا کوئلہ لے لیا، سندھ کے ہر شہر میں گاڑیوں کا شوروم بنا لیا، کراچی میں شاپنگ مال قائم کر لئے، دبئی میں ہوٹلز بنا دیے لیکن میں آج بھی وہیں نمک کی جھیل میں دو سو دہاڑی پر کام کرتا ہوں جہاں میرے بابا کام کرتے کرتے مر گئے، اب میرے بیٹے بھی یہی کام کر رہے ہیں۔

خاندانی رئیس تو تو بھی نہیں تھا، کبر اسٹاپ پر آٹے کی چکی چلاتا تھا، آج تجھے مجھ سے ہاتھ ملاتے گھِن آتی ہے کہ کہیں مجھ سے جراثیم نہ لگ جائیں، ۔

اس جیسے درجنوں سوال ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی زبان پر ہیں،

میڈم صاحبہ، آپ نے ڈھور ڈھنگر سمجھے جانے والے ووٹرز کو عزت دلائی، ان کو شعور دیا یہ بہت بڑا احسان ہے۔

لیکن ایک عرض کرتا چلوں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے مت دینا، ترقی حاصل کرنا آسان ہے لیکن اسے sustain رکھنا بہت مشکل ہے۔ آپ کی ٹیم کا ووٹرز سے رابطے میں رہنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ اسلام آباد کے ایوانوں میں پہنچ کر ان نادار لوگوں کو بھولی نہیں ہیں۔

مجھے آپ سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں لینا ہے، آپ کے ووٹرز کے لئے دو مطالبات کروں گا، تعلیم اور صحت پر زیرو ٹالرینس پالیسی ہو، افسران کو مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ رزلٹ حاصل کر سکیں۔

کھپرو کا سول ہسپتال ایک ماڈل ہسپتال ہو، اچھڑو تھر جہاں لوگ زہریلا پانی پی رہے تھے آپ نے اربوں روپے کا پروجیکٹ منظور کروا کے میٹھے پانی کی سہولت فراہم کی ہے وہاں ڈسپینسریز، بی ایچ یو اور فعال اسکولز بھی قائم کروائیں۔

کافی ملازم پیپلز پارٹی کے ورکر ہونے کے ناتے ادارے برباد کرنے پر تُلے ہیں انہیں بھی کنٹرول کیا جائے۔

کھپرو کے عوام کے مسائل کے حل کے لئے کسی بے لوث اور کامپیٹنٹ بندے کو ہاؤس انچارج منتخب کریں۔ اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments