بشار الاسد کی فتح: اب شام میں کیا ہو گا؟


پورا شام تباہ و برباد ہو گیا، لاکھوں شامی ہلاک ہوئے، لاکھوں معذور ہوئے، لاکھوں کو ہجرت کرنی پڑی۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے اور بشار الاسد فاتح ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں سے اس نے اپنے عوام کا قتل عام کیا۔ روس اور ایران کی افواج سے اپنے ملک کے سنی المسلک شہریوں کا قتل عام کرایا۔ امریکا اور سعودی عرب کی پیدہ کردہ داعش نے بھی انہی لٹے پٹے لوگوں کا خون بہایا۔ انہی کے سروں کے مینار بنائے، ترکی نے بھی اپنی طاقت کا کردوں پر استعمال کیا۔

اسرائیل نے بھی لگے ہاتھوں جہاں موقع ملا ایرانی اور شامی افواج پر ہاتھ صاف کیا۔ علویوں کی فوج اور شبیہہ نام کی تحریک نے عوام کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ حزب اللہ، اصائب اہل حق اور ایرانی پاسداران انقلاب نے بھی انسانی خون کی ندیاں بہا دیں۔ اس پوری لڑائی میں ہر محاذ پر شکست محض عوام نے کھائی ہے۔ وہی عوام جوایک فیصد علویوں کے زیر اقتدار حافظ لاسد کے عہد سے رہ رہے ہیں۔ جب عرب بیداری کی لہر شام پہنچی تو بشار الاسد نے سب سے سخت آہنی ہاتھوں سے مظاہرین سے نمٹا۔

فساد پیدا ہوا، خانہ جنگی کی صورت حال برپا ہوئی اور پھر سلفی مسلک کے ماننے والے دنیا جہان سے شام میں سعودی اور امریکی ایما پر داخل ہو گئے۔ ابوبکر البغدادی کی قیادت میں اِس گروہ نے بہیمیت کی حدیں پار کیں۔ پھر تو نت نئے ملکوں نے یہاں اپنے حلقہ اثر کو خطے میں بڑھانے کے لئے تجربات شروع کیے۔ ایران نے اپنی نوآبادیات بڑھانے کے خواب کو پورا کیا۔ دنیا جہان سے شیعہ لڑاکے بھرتی کر کے شام بھیجے کہ وہ داعش سے لڑ سکیں۔

وہاں پر ایران کی حزب اللہ اور اصائب اہل حق کے پرچم تلے لڑنے والوں میں پاکستانی اور افغان افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ پھر روس نے اس لڑائی میں قدم رکھا، امریکا روس سے کسی بھی کھلے تناؤ سے بچنے کے لئے کھل کر میدان میں کبھی نہ اترا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ظاہری طور پر بشار الاسد جنگ جیت چکا ہے۔ داعش، کردوں اور امریکیوں کے ہاتھوں شکست کھا چکے۔ اب شام کے کچھ حصے غیر داعش باغیوں کے پاس ہیں، جبکہ کچھ حصے ترکی کے پاس ہیں جہاں امن ہے اور بہت بڑی تعداد میں شامی مہاجرین اپنے ہی وطن میں بے گھر وہیں رہتے ہیں۔

یہ کتنی عجیب بات ہے۔ غور کیجئے آخر روس کا شام سے کیا کام؟ مگر روس وہاں ہے۔ امریکا کا شام سے کیا تعلق؟ مگر امریکا وہاں موجود ہے۔ وہاں کے معاملات میں ترکی دخیل ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ مفلوک الحال لبنان کی حزب اللہ بھی وہاں طرم خان بنی گھوم رہی ہے۔ عرب سنی ممالک کو داعش بنانا مہنگا پڑ گیا اور وہ انہی کے گلے پڑ گئی۔ اس لیے انہوں نے ایک طور سے شام سے پسپائی اختیار کی اور حوثیوں پر توجہ مرکوز کی کہ کسی طرح جزیرہ نما عرب سے ایرانی اثرات کو باہر کیا جا سکے۔

یہاں پر بھی عرب بڑی حد تک ناکام نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل ایک ایسی جنگ ہے جس میں عقائد اور اخلاقیات کا صریحاً کوئی دخل ہے ہی نہیں۔ مذہب، مسلک یہ دونوں ہی باتیں صرف گروہی لیبل ہیں۔ اِن سے لوگ اپنے گروہ کو پہچانتے ہیں۔ پھر جہاں اُن کو قوت ملے وہ دوسرے گروہ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بہیمیت کی حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔

ویسے بشار الاسد اور اُس کی فوج اثنا عشری شیعہ ہیں بھی نہیں۔ یہ فرقہ علویہ کہلاتا ہے اور یہ تشیع عقائد میں غلو کرتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے عقائد میں آغا خانیوں سے مشابہ ہے۔ بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد نے ساری شامی فوج اپنے ہی فرقے کے ماننے والوں سے بنائی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے اور بعد ازاں اُس کے بیٹے کے اقتدار میں رہنے کی کوئی دوسری صورت تھی ہی نہیں۔

مگر اب جب اتنا خون بہہ چکا اور بالآخر بشار الاسد ہی فاتح رہا تو اِس صورت میں کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ شام کے حالات دوبارہ سے اِس جنگ سے پہلے جیسے ہو سکتے ہیں؟ ایسا صریحاً ناممکن ہے۔ بشار الاسد جیسے پہلے پورے شام کو اپنی مٹھی میں بند کر کے حکومت کر رہا تھا، اب ایران کی فوج، حزب اللہ، اصائب اہل حق وغیرہ کی موجودگی میں اور روس کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں۔ حزب اللہ، ایرانی فوج اور اصائب اہل حق شام میں اپنے فرقے کو غالب کرنے کی کوشش کریں گے۔

اِن سب کی یہ کوشش ہو گی کہ شامی مہاجرین کبھی واپس شام نہ آئیں کیونکہ اِس صورت میں ان کا فرقہ غالب نہ رہ سکے گا۔ ایران کی کوشش ہے کہ اُس کے یہ پراکسی دہشت گرد وہیں شام میں مستقل طور پر بسا دیے جائیں، یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ بات بشار کے لئے ناگوار ہے اس لیے کہ اِس صورت میں اس کے ہم مذہب، فوج اور شبیحۃ ملیشیا ملک میں حاکم کے بجائے محض ایرانی کٹھ پتلی بن جائیں گے۔ دوئم یہ کہ اِس پورے کھنڈر ملک کو دوبارہ تعمیر کرنے کی قدرت نہ شام کی حکومت میں ہے نہ ایران اور حزب اللہ میں۔

A Kurdish Syrian woman walks with her child past the ruins of the town of Kobane

پھر اس سب کے علاوہ روس بھی ہے جو واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ جب امن ہو جائے تو ایران اور حزب اللہ کو شام سے جانا ہو گا۔ اسرائیل اور سعودی عرب کو بھی ایران اور حزب اللہ اور اصائب اہل حق کا شام میں رہنا برداشت نہیں۔ حال ہی میں قاسم سلیمانی اور مہندس کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت اسی بات کی دلیل ہے۔ اسرائیل کئی چھوٹے چھوٹے حملے کر کے ایرانی اہداف کو نشانہ بنا ہی چکا ہے۔ پھر ترکی کے پاس جتنا شام ہے کیا وہ اُسے چھوڑ دے گا؟ ترکی کو شامی کردوں سے بغض ہے اور وہ PKK کو سبق سکھانا چاہتا ہے، مگر دوسری طرف اس کے ہی زیر فرمان علاقے سنی شامیوں کی آخری جائے پناہ بھی ہیں۔

نظر یہ آتا ہے کہ روس تو وہاں رہے گا مگر ایران اور حزب اللہ کو وہاں سے جانا ہو گا۔ ابھی سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ شام میں دخل اندازی کی قیمت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایران کی کمزور معیشت بری طرح اس کے وزن تلے دب گئی ہے۔ اوپر سے ایرانی فوجیوں کے تابوت الگ وہاں سے آ رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ تو بہت دیر تک ایران کے لئے قابل برداشت رہ سکتی ہے نہ حزب اللہ کے لیے۔ پھر اسرائیل سے بھی یوں براہ راست ٹکراؤ ایران کی پالیسی کے خلاف ہے۔ وہ اسرائیل سے صرف زبانی جمع خرچ کی حد تک بیر رکھتا ہے اور شام میں اُس کا داخلہ اسرائیل سے کسی نوع کا تناؤ بڑھانے کے لئے نہیں بلکہ سنی دنیا پر قبضہ جمانے کے لیے ہے۔ یادش بخیر، خمینی کے دور میں بھی ایران یہ سعی کر چکا ہے۔ مگر جو بھی ہو، ایران کو جانا ہو گا اور ترکی اتنے حصے سے نہ جائے گا جہاں وہ قابض ہو چکا ہے۔ مہاجرین کو دنیا ہمیشہ اپنے ملکوں میں رکھنے پر تیار نہ ہو گی اور حتمی طور پر انہیں واپس شام ہی آنا پڑے گا۔

عالمی برادری بشار الاسد کی قیادت میں تو شام کو امداد نہ دے گی۔ اِس صورت میں شام میں ساری تعمیر نو کی ذمہ داری روس پر پڑے گی۔ روس کی معیشت بھی اتنے بڑے ایڈونچر کو سہار نہیں سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ روس خود ہی عالمی امداد کے لیے بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ روس اپنی شامی مہم جوئی سے اچانک پسپائی اختیار کر لے جیسا کہ وہ افغانستان میں کر چکا ہے۔ جو بھی منظر نامہ سامنے رکھیے، اب یہ شام بشار الاسد کے لئے کانٹوں کا تاج ہے اور بڑی حد تک ایران کے لئے بھی۔

اب شام ’نہ اُگلے چین، نہ نگلے چین‘ والا معاملہ ہے۔ حزب اللہ اور اصائب اہل حق وغیرہ کو بھی ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ دہشت گرد تنظیم چلانا اور ملک چلانا ایک جیسے کام تو ہیں نہیں۔ پھر ایرانی اور عراقی شیعوں کا باہمی تفاوت بھی اِن گروہوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ آیت اللہ سیستانی کھل کر ایران کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں جب کہ مقتدا الصدر بھی کمیونسٹوں، لبرلوں سے تو اتحاد پر تیار ہے مگر ایرانی proxies سے نہیں۔

اِس صورت حال نے بھی ایران کو اِس جنگ میں تنہا کیا ہے۔ اِس پوری صورت حال میں ایران کا شام میں لامحدود عرصے تک موجود رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ جب شام سے بیرونی قوتوں کا مکمل بڑی حد تک انخلا ہو گا۔ اُس کے بعد بشار الاسد کتنے عرصے تک شام کو چلا سکے گا، یہ سوال بہت اہم ہے۔ شام ایک جن کی طرح حافظ الاسد اور پھر بشار الاسد کی بوتل میں بند تھا۔ یہ جن اب کھل چکا ہے۔ بشار گو کہ اپنی فتح پر جشن منا رہا ہے مگر یہ طے ہے کہ یہ فتح حتمی نہیں۔

وہ کتنا عرصہ مزید اتنی وسیع اکثریت پر حکومت کر سکے گا۔ یہ سوال اہم ضرور ہے مگر یہ طے ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنا تخت دے کر نہ جا سکے گا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اُس نے اور اس کے آنجہانی باپ نے اپنی ہوس جاہ کے لئے اپنے ہم مذہب لوگوں کو اتنی بری صورتحال میں لا پھنسایا ہے کہ جس کا خمیازہ علوی مسلمان صدیوں تک بھگتیں گے۔ اس خوفناک جنگ میں نہ جانے اور کتنا خون بہنا باقی ہے اور یہ امن اور فتح کس قدر عارضی ہے۔ مگر بشار الاسد کو اس کی کیا پرواہ، وہ تو جشن منا رہا ہے۔ اس کے پیروں تلے لاکھوں انسانوں کی لاشیں ہیں اور وہ ناچ رہا ہے کہ اس نے اپنا اقتدار بچا لیا۔ وقت ثابت کر دے گا کہ اس کا یہ جشن ماتم پر ختم ہو گا۔ ایک ایسا ماتم جو قذافی اور صدام کے بھی حصے میں آیا تھا مگر آمر تاریخ پڑھتے ہی کب ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments