یہ فلٹر پلانٹ میری نظر میں ”پنگھٹ“ کی جدید شکل ہیں


گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے۔ کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے۔ جس طرح پینٹر کو بھی کسی دور میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس کے ہاتھ میں چھپا فن جب ظاہر ہوتا تھا تو کوئی نہ کوئی شہہ پارہ تخلیق ہو چکا ہوتا تھا۔ سڑک کنارے یا کسی دکان میں رنگوں کے تخت پر جلوہ افروز پینٹر جب اپنے فن کے جوہر دکھا رہا ہوتا تھا تو وہاں سے گزرنے والا ہر فرد ایک مرتبہ رک کر ضرور کینوس پر نظر ڈالتا تھا کہ دیکھیں کیا منصہ شہود پر آنے والا ہے۔ ایسے میں پینٹر دنیا و مافیہا سے بے خبر تخلیق کے عمل میں ڈوبا رنگوں سے لائنیں کھینچنے میں مصروف ہوتا تھا۔ وہ آڑی ترچھی لائنیں دیکھتے ہی دیکھتے کسی خوبصورت عورت یا حسین منظر میں ڈھل جاتی تھیں۔ اس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے تصاویر بنانے اور لکھنے لکھانے کا سارا کام پینٹر ہی سر انجام دیتا تھا حتیٰ کہ اشتہار بھی وہ لکھ کر دیتا تھا تب وہ چھاپہ خانے میں شائع ہونے کے لئے بھیجا جاتا تھا مگر اب پینا فلیکس کی ایجاد کی وجہ سے پینٹر کا کردار بھی قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔

جدید ترقی کے دور میں بھی پاکستان کی دن رات ڈولتی ہوئی سیاست اور وعدہ خلاف سیاست دان ہمارے ملک کا استعارہ و قومی نشان بن چکے ہیں۔ پاکستان کا نام آئے تو دہشت گردی، سیاسی رہنماؤں کے اربوں کھربوں کے گھپلے۔ دوسرے ملکوں کے لوگ بھی سوچتے ہوں گے کہ اتنے چھوٹے سے ملک میں اتنا پیسہ کدھر سے پیدا ہو رہا ہے جو ہر کوئی دنوں میں امیر کبیر بن رہا ہے حالانکہ وہاًں کی عوام کو تو پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب سے گھروں میں نصب نلکوں یا پمپوں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تو سرکار نے محلوں اور شہر کے مختلف حصوں میں واٹر فلٹر پلانٹ لگا دیے۔

لوگ جوک در جوک شہر میں موجود فلٹر پلانٹوں سے سائیکلوں، موٹر سائیکلوں، رکشوں اور گاڑیوں پہ پانی بھرنے آتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ لوگ پھر سے دور سے پانی بھر کر لانے کی روایت کی طرف مجبوراً لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے گذشتگان کے لئے پانی کی فراہمی پنگھٹوں کی مرہونِ منت تھی اور موجودگان فلٹروں سے تشنگی کا مداوا کرتے ہیں۔

یہ فلٹر پلانٹ میری نظر میں ”پنگھٹ“ کی جدید شکل ہیں۔ مگر آج فلٹر والی پنگھٹ پہ وہ عشقیہ و معشوقیہ سرگرمیاں نظر نہیں آتی ہیں۔ کیونکہ آج پانی بھرنے کے لئے وہ نازک اندام گوریاں ان جدید پنگھٹوں پہ کہاں آتی ہیں؟ ماضی میں سکھیوں سہیلیوں کے ہوش ربا قافلے مٹک مٹک کر خوبصورت منقش مٹکے، گھاگریں اور گھڑے اٹھائے رواں دواں نظر آتے تھے۔ ہر لحاظ سے پُر خطر رستوں پہ چلنے والی گوریاں اپنے گھر والوں کے لئے پانی کی ترسیل کی ذمہ دار ہوتی تھیں۔

پنگھٹ پر نازنینوں کے کھنکتے قہقہے، کبھی بھیگے بھیگے ان کہے اشارے، ایک دوسرے کو کوہنی مار کہ کہنا ”آہستہ کوئی سن لے گا“ تیز و مدہم ہوتی آوازیں۔ آتے جاتے کسی گوری کے الفاظ دھیرے دھیرے پھسل پھسل کر کسی کے کانوں میں گرتے۔ جن عشاق کی سماعت کی جھولیوں میں لفظ گرتے، ان کے سینے کے اندر مقید پرندہ کبھی گہری فضا میں غوطہ لگاتا اور کبھی اوپر کو اُٹھتا۔ جب وہ گہری فضا میں غوطہ لگاتا، تو سکوت کا چولا پہنے ہوتا اور جب اُوپر اٹھتا تو اس کے پروں سے کھنک دار پھڑپھڑاہٹ اٹھتی، جو حلق سے نکلتی تو فضا مترنم ہو جاتی۔

یہ اپنی اپنی کیفیات پر منحصر ہوتا کہ پنگھٹ کے کنوئیں کی چرخی گیڑتے ہوئے کسی ماہ جبین کو روں روں کی آواز کی بجائے ستار کے مدہم سُر سنائی دیتے تو کسی کو پنگھٹ کی چرخی کرلاتی ہوئی محسوس ہوتی۔ کسی کو پانی کا بوکا گلاب و چنبیلی کے پھول کی مانند ہلکا پھلکا اور کسی کو وزنی محسوس ہوتا۔ اُن پنگھٹوں کے ڈگر بڑے کٹھن ہوتے تھے۔ جن پہ کبھی کبھی چال اور رفتار میں بدنظمیاں بھی دیکھنے میں آتی تھیں۔ دل پھینک عشاق کے لئے وہ لمحات بڑے قیمتی ہوتے تھے۔

کہیں راہوں میں آنکھیں بچھتی تھیں تو کہیں کسی پہ آنکھیں آجانے کے امکانات رہتے۔ ہاتھوں سے دل تھامے جاتے تو دوسری طرف بھی دل میں لڈو پھوٹا کرتے۔ لاکھ تھم تھم کر چلنے کے باوجود پائیلوں میں چھم چھم کے گیت چھپ نہ پاتے۔ ان مسحور کن پنگھٹوں کی دل کش راہ گزروں پر خوب رونقیں اور میلے لگتے۔ مٹی کے گھڑوں کو کنکر بھی لگا کرتے تھے اور بہت سے نند لال پنگھٹ پہ چھیڑ خوانی کی غرض سے براجمان ہواکرتے تھے۔

مگر عصر حاضر میں ماہ جبینوں، نازنینوں اور مٹیاروں کی جگہ بے شمار رکشہ ڈرائیور، گورے، کالے، بھینگے، گنجے اور ہمہ قسم کے مرد حضرات، صاف ستھرے۔ میلے کچیلے، پلاسٹک کے ڈبے اور بوتلیں تھامے، اُکتائے ہوئے، تھکے ہوئے، سوچوں میں گُم غیر رومانوی انداز میں مضطرب کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے راستوں میں کوئی کہکشاں نہیں ہوتی لیکن ساتھ اپنے بچے ضرور ہوتے ہیں۔ ان بے چاروں کی خاطر کوئی گوری منتظر نہیں ہوتی لیکن ان کے ڈبے کے بھرنے کا انتظار قطار میں کھڑے حاجی صاحب کو ضرور ہوتا ہے۔

کیونکہ انہیں با دلِ نخواستہ اپنی ہی گھر والی اور گھر والوں کے لئے فلٹر سے پانی لانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ جدید معاشرے میں زندگی جینے کا سارا فریب کبھی کبھی پشت پر سوار ہو کر مخالف سمت سفر کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ بہر طور سے عہدِ گزشتہ کے لوگوں میں شمار کیے جا نے کی تمنا رکھتے ہیں لیکن ہرآن آگے بڑھنے کی کو شش میں لگے ہیں اور یوں کمر جھکتی جا رہی ہے۔

اشعار، مضامین، افسانوں، کہانیوں میں پڑھے ہوئے تالاب، پنگھٹ کی یادوں کے سائے ذہن کی دہلیز سے نہیں اترتے۔ چاند، بالا خانے، خط، رَفو، پائل، گھنگرو راگ رنگ اور رقص و سرور، وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات جدیدیت کے نام پہ پہلے ہی سے ادب میں متروک و مکروہ ہو چکے تھے۔ اب شعرا اور لکھاریوں کے لیے طبع آزمائی کے لئے ”پنگھٹ“ کا باب بھی بند ہو گیا۔ کیونکہ شعراء، ادباء اور لکھاریوں کے شہہ پاروں میں پنگھٹ اور چوپال پر لگے درختوں کے سائے میں پینگوں پر جھولنے والی دوشیزائیں اپنی سادگی، شان اور دلربائی کی بدولت پوری آن شان سے نظر آتی تھیں۔ ہریالے لہلہاتے کھیت صاف اور شفا ف ہوا وہ پھولوں کی تازگی میں بسا خوبصورت چہرہ اور وہ پنگھٹ اوراس کی رعنائیاں سب کچھ جو فطری اور قدرتی عطیہ تھا واٹر فلٹر پلانٹوں اور واٹر ٹینکیوں نے مل کہ یہ مسحور کُن مناظر چھین کر گاگروں اور مٹی کے گھڑوں کو توڑ دیا۔ بس اب امیر خسرو کے ان اشعار کو پڑھتے رہیں۔ ۔

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

کیسے میں بھر لاؤں مدھوا سے مٹکی

پانی بھرن کو جو میں گئی تھی

دوڑ، جھپٹ، موری مٹکی پھٹکی

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

مورے اچھے نظام پیا جی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments