خلیل الرحمن قمر سے افکار علوی تک


شاعری میں ہماری پہنچ اس نوآموز سے بھی کم ہے جس کی دو غزلوں میں سے پہلی سننے کے بعد استاد نے دوسری پڑھنے کا مشورہ دے ڈالا تھا۔ کچھ روز ہوتے ہیں کہ برسوں سے مٹی کھاتی ایک پیٹی سے وہ ڈائری ملی جسے کبھی بیاض سمجھتے تھے۔ شوق سے بیوی کو اس میں سے کچھ کلام سنایا تو اس نے تنک کر کہا ”اتنے دن ہو گئے ہیں، آپ نے کالم نہیں لکھا“۔ اگلے دن سے وہ ڈائری کہیں نظر نہ آئی۔ تین بٹا چار بہتر قسمیہ کہتی ہے کہ اس نے ادھر ادھر نہیں کی۔ ایسے موقع پر والد محترم یاد آتے ہیں جو ایسے موقع پر کہا کرتے تھے ”ہاں، یہ یقیناً فرشتوں کا کام ہو گا۔ نیک لوگوں کے لیے ایسی ہی غیبی مدد اترتی ہے“ پر جیسے کلام ہمیشہ غیر مطبوعہ رہے گا، ایسے ہی یہ جملہ بھی ناگفتنی رہے گا۔ آخر جان بیوی کو دینی ہے۔

شاعری میں اس دسترس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں کبھی مروج بحور یاد ہوئیں نہ کبھی تقطیع کا سر پیر سمجھ آیا۔ الف کیسے چلتے چلتے گر جاتا ہے اور ی کیسے باقی حروف کے نیچے دب جاتی ہے، یہ بھی معمہ ہی رہا۔ پنگل کے اوزان کو اوزان طبعی سمجھنا چاہیے یا عربی کے علم العروض کو رہ نما بنانا چاہیے۔ فن معنی اور فن بدیع سے کون سی چڑیوں کا شکار ممکن ہے۔ اجزا، رکن، زحاف، وتد کثرت، وتد مجموع، وتد مفروق، سبب ثقیل اور استدراک وغیرہ کے قبیل کی تراکیب کس ہانڈی میں ڈالی جا سکتی ہیں، ان کے جواب بھی نہیں معلوم۔

شعر پڑھ پڑھ کر بس اتنے سالوں میں یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ مصرع آہنگ اور وزن میں ہے یا نہیں۔ کبھی کبھی طبعیت پر بہار آتی ہے تو سکتہ وغیرہ بھی معلوم پڑ جاتا ہے نہیں تو چلے چلو کرتے کرتے موزوں کلام پڑھ لیتے ہیں یا گنگنا لیتے ہیں۔ گنگنانے میں البتہ احتیاط لازم رکھتے ہیں۔ استاد مرحوم کے جیسے ہمسائے تھے، ہمارے گھر والے بھی ویسے ہی ہیں۔ گلے کا نور یوں بھی ہر ایک پر اپنے بھید نہیں کھولتا۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم فتویٰ دینے کے مجاز ہیں نہ حکم لگانے کے روادار ہیں۔ شاعری کو پسند کرنے یا نہ کرنے کو ذاتی واردات سمجھتے ہیں۔ فنی محاسن پر اساتذہ کی رائے کو محترم جانتے ہیں تاہم ہر ایک کو استاد سمجھنے سے پرہیز برتتے ہیں۔ آج کل کی شاعری تو بہت دور کی کوڑی ہے، ہم نے تو اپنی جوانی میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ اچھی شاعری اب نہیں ہونی۔ غضب خدا کہ غالب کے بعد ٹرین فیض، ناصر، مجید امجد، ن م راشد، ابن انشا اور فراز کے اسٹیشن پر رکی، بیچ میں صدیاں نکل گئیں اور اس کے بعد اچھا شعر میٹھے خربوزے سے بھی نایاب ہو گیا۔ شاعروں کا قحط تو کبھی نہیں رہا پر دل پر اترنے والے شعر کی بازار میں سخت قلت ہو گئی۔ دھڑے بازی، ادبی سیاست اور میڈیا کی منڈی میں جن شاعروں کے دام اونچے تھے، ان کا پکوان پھیکا پایا۔ دل ایسا اٹھا کہ کئی سال شاعری سے مکمل پرہیز اختیار کیا۔ اس سے تبخیر معدہ اور اختلاج قلب دونوں میں افاقہ ہوا۔

پھر آہستہ آہستہ کہیں گرد کی تہ سے تڑخ کر کچھ پھول نمودار ہوئے۔ کچھ لہجے کھرے لگے۔ اعتبار کے چاک رشتے کو رفو کرنے کے سامان پیدا ہوئے۔ فہرست طویل ہے۔ اکثر دوست ہیں، خیال خاطر احباب ہے اس لیے نام لکھنے سے گریز ہے کہ کوئی نام چھوٹ گیا تو کہیں شیشے میں بال نہ آ جائے۔ کہکشاں نہ سہی، ایک چھوٹا سا روشن جھرمٹ ضرور ہے جو تاریک آسمان کے ایک کونے میں اب قائم ہے۔ اس کو دیکھتے ہیں تو تسلی رہتی ہے کہ کائنات ابھی بے نور ہونے میں وقت ہے۔

ماضی قریب میں کچھ ناموں کو لے کر گھمسان کی بحث ہوئی ہے۔ یہ وہ نام ہیں جو آج کی اصطلاح میں ”وائرل“ ہو گئے ہیں۔ سب نے اپنی اپنی بات رکھ دی ہے۔ اجازت ہو تو ایک خلاصہ ہم بھی کرلیں۔

دیکھیے بھیا، بات یہ ہے ان ناموں میں سے یاسرہ رضوی کو شاعر سمجھنے کے لیے جو جگر درکار ہے، وہ ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور پاکستان میں جگر کی پیوند کاری بھی نہیں ہوتی، اس لیے یہ باب تو بند ہی سمجھیے۔ اگلے چغادری، معاف کیجیے، جغادری خلیل الرحمٰن قمر کی گفتگو سننے کے بعد ہم تو دیوان غالب اور کلیات اقبال چولہے میں جھونکنے لگے تھے کہ کسی ستم ظریف نے ان کا کچھ کلام ہمیں بھیج دیا۔ ہم نے چوم چاٹ کر غالب اور اقبال کو دوبارہ الماری میں سجا دیا اور چولہا چونکہ جلا ہی بیٹھے تھے تو اس میں خلیل الرحمٰن صاحب کو، معاف کیجیے گا ان کے کلام کو نذر کیا پھر اس کی خاک کو اڑا کر کیڑے مار سپرے بھی کر دیا۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ رہیں یسری وصال تو ان کا اپنا کلام سوجی کا حلوہ لپیٹنے کے لیے انتہائی موزوں ہے اور جو کلام ان کا ہے نہیں، وہ بھی اسی کے لیے موزوں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں سوجی کا حلوہ کسی صورت پسند نہیں ہے۔

ان شخصیات کے بارے میں بات مذاق کے پیرائے میں اس لیے کرنی پڑی کہ یہ بھی مذاق ہی کر رہی ہیں۔ چلتے چلتے دو قصے یاد آ گئے۔ ایک نقل ہے، ایک پر اپنی گواہی ہے۔

منیر نیازی صاحب نے ایک دن انور مسعود صاحب سے دل لگی کی خاطر کہا ”یار انور، کل رات تیری نئی مزاحیہ شاعری کی کتاب پڑھی۔ ذرا ہنسی نہیں آئی۔ “

انور صاحب مسکرائے اور کہا ”منیر صاحب، میں وی تہاڈی سنجیدہ شاعری دی کتاب کل راتی پڑھی۔ میرا تے ہاسا ای نئیں رکیا“ (میں نے بھی آپ کی سنجیدہ شاعری کی کتاب کل رات پڑھی۔ میری تو ہنسی ہی نہیں رکی)۔

دوسرا قصہ لالہ نانک چند ناز کا ہے۔ جب ناز صاحب نے اپنا پہلا مجموعہ کلام تبصرے کے لیے پنڈت میلا رام وفا کی خدمت میں پیش کیا تو وفا صاحب نے اس پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا۔

”ناز صاحب کی کتاب برائے تبصرہ ملی۔ کتابت اچھی نہیں، لیکن کلام سے بدرجہا بہتر ہے، جس کے پڑھنے کے بعد یہ پتا آسانی سے لگ سکتا ہے کہ تعزیرات ہند میں شعر کہنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ “

چونکہ تعزیرات پاکستان میں بھی ایسی کوئی دفعہ موجود نہیں، (گرچہ ہونی چاہیے ) اس لیے شاعر نچنت رہیں۔ فلمی زبان میں کہیں تو لگے رہو منا بھائی۔

آب آ جائیے تین ایسے ناموں کی طرف جن پر حالیہ دنوں میں پورا وطن منقسم رہا۔ چونکہ خادم کو انہیں شاعر سمجھنے میں کوئی تامل نہیں اس لیے اب خلاصے کو سنجیدہ کیے لیتے ہیں۔ پہلا نام تہذیب حافی کا ہے۔ حافی کا بہت سا کلام پڑھا لیکن کوئی شعر دل میں نہیں اترا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حافی کو میں شاعر سمجھنے سے انکار کر دوں۔ میں اس کا اور اس کے کلام کا ہر وقت مذاق اڑانے کو، اس پر پھبتی کسنے اور سستی جگت کو ارزاں کرنے کو بھی کسی طرح مناسب نہیں سمجھتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ میری نظر سے کم ازکم حافی کی کوئی ایسی حرکت نہیں گزری جو اسے خلیل الرحمن قمر کی صف میں کھڑا کر دے اور اس کا مذاق اڑانا مباح ہو جائے۔ یہ ضرور ہے کہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد حافی کو پسند کرتی ہے اور یہ وہ قبیلہ ہے جسے ہم نے برسوں ہر فن لطیف سے دور پایا۔ کسی بہانے سہی، سوئے حرم یہ قدم آئے تو سہی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments