خلیل الرحمن قمر سے افکار علوی تک


دوسرا نام ہے علی زریون کا۔ علی کا کمال یہ ہے کہ اس سے محبت کرنے والے بھی لاتعداد ہیں اور اس سے چڑنے والوں کا بھی شمار مشکل ہے۔ تنقید ہو یا تحسین، علی کی بات ہر کوئی کر رہا ہے۔ اس لیے یہ تو طے ہے کہ فی زمانہ علی زریون کچھ نہ کچھ تو ٹھیک کر رہا ہے۔

علی زریون سے ملیے تو پتہ لگتا ہے کہ اس کے شاعری کے علم میں کمی ہے نہ اس کے مطالعے میں کوئی کجی ہے۔ یہ کوئی خود رو شاعر نہیں ہے۔ اس کی شاعری کے پیچھے برسوں کی ریاضت ہے۔ شاعری کے حوالے سے علی کی گفتگو نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔ کلاسیکی مباحث ہوں، شاعری کی تیکنیک ہو یا شعر کے فنی محاسن ہوں، علی کی گرفت ان موضوعات پر حیرت انگیز ہے۔ اس کا ذخیرہ الفاظ بلا کا ہے اور اس کے مصرع کی بنت کمال کی ہے۔ علی کے بہت سے شعر جو بہت لوگوں کو پسند ہیں، وہ شاید مجھے پسند نہیں ہیں لیکن یہ بات علی بھی جانتا ہے۔ اس کا ابھی سفر آغاز ہے۔ اس میں اس نے کئی تجربے کیے ہیں اور تجربات میں ہر تجربہ کہاں کامیاب ہوتا ہے۔ اب یہ آپ کی اپنی ذاتی اپچ ہے کہ آپ اس کے کون سے شعر منتخب کر کے اس کا کیسا خاکہ بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ شاید چار پانچ استثنا ممکن ہیں ورنہ ایسا خاکہ تو بڑے بڑے اساتذہ کا بھی ممکن ہے۔

علی کے بہت سے شعر مجھے بہت پسند بھی ہیں۔ میرے لیے پسند ناپسند ایک ذاتی احساس ہے اور علی اس احساس پر بار بار کھرا اترتا ہے اس لیے آپ اس پر جو مرضی لیبل لگانا چاہیں، لگائیے۔ مجھے علی کو صرف اس کی شاعری کے آئینے میں دیکھنا ہے اور وہاں جو عکس ہے وہ ایک دل جو عکس ہے۔ مجھے علی کی نظموں کے موضوعات کا تنوع متحیر کرتا ہے۔ ایسا تنوع خال خال ہے۔ مجھے علی کے الفاظ کے چناؤ پر اعتراض کی وجہ نظر نہیں آتی جس کا علم اٹھائے اس کے ناقدین چلتے ہیں۔

عربی اور فارسی کے ٹانکوں پر سر دھنتے والے جب پنجابی، سرائیکی اور انگریزی کے اردو شاعری میں دخیل ہونے پر غمگین ہوتے ہیں تو خادم اس پر بس حیران ہوتا ہے۔ زبان اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔ اسے بنانے دیجیے۔ ان اعتراض کرنے والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو صرف لفظ ”کری“ کے استعمال پر تنقید کا دفتر لکھ مارتے ہیں۔ اس سے اور تو کچھ نہیں ہوتا، ان کی اپنی دستار کے پیچ و خم اور ان کی علمیت کا بھرم دونوں کھل جاتے ہیں۔

کیا اس کا مطلب ہے کہ علی زریون پر تنقید ممکن نہیں؟ بالکل ممکن ہے اور بہت سی تنقید روا ہے، درست ہے۔ میں نے علی کو کبھی اس تنقید کا شاکی نہیں پایا۔ وہ اسے اپنی اصلاح کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی انا کبھی اس کے سیکھنے کی راہ میں کھڑی نہیں دیکھی میں نے۔ اور یہ بڑی بات ہے۔ آپ علی کو ٹک ٹاک یا یو ٹیوب والے تاثر سے آزاد ہو کر پڑھیے تو آپ کو ایک بہت خوب صورت شاعر ملے گا۔ ابھی اس کو لمبا سفر کرنا ہے۔ بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اپنے فن کو کندن کرنا ہے پر اس کے بارے میں اور کچھ نہیں تو یہ یقین مجھے ہے کہ اس نے جو راہ بنی ہے وہ مشکل ہے پر درست ہے اور اس کے قدموں میں کوئی لرزش نہیں ہے۔ وہ اپنے پورے قد سے کھڑا ہے اور اس قد میں صرف اضافہ ممکن ہے۔

تیسرا نام ہے افکار علوی کا۔ مجھے افکار کی نظم ”مرشد“ کسی نے واٹس ایپ کی۔ میں نے سننی شروع کی تو سچ یہ ہے کہ آغاز کے کچھ شعر مجھے بہت کمزور لگے۔ قریب تھا کہ میں ویڈیو بند کر دیتا کہ ایک شعر نے مجھے چونکا دیا اور ایسا چونکایا کہ اس کے بعد میں نے نظم کے تینوں حصے اسی نشست میں سن لیے۔ کیا سب شعر کمال تھے؟ نہیں۔ کیا شعریت اپنے عروج پر ملی؟ نہیں۔ کیا نظم ہر فنی سقم سے پاک تھی؟ شاید نہیں لیکن بہت سے شعر کانوں سے نہیں، دل سے سننے والے تھے۔ ایک پچیس سالہ نوجوان کا نوحہ تھا جو مجھے اپنا نوحہ لگا۔ احساس کی لذت پائی، اظہار کا قرینہ ملا، درد کی شدت دیکھی۔ اور کیا چاہیے۔ افکار اپنا اپنا سا لگا۔ بس یوں سمجھیے کہ کچھ باتیں وہ ایسی کہہ گیا جو مجھے کہنی تھیں پر کہنے کے لیے لفظ نہیں ڈھونڈ پایا۔ میرے لیے یہ کمال ہنر کافی تھا، کافی ہے۔

پھر ایک بحث چھڑ گئی۔ نظم کہیں پیچھے رہ گئی اور تیکنیکی مباحث پر فتوے صادر ہونے لگے۔ گرچہ ہم اس ضمن میں الطاف حسین حالی کو مانتے ہیں جن کے نزدیک نفس شعر وزن کا محتاج نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم وزن سے مطلب نہیں رکھتے۔ شعر پڑھتے ہوئے ہمیشہ احساس ہو جاتا ہے کہ کون سا شعر وزن سے خارج ہے۔ اس لیے بڑی حیرت ہوئی جب نظم کے مصرعوں کے بے وزن ہونے کے ہے در پے حکم لگتے دیکھے۔ سوچا نظم کچھ اساتذہ کے آگے رکھ دی جائے۔ سو رکھ دی۔ جواب ملا کہ کہیں کہیں بندش کی چستی پر سوال ہے۔ کہیں کہیں کچھ حرف بھی گرتے ہیں یا دبتے ہیں لیکن کوئی بھی مصرع بے وزن نہیں۔

ہائیں، تو پھر یہ غلغلہ کس نے مچایا ہے۔ علم برداروں کا نقد غور سے پڑھا تو تسلی ہوئی کہ سب ہم سے بھی گئے گزرے تھے۔ چلیے اور کچھ نہیں پر ہم پابند نظم، نظم آزاد، نظم معری اور نثری نظم کا فرق تو جانتے ہیں۔ ادھر کلاسیکی روایت کے نوحہ گر وہ تھے جو افکار کی نظم کو نثری نظم سمجھے بیٹھے تھے۔ علم کا رعب ڈالتے تو لوگوں کو دیکھا تھا، لاعلمی کی دھونس جماتے ہوئے بھی اسی بہانے دیکھ لیا۔

افکار کی نظم غیر روایتی ضرور ہے پر روایت ہمیشہ قائم رہنے والی چیز نہیں ہے۔ قدیم روایت سے بندھے رہتے تو آج بھی ن م راشد جیسے عبقری، شاعر کی تعریف سے باہر رہتے۔ نئی روایتیں بننے دیجیے۔ جمود کے تالاب میں جتنے پتھر گریں، جتنی لہریں بنیں، اتنا اچھا ہے۔ پانی کناروں سے چھلکے گا تو رواں ہو گا۔ ٹھہرے پانی میں یوں بھی کائی لگ جاتی ہے۔ افکار علوی کی نظم عروض کی ترازو پر تولیے، شوق سے تولیے، وزن پورا ملے گا لیکن اس کو آنکھیں بند کر کے ایک دفعہ کانوں سے نہیں، دل سے سنیے۔ ہو سکتا ہے کہیں آپ کے دل میں تازہ ہوا کے کسی روزن کی اب بھی جگہ ہو۔ وہیں سے یہ آواز بھی اندر اتر جائے گی۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments