پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم:: ’راستے میں کئی بار موت سامنے کھڑی ملتی ہے‘


وادیِ نیلم

’یہاں تو لوگوں کو تودے تلے دبنے کی عادت ہے، ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے‘۔

یہ الفاظ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے ہیں جن کا تعلق وادی نیلم سے ہے اور وہ ’برفانی تودوں کے عادی‘ ان ہی لوگوں سے ووٹ لے کر اسمبلی تک پہنچے ہیں۔ یہ میری کوریج کے دوران سب سے افسوسناک الفاظ تھے۔

اتفاق سے یہ بات مجھے اس وقت کہی گئی جب میں ایک مقامی صحافی کی اس ویڈیو پر کام کر رہی تھی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں اس حادثے کے دوران یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ ‘ہم کس قدر مردہ معاشرے میں جی رہے ہیں‘۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے وادی نیلم کے چند دیہات گزشتہ ہفتے برفانی تودوں کی زد میں آ گئے تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 76 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ درجنوں گھر تباہ ہوئے اور انتہائی دشوار گزار ان علاقوں میں بعض مقامات پر ایئر ایمبولینس اور سرکاری امداد پہنچنے میں تین سے چار دن بھی لگے۔

یہ بھی پڑھیے

‘ارے بھائی کہاں مرنے کے لیے جا رہے ہیں۔۔۔’

’کھلونا ٹارچ برف کی قبر سے نکلنے کا ذریعہ بنی‘

برف میں پھنسے 100 افراد کو بچانے والے سلیمان

پاکستان: شدید برفباری سے ہونے والی تباہی کے مناظر

وادیِ نیلم

میں اپنی ٹیم کے ہمراہ اس حادثے کے چار روز بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے مظفر آباد پہنچی تھی۔ پہلے دن ہمیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ امدادی کاروائیاں جاری ہیں جبکہ سڑکیں تاحال بند ہیں۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ ان امدادی کارروائیوں کے لیے جانے والے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہمیں بھی ان علاقوں تک رسائی دی جائے، جس پر انہوں نے بتایا کہ اب یہ ریلیف آپریشن صرف اس وقت ہوتا ہے جب ان علاقوں سے کسی چیز کی درخواست آتی ہے۔ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘اب ان علاقوں سے درخواست آنا بند ہو گئی ہے‘۔

لیکن وہاں صورتحال کیا ہے؟ وہاں ہیلی کاپٹر کے بغیر رسائی ممکن نہیں یا کم از کم انتہائی مشکل ہے۔ برفباری کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے یعنی رابطے پھر منقطع ہیں۔

ہم نے صورتحال جاننے کے لیے وہاں تک سفر کیا جہاں تک راستہ کھلا تھا۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ کم از کم چار سے پانچ گھنٹے سفر کے دوران ہر جانب صرف برف ہی نظر آتی ہے۔ روڈ پر گاڑیاں ہیں نہ ہی گھروں کے باہر چہل پہل۔

وادیِ نیلم

برف کے گولے اب بھی گرتے ہیں اور لینڈ سلائیڈ بھی جاری ہے۔ متعدد بار ہماری گاڑی بھی لینڈ سلائیڈ کی زد میں آئی جبکہ محکمہ سیاحت کے اہلکار یہاں سفر کرنے والوں کو بتاتے ہیں کہ وہ شاردا کی جانب سفر سے گریز کریں جس کی وجہ راستے کی بندش اور لینڈ سلائیڈ کا خطرہ ہے۔

ہم نے راستے میں کئی مقامات پر بڑے پتھر گرے ہوئے بھی دیکھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے یہ موسم کس قدر مشکلات لے کر آتا ہے۔

اس روڈ پر پھنس جانے کی صورت میں نہ تو قریب آبادیاں ہیں اور نہ ہی یہاں لائن آف کنٹرول قریب ہونے کی وجہ سے موبائل نیٹ ورک کام کرتے ہیں۔ اس لیے اس علاقے میں پھنسنے کی صورت میں فوری امداد ملنا مشکل ہے۔

یہاں مقامی افراد نے بتایا کہ حالیہ شدید برفباری ان کے لیے غیر متوقع تھی۔

ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’یہ برف کے تودے عام طور پر بعض علاقوں میں مارچ میں گرتے ہیں۔ مگر اس بار جنوری میں ایسا ہوا ہے۔‘

جبکہ ایک اور شہری نے بتایا کہ ‘یہ برفانی تودے ان جگہوں پر گرے ہیں جہاں اس سے پہلے ایسے واقعات نہیں ہوئے۔ ان مقامات کو محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ اب تو یہ پورا علاقہ ہی غیر محفوظ لگتا ہے۔‘

وادی نیلم میں برفانی تودہ گرنے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دو دیہات سرگن اور ڈھکی چکنار ہے۔ ان میں ڈھکی چکنار اس کے قدر دور افتادہ ہے کہ وہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے امداد بھی تین دن کے بعد پہنچی تھی۔ یہاں کے ایک مکین نے بتایا کہ ان کے گاؤں والے تین دن تک زخمیوں کو لے کر بیٹھے رہے اور مدد کا انتظار کرتے رہے۔

وادیِ نیلم

ایک ہفتے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے مگر مقامی افراد کے مطابق ان علاقوں میں اب بھی لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں برف پر پیدل سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے اور اس دوران بھی راستے میں کئی بار موت سامنے کھڑی ملتی ہے۔ صحافی ساجد میر نے، جو پیدل ان دیہاتوں تک پہنچے ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ وہاں حکومت نے خیمے تو تقسیم کیے ہیں لیکن جب درجۂ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہو تو خیموں میں ٹھہرنا ناممکن ہے۔ جبکہ یہاں ادویات اور ڈاکٹرز بھی نہیں ہیں۔

برفانی تودے سے متاثر ہونے والے وہ افراد جن کے گھربار تباہ ہو چکے ہیں ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ انہیں یہاں سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ ایک عمر رسیدہ خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا سب کچھ تباہ برباد ہو چکا ہے اور وہ کم از کم اس وقت تک یہاں سے نکلنا چاہتی ہیں جب تک موسم صاف نہ ہو جائے۔

’میرا گھر اور خاندان تباہ ہو گیا ہے۔ یہ میرے بچے دیکھیں یہ رات کو سو نہیں سکتے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر گلیشیئر آ گرے گا۔ ہم اُس خوراک کا کیا کریں جو ان لوگوں نے دی ہے؟ کیا ہم گلیشیئر کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھائیں؟’

نامہ نگار فرحت جاوید اور کیمرہ مین نعمان خان

ہماری نامہ نگار فرحت جاوید اور کیمرہ مین نعمان خان برفباری سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کی رپورٹنگ کے لیے گئے ہیں۔

لیکن یہاں کے مقامی لوگ حکومت سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ حکومتی نمائندے یہاں چند منٹ کا دورہ کرنے آتے ہیں اور اس کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ ایک خاتون نے کہا کہ ‘آخر یہ حکومت ہمیں کس کے آسرے پر یہاں چھوڑ جاتی ہے؟’

پاکستانی فوج کے مطابق ہیلی کاپٹر کے ذریعے آپریشن منقطع کیے گئے ہیں کیونکہ موسم انتہائی خراب ہو چکا ہے۔ ان علاقوں میں ایک بار پھر برفباری شروع ہو چکی ہے۔ اسی لیے ہم نے شاردا سے واپسی کی راہ لی۔ راستے میں لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب سے انڈین فوجی اپنی بڑی بڑی لایئٹس ہماری گاڑی پر لگا رہے تھے۔ اِس طرف بیٹھے پاکستانی فوجی بھی اسی طرح وہاں سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ مگر یہاں سے کچھ کلومیٹر دور اور چند سو فٹ کی بلندی پر تباہ شدہ دیہات کے لوگ اب بھی حکام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp