عالمی عدالت انصاف میانمار میں ’روہنگیا برادری کی نسل کشی کا مقدمہ سننے کی مجاز ہے‘


عالمی عدالت انصاف روہنگیا مسلمانوں کی مبینہ نسل کُشی کے خلاف میانمار پر لگائے جانے والے الزامات پر مبنی مقدمہ سننے کی مجاز ہے۔

یہ اعلان جمعرات کو عالمی عدالتِ انصاف کے جج عبدلقوی احمد یوسف نے کیا۔ انھوں نے مدعی ملک گیمبیا کو مقدمے کی کارروائی کو مزید آگے بڑھانے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی سنایا۔

اس فیصلے کے ذریعے عالمی عدالتِ انصاف میانمار میں مزید تشدد کو روکنے کے لیے عارضی ہنگامی اقدامات اٹھا پائے گی۔

https://twitter.com/Gambia_MOJ/status/1220279556587900928

عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ گیمبیا کی جانب سے دائر کردہ اس درخواست پر دیا ہے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے، ان کو محفوظ بنانے اور ماضی میں ان کے خلاف کیے گئے اقدامات کے شواہد کو محفوظ رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔

مغربی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک گیمبیا نے اس حوالے سے گذشتہ برس نومبر میں اقوام متحدہ کی اعلی عدالت سے رجوع کیا تھا، جہاں مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

روہنگیا مسلمان جموں سے نقل مکانی پر مجبور

نوبل امن انعام سے روہنگیا قتلِ عام کے دفاع تک

اقوام متحدہ میں میانمار کے خلاف قرارداد منظور

سوچی کو عالمی عدالتِ انصاف لانے والا شخص کون؟

ابوبکر تمباڈو

گمبیا کے وزیر قانون ابوبکر تمباڈو وہ شخص ہیں جن کی کوششوں کی بدولت میانمار کی رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف میں پیش ہو کر یہ تردید کرنی پڑی تھی کہ ان کی حکومت ملک کی روہنگیا اقلیت کے قتل عام میں ملوث نہیں تھی۔

تمباڈو روانڈا پر بنائے جانے والے اقوام متحدہ کے ٹرائیبیونل کے سابقہ پراسیکیوٹر ہیں۔ روانڈا کی نسل کشی میں آٹھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تمباڈو سنہ 1972 میں گیمبیا کے دارالحکومت بنجول میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد نے تین شادیاں کر رکھی تھیں اور وہ اپنے 18 بہن بھائیوں میں سے ایک تھے۔

نوجوانی میں وہ سپورٹ میں دلچسپی رکھتے تھے اور فٹبال کے مقابلوں میں انھوں نے اپنے ملک کے لیے کافی تمغے حاصل کیے

اس مضمون میں اینا ہولیگن نے ابوبکر تمباڈو کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالی ہے۔

یہ ایک غیر متوقع سفر تھا جس میں ابوبکر مغربی افریقہ کے چھوٹے سے ملک گیمبیا سے نکل کر بنگلہ دیش کے ساحلی شہر کاکس بازار میں قائم پناہ گزین کیمپ پہنچے جہاں ان پر بہت سے راز افشا ہوئے۔

بچ جانے والے روہنگیا افراد کی کہانیاں سن کر ان کے مطابق انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے انسانی لاشوں کا تعفن میانمار کی سرحد پار کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہو رہا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ یہ سب اس سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے جتنا ہم ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھ رہے تھے۔‘

’فوج اور عام افراد روہنگین افراد کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت حملے کر رہے تھے، ان کے مکانات کو نذرِ آتش کرتے، ماؤں کی گودوں سے ان کے بچے چھین کر بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیتے، مردوں کو اکٹھا کر قتل کرتے، عورتوں کا گینگ ریپ کرنے کے علاوہ ہر طرح کی جنسی زیادتیوں کا شکار بناتے۔‘

’روانڈا جیسی صورتحال‘

روہنگیا

میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے ہزاروں روہنگیا اب پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں

روہنگیا کی حالت زار نے تمباڈو کے ذہن میں روانڈا میں سنہ 1994 میں ہونے والی نسل کشی کی یاد تازہ کر دی جس میں آٹھ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔

’یہ حالات سننے میں بالکل ویسے لگتے ہیں جیسے روانڈا میں ٹوٹسی قبیلے کے افراد کو درپیش تھے۔‘

’(میانمار میں بھی) طریقہ بالکل ویسا ہی تھا۔ غیر انسانی عمل، ان کو مختلف ناموں سے پکارنا، اس میں نسل کشی کی تمام بنیادی نشانیاں تھیں۔ میں نے یہ سوچا کہ یہ میانمار کے حکام کی جانب سے روہنگیا گروہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی ایک کوشش تھی۔‘

میانمار نے نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گذشتہ ہفتے ایک ایگزیکٹیو سمری جاری کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ سرکاری تفتیش سے یہ پتا چلا ہے کہ درحقیقت یہ مسلمان شدت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملوں کے جواب میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’حادثاتی انداز‘ میں دیا گیا ردعمل تھا۔

آنگ سان سوچی

آنگ سان سوچی عالمی عدالتِ انصاف میں بیان دیتے ہوئے

اس سے قبل میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں کہا تھا کہ میانمار میں ہوئی تفتیش سے یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس معاملے میں کسی بھی نوعیت کی بین الاقوامی دخل اندازی نہیں ہونی چاہیے۔

تمباڈو کہتے ہیں کہ کچھ نہ کرنا ان کے لیے کوئی آپشن نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آخر کار یہ انسانیت سے متعلق ہے۔‘

’ذاتی طور پر میں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اس سے میں متنفر ہوا۔ پیشہ وارانہ حیثیت میں میں نے سوچا کہ میانمار کی اس کے اعمال پر باز پرس ہونی چاہیے اور ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ اس معاملے کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے جایا جائے۔‘

اور یہ ممکن بنانے کے لیے تمباڈو بنگلہ دیش میں قائم روہنگیا کیمپ میں پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32191 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp