ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان کو نہیں، پوری قوم کو کرپٹ کہا ہے


بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ عمران خان کی ذاتی یا پی ٹی آئی پارٹی کی رپورٹ نہیں بلکہ یہ ہماری پوری قوم کی تصویر ہے کہ پاکستانی قوم نے کرپشن میں کتنی ترقی کی ہے۔ ہم ہیں کہ اس رپورٹ کوعمران خان کے کھاتے میں ڈال کر ہنسی اڑا کر، جگتیں لگا کر خوش ہوئے جارہے ہیں اور اس رپورٹ کے مندرجات پہ راضی ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رپورٹ پر شرمندگی کا شکار ہیں اور کل سے کرپشن نہیں کریں گے اور کتنے ہیں جو کرپٹ نظام کے حصہ دار نہیں بنیں گے۔

اخلاقی اور مالی کرپشن جس معاشرے میں معمول بن چکی ہو، ہر سطح کی کرپشن روز منہ چڑاتی ہو، جہاں مقدس اداروں سے لے کر کرپشن روکنے والے اداروں تک میں یہی کاروبار ہوتا ہو، جہاں نیب ”پلی بارگین“ جیسی سہولتیں ایجاد کرے، وہاں ایسی رپورٹ آنے کے بعد ایک ہی ردعمل سمجھ میں آتا ہے کہ اسے کسی اورکے کھاتے ڈال کر بغیر سوچے سمجھے اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل بنائے بس شور برپا کیے رکھو۔

ابھی اسی ماہ یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے اعلی افسران تک بے نظیر انکم فنڈ کے دو دو ہزار روپے کھا رہے ہیں۔ صحافیوں کے بارے میں لفافوں کا آنکھوں دیکھا حال ابھی چند دن پہلے ایک اینکر ہی بتا رہے تھے۔ فوج کو جہاں جہاں بزنس سے واسطہ ہے وہاں وہاں کالی بھیڑوں کی موجودگی کی خبریں بلکہ حقیقتیں ہیں، اعلی ججوں کی ہر طرح کی کرپشن کے قصے سرعام بک رہے ہیں، پیسے دے کر نابیناوں تک کے لائسنس آپ بناتے اوربنواتے ہیں، ”کچھ لین دین کر لیں“ دفتروں کا عام محاورہ ہے۔

آٹے، چینی جیسی بنیادی ضرورتوں میں کرپشن کے اعداد و شمار ٹکے ٹوکری ہوئے پھرتے ہیں۔ شہر اقتدار میں دو بڑے فارمیسی سٹور بے قاعدگیوں اور جعلی دواوں کے الزام میں سیل کیے جاتے ہیں لیکن دوسرے دن ہی سٹور بھی کھل جاتے ہیں اور معاملات بھی داخل دفتر ہوجاتے ہیں۔ ملک کے ایک بڑے صوبے کے سابق وزیر قانون کو منشیات سمیت ”رنگے ہاتھوں“ پکڑنے کے دعوے سامنے آتے ہیں لیکن نہ کوئی رنگ ملتا ہے نہ ہاتھ۔ فالودے والوں اور پھیری والوں کے اکاونٹ کروڑوں اربوں روپے رکھ کر ادھر ادھر کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ سابقہ وزرائے اعظم، صدر، وفاقی وزرا پر کرپشن کے الزام میں مقدمے چل رہے ہیں۔ تو پھر یہ ”اعزاز“ کسی ایک عمران خان یا کسی ایک پارٹی کا مرہون منت ہے؟

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کچھ سفارشات بھی کی ہیں کہ کیسے کرپشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حقیقت تسلیم کرلیجیے کہ ہم اوپر سے لے کر نیچے تک ایک گلے سڑے نظام کا حصہ بن چکے ہیں اورمیڈیا سے لے کر سول سوسائٹی تک وہ عوامل جو کرپشن روکنے میں کارگرہوتے ہیں خود ہی اس میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ رشوت خوری کسی زمانے میں گالی رہی ہو گی، آج فخر ہے۔ خود فریبی سے نکل کراپنے گریبان میں نگاہ تو کیجئے، آپ خود نہیں تو آپ کے کتنے رشتے دار، کتنے دوست احباب یا جاننے والے ہیں جو اس کرپشن کا فعال حصہ نہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ پر روز مہر تصدیق ثبت نہیں کرتے؟ کتنے ہیں جو عالمی سطح پر اس سبکی کی وجہ سے کل سے کرپشن کا حصہ بننے سے انکار کریں گے، ایسے جاننے والوں سے قطع تعلق کریں گے جن کی وجہ سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ہم اور آپ، ہم سب کو بحیثیت قوم مزید کرپٹ قرار دیا ہے۔

اگرایک آدھ دن شور مچا کر ہم نے اسی طرح مشغول رہنا ہے توپھر حکومت عمران خان کی ہو، نواز شریف یا آصف علی زرداری کی، کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم ایک سو سترویں نمبر پر ہوں یا ایک سو بیسویں نمبر پر؟ ہم ایک نمبر نیچے گئے ہیں یا اوپر، کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر آپ عمران خان کے ان نعروں کی بات کریں جو انہوں نے کرپشن ختم کرنے کے لئے لگائے تھے تو انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے لئے ایپ تیار کر لی ہے، نوٹس بھی لے لیا ہے اور پارلیمان میں کرنے کے لئے تقریریں بھی تیار کر لی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments