ایک باپ کا نوحہ


آج پھر ایک اور جنوری درپیش ہے اور میں اس سوچ میں گم کہ یہ جنوری ہر سال کیوں چلا آتا ہے اور دل کے چھپے زخموں کو پھر سے ہرا بھرا کر دیتا ہے۔ جیسے تارڑ صاحب کے ناول راکھ میں ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے ”سردیوں کا موسم ڈھکے چھپے اور پوشیدہ زخموں کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ “ میرا دل چاہتا ہے کہ کاش یہ جنوری کسی طرح ایک آن میں گزر جایا کرے یا پھر کسی طرح میں اس جنوری سے آنکھیں چرا کر نکل جایا کروں اور خاص طور پر چھبیس جنوری کی تاریخ تو اگر میرے بس ہو تو میں اسے کیلنڈر سے نکال باہر کروں۔ معلوم نہیں فیض صاحب کس رنگ میں تھے جب ان پر اس شعر کا نزول ہوا تھا

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے

میں یوں تو زندگی کے سفر میں ہمیشہ آگے کی طرف دیکھنے کا عادی ہوں کہ بقول کسے ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی سوچ کو مثبت رکھتے ہوئے، زندگی میں جن آلام کا سامنا کرنا پڑے، ان کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دوں مگر جب جنوری کا یہ دن آتا ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ آج میرا خود سے بھی سامنا نہ ہونے پائے۔ میرا بس چلے تو میں خود سے خود کو چھپا کر یہ دن گزار دوں کہ میں سات سال پہلے گزرے اس دن کو سوچ کر ٹوٹنا نہیں چاہتا۔ بکھرنا نہیں چاہتا۔ مگر اس دن کے قریب آتے ہی ضبط کے بندھن جواب دینے لگتے ہیں۔ دل میں چھپی چنگاریاں لو دینے لگتی ہیں اور یادیں اپنی پٹاری سے سر نکال کر میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں

جو یادوں کی بارش روک سکے
کاش ایسی بھی ایک چھتری ہو

یادوں کو روکنا ہمارے بس میں بھلا کہاں ہوتا ہے۔ یادیں تو کسی دریا کی بے رحم موجوں کی طرح آپ سے ٹکڑاتی اور آپ کو پاش پاش کر جاتی ہیں۔ آپ کو اپنا آپ کرچی کرچی ہوتے محسوس ہوتا ہے اور آپ کو اپنے اندر بہت کچھ ٹوٹنے کی آواز آتی ہے۔ آپ اپنے ہی ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑتے جوڑتے نجانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یادوں کی بے رحم موجیں آپ کو کسی بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ آتی ہیں اور کبھی کسی تاریک جنگل میں دھکیل آتی ہیں۔

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

سات سال پہلے جاڑوں کی وہ ٹھٹھرتی رات ہمارے وجود پہ انمٹ نقوش چھوڑتے گزری تھی جب میں نے اپنی تین سال کی بیٹی کو مٹی کے حوالے کیا تھا۔ پتا نہیں کر بھی سکا تھا یا نہیں؟

جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا

اسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہوا

آج بھی دو ہزار دس کا وہ دن اور اس کا ایک ایک پل یادداشت کی تختی پہ ثبت ہے جب وہ پھول ہمارے آنگن میں کھلا اور میں باپ بننے کی لازوال دولت سے ہمکنار ہوا تھا اور پھر وہ بیش بہا لمحہ جب میں نے اسے پہلی دفعہ اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کی ننھی سی بند مٹھی کو کھولا تو مجھے لگا کہ جیسے میری ہی انگلیوں کا شاید یہ دوسرا جنم ہے۔ میں آج بھی اُس ایک لمحے کا قیدی ہوں۔ لاکھ کوشش کرتا ہوں لیکن چھڑا نہیں پاتا۔

تین سال سے بھی کچھ کم وہ ہمارے ساتھ رہی۔ وہ تین سال جو چند پل میں گزر گئے اور پھر 23 جنوری 2013 کی وہ شام جب وہ اپنے نانا کے گھر جا رہی تھی تو اپنی دادی کے ہاتھ کی بنی نئی سویٹر میں اپنی پھپھو سے ڈھیروں تصویریں بنوائیں اور مجھے احساس بھی نہ ہو سکا کہ یہ اپنا آخری فوٹو سیشن کروا رہی ہے۔ پچیس جنوری کی رات کو جب مجھے خبر ملی تو وہ بے نظیر ہسپتال کی ایمر جنسی میں اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ میں اس کے کمرے میں داخل ہوا جہاں ڈاکٹر اس کے گرد کھڑے اس کی زندگی بچانے کی تگ و دو میں مصروف تھے اس نے میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا لیکن مجھ سے ان آنکھوں کی تاب لائی نہ جا سکی اور میں کمرے سے باہر بھاگ گیا تھا۔

اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر

جانے کا اس کے رنج مجھے عمر بھر رہا

اور پھر ہسپتال سے اس کے بے جان جسم کو اٹھائے گھر اور پھر اگلی صبح اس کو مٹی کا حوالے کرنے تک کا وقت شاید صدیوں پہ محیط تھا۔ اپنی بیٹی کی بے جان ماں کو تسلی دیتے، اس کا حوصلہ بڑھاتے، اس کی خشک آنکھوں میں آنسو لانے کی کوشش کرتے نجانے ان لمحوں میں ہم نے کتنے زمانے بِتا دیے تھے۔

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

آج بھی جب اس سے جڑی کوئی بات یاد آتی ہے یا اس کے جانے کے بہت بعد اس دنیا میں آنے والی اُس کی چھوٹی بہن جب اس کی کوئی چیز پہنتی ہے تو وقت کا پہیہ کہیں بہت پیچھے گھوم جاتا ہے اور آنسو کب آنکھوں کی دہلیز پار کر جاتے ہیں محسوس ہی نہیں ہونے پاتا۔

نشان کہیں بھی نہیں اس کی انگلیوں کے مگر

میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز روتا ہوں

ہر سال کی طرح اس سال بھی جب میں چھٹی پر پاکستان گیا اور حسبِ معمول اس کی قبر پر گیا تو وہاں خودرو گھاس کا ایک جنگل اگا دیکھا جس میں کوئی قبر نظر نہ آتی تھی۔ مختلف قسم کے کانٹوں سے الجھتے مجھے اس کی ننھی سی قبر تلاش کرنے میں کافی دقت پیش آئی۔

وہ گھاس اگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہار

نہ جانے آرزوئیں ہم نے دفن کی تھیں کہاں

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ میں بعض دفعہ بے دھیانی میں اپنی چھوٹی بیٹی کو اس کی بڑی بہن کے نام سے بلاتا ہوں یاں ایک باپ کے دھیان کی دہلیزیں شاید آج بھی ایک بیٹی کی آہٹوں کی منتظر ہیں۔ جانے کیا عجب درد تھا پٹھانے خان کی آواز میں جب وہ خیال امروہوی کی ایک غزل کا یہ شعر گاتے تھے

میں ایک زمانے سے تمھیں ڈھونڈ رہا ہوں

تم ایک زمانے سے خدا جانے کہاں ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments