#PAKvBAN پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش کے پہلے ٹی ٹوئنٹی پر سمیع چوہدری کا کالم: وہ فیصلہ جس نے آج لاہور میں ’پاکستان کی لاج رکھ لی‘


بابر اعظم اور محموداللہ

محمود اللہ کے تو سپنے ٹوٹ گئے مگر بابر اعظم یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس سال کے باقی دن بھی ایسے ہی ہوں۔

کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے چئیرمین احسان مانی میڈیا کو یہ بتاتے پائے گئے تھے کہ ڈومیسٹک سرکٹ کو انٹرنیشنل معیارات کے برابر لانے کے لیے وسیع پیمانے پہ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

ان وسیع پیمانے پہ لائی جانے والی تبدیلیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ لوکل کیوریٹرز کی ٹریننگ کے لیے اعلیٰ پائے کے اور دنیا بھر کے جانے مانے کیوریٹرز کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

اب پتا نہیں یہ پلان اپنی تعبیر کی کس نہج پہ ہیں مگر آج کی قذافی سٹیڈیم کی وکٹ یہ واضح کرنے کے لیے کافی تھی کہ لوکل کیوریٹرز کے لیے اعلیٰ بین الاقوامی معیارات کی ٹریننگ واقعی ضروری ہے۔

میچ سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ شائقین کو محظوظ کرنے کے لیے اچھی بیٹنگ وکٹ تیار کی گئی ہے جہاں گرج چمک کے ساتھ باؤنڈریز کی برسات کا امکان ہے۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کے لیے وکٹ ہونی بھی ایسی ہی چاہیے۔

کرکٹ کو بہتر مارکیٹ کرنے کے لیے دنیا بھر میں ٹی ٹونٹی کے لیے تیز وکٹیں تیار کی جا رہی ہیں جہاں باؤنس متوازن ہو اور بلے بازوں کو اپنے شاٹس کھیلنے کا بھرپور موقع ملے۔ جبھی کھیل میں سنسنی پیدا ہوگی اور چوکوں چھکوں پہ شائقین کے ساتھ ساتھ سپانسرز کا بھی دل بلیوں اچھلے گا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان نے بنگلہ دیش کو پانچ وکٹوں سے شکست دے دی

مصباح کا ‘ٹرائل اینڈ ایرر’ کہاں تک چلے گا؟

لیکن آج کی وکٹ خاصی سست تھی۔ باؤنس غیر متوازن تھا اور گیند بلے پہ آ کے نہیں دے رہا تھا۔ محموداللہ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ اوپنرز کے مستحکم سٹینڈ کے بعد اس وکٹ میں کافی رنز ہوں گے اور تعاقب کرتے پاکستان کی نبض پہ دباؤ کا ہاتھ رکھنا آسان ہو گا۔

ان کی یہ خواہش پوری طرح پوری نہ ہو سکی۔ تعاقب کرتے وقت پاکستان کئی مواقع پہ دباؤ کا شکار دکھائی دیا مگر اس وکٹ میں رنز کچھ زیادہ تھے ہی نہیں۔ میچ سے پہلے کے چرچوں کے برعکس ایک بار پھر لاہور کی وکٹ ‘لاہوری’ ہی ثابت ہوئی۔

یہاں ایک سو بیالیس کا ہدف بھی مشکل سا ہدف ہی تھا۔ اگر شعیب ملک کی شکل میں چار دہائیوں کا تجربہ کریز پہ موجود نہ ہوتا تو پاکستان شام کے دھندلکے میں رستہ بھول بھی سکتا تھا۔

شعیب ملک کی قسمت کچھ ایسی رہی ہے کہ شروع کے چند سال ایک طرف، وگرنہ ہر بار ان کی سلیکشن چہ میگوئیوں اور معنی خیز مسکراہٹوں کو جنم دیتی ہے۔ کبھی کوئی ‘ٹیگ’ لگتا ہے تو کبھی کوئی لیبل۔

اس بار بھی ملک کے انتخاب پہ خوب لے دے ہوئی۔ آخری بار جب شعیب ملک پاکستان ٹیم سے ڈراپ ہوئے تھے، تب وجہ ان کا اپنی بیوی کے ہمراہ شیشہ پینا بنی تھی۔ اس شیشے کا انعکاس اس قدر زیادہ تھا کہ تقریباً طے ہو چکا تھا کہ ان کا انٹرنیشنل کرئیر ختم ہو چکا ہے۔

لیکن پے در پے سیریز کی شکست اور نمبر ون رینکنگ پہ منڈلاتے سائے اس قدر گہرے تھے کہ کپتان اور کوچ نے چھ ریجنل سلیکٹرز کی مخالفت مول لے کر بھی انہیں چن لیا۔

اس ‘دفاعی’ یا غالباً ‘نہایت جرات مندانہ’ فیصلے نے آج لاہور میں پاکستان کی لاج رکھ لی اور نمبر ون رینکنگ سے ہاتھ دھونے کا ایک اور دن ٹل گیا۔ اگر ملک آج نہ کھیل رہے ہوتے تو بعید نہیں تھا کہ ڈیتھ اوورز میں وکٹیں گرنے کے بعد انہونی ہو جاتی۔

بنگلہ دیش نے اچھا آغاز کیا۔ تمیم اقبال اور نعیم شیخ نے مستحکم پلیٹ فارم بنایا لیکن جب اسے کیش کرنے کا وقت آیا تب تک پاکستان کی دفاعی بولنگ اپنا کام دکھا چکی تھی۔

بابر اعظم کی کپتانی سرفراز احمد سے کہیں مختلف ہے۔ بابر نے اننگز کے کسی بھی مرحلے پہ ‘اٹیک’ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میچ سے پہلے ہی ان کا ہدف یہ تھا کہ ٹوٹل کو ڈیڑھ سو سے کم رکھنا ہے۔

پھر جس طرح سے بابر نے بولنگ میں تبدیلیاں کی، اس کا ثمر یہ ہوا کہ کسی بھی مرحلے پہ بنگلہ دیشی اوپنرز ‘سیٹلڈ’ نظر نہیں آئے۔ پہلے دس اوورز کی سست روی سے ہی یہ ہوا کہ مڈل اور ڈیتھ اوورز میں بنگلہ دیش کو اپنے خول سے نکلنا پڑا اور وکٹیں گرتی گئیں۔

بابر اعظم کے لیے سال کا آغاز اچھا ہوا ہے۔ محمود اللہ کے تو سپنے ٹوٹ گئے مگر بابر اعظم یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس سال کے باقی دن بھی ایسے ہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp