سلیمانی کے بعد کا عراق: امریکہ افواج کا مستقبل کیا ہے؟


’راکٹ آ رہا ہے، آ رہا ہے، چھُپ جائیں۔‘ عراقی دارالحکومت بغداد میں واقع امریکی فوجی اڈّے، یونین تھری، میں لگے ہوئے لاؤڈ سپیکر سے کوئی چیخ چیخ کر مکینوں کو خبردار کر رہا تھا۔

امریکی قیادت میں عراق میں موجود غیر ملکی فوجوں کا یہ اڈّہ شہر سے دور نہیں، بلکہ بغداد کے محفوظ حصے یا گرین زون میں واقع ہے۔ یہ اڈہ اسی علاقے میں تعمیر کیا گیا ہے جہاں صدر صدام حسین کا محل ہوا کرتا تھا۔

پہلے سائرن کے چند ہی سیکنڈ بعد، ہمیں دو زوردار دھماکے سنائی دیے۔ اس کے بعد ایک اور اعلان، اور ایک مرتبہ پھر یونین تھری بیس پر موجود لوگوں کو محفوظ جگہ پر چھپ جانے کو کہا گیا۔

ان کٹوشا راکٹوں کا ممکنہ ہدف سڑک کی دوسری جانب واقع امریکی سفارتخانہ تھا۔

ایک گھنٹے بعد ہمیں بتایا گیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور اب ہم باہر آ سکتے ہیں۔ اس حملے میں ایک راکٹ تو قریب ہی دریائے فرات میں گرا تھا جبکہ دو امریکی سفارتخانے کے احاطے میں۔

قریب ہی کھڑی پری نامی خاتون بولیں ’یہ کوئی پہلا راکٹ حملہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ آخری ہوگا۔‘ 42 سالہ پری کا تعلق کرغستان سے ہے اور وہ یہاں فوجی اڈّے پر ہیئر ڈریسر کا کام کر کے جو پیسے بناتی ہیں ان سے وہ اپنی بیٹیوں کی کفالت کر رہی ہیں۔

اس سے پہلے پری کابل میں قائم امریکی فوجی اڈے پر کام کرتی تھیں، لیکن جب وہاں پر رہنا زیادہ خطرناک ہو گیا تو پری بغداد آ گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایران: جنرل قانی کو امریکی دھمکی ریاستی دہشتگردی ہے

عراق میں امریکی افواج کے خلاف ملین مارچ

قاسم سلیمانی: ایرانیوں کا ہیرو، امریکہ میں ولن

مشرق وسطیٰ کے بحران میں کون جیتا، کون ہارا؟

ہر کوئی انہیں کہہ رہا تھا کہ یہاں ان کی زندگی قدرے سکون میں ہو گی، لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو پہلی ہی رات سفارتخانے پر دو راکٹ آن گرے تھے۔

وہ لمحہ جب صورت حال یکسر بدل گئی

اکتوبر 2019 سے اب تک عراق میں غیر ملکی فوجوں کے مختلف ٹھکانوں کو 109 سے زیادہ کٹوشا راکٹوں سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

اتحادی فوج کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ حملے وہ نیم فوجی گروہ کرتے ہیں جنہیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اور پھر تین جنوری کا دن آیا جب امریکہ نے ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد کے ہوائی اڈے پر ہلاک کر دیا۔

امریکی فوجی اڈے

اور پھر پانچ دن بعد ایران کا جواب عراق میں دو امریکی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملوں کی شکل میں آیا۔

ان میزائل حملوں کے بعد عراق میں اتحادی فوج کے تمام ٹھکانوں کے لیے نئے حفاظتی قوائد بنائے گئے۔

اب ان اڈّوں پر باہر کھلی جگہ جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اگر کوئی غروب آفتاب سے صبح روشنی ہونے تک باہر جاتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے وہ خاص حفاظتی سوٹ اور سازوسامان کے بغیر نہ نکلے۔

جب اتحادی فوجیں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑ رہی تھیں تو تب بھی میں امریکی فوج کے ساتھ عراق کے طول و عرض میں قائم فوجی اڈّوں پر گئی تھی۔

Satellite images showing damage and destroyed structures at Al Asad base, Iraq


تب مجھے بتایا جاتا تھا کہ احاطے میں مجھے حفاظتی لباس یا ذرہ بکتر پہننے کی ضرورت نہیں۔ مجھے ہمیشہ یقن دلایا جاتا کہ میں حفاظی تدابیر کے بغیر بھی محفوظ رہوں گی۔

لیکن میرے پہلے دورے کے مقابلے میں، اس مرتبہ میں نے یونین تھری بیس کو بھی خاصا خالی خالی پایا۔

اب نیٹو کی فوجیوں سمیت بہت سی اتحادی فوجوں کو عراق سے کویت منتقل کر دیا گیا ہے اور افسران نے مجھے بتایا کہ جب خطرہ کم ہو جائے گا تو یہ فوجی واپس عراق آ جائیں گے۔

کشیدہ تعلقات

لیکن بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد سے یہاں عراق میں امریکی فوجی افسران کو زیادہ مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔

دولت اسلامیہ کے خلاف مہم کے لیے اتحادی فوجوں کے لیے یونین تھری بیس مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

جب میں آخری مرتبہ یہاں آئی تھی تو امریکی اور عراقی افسران ذرائع ابلاغ کو بڑے شوق سے بتاتے تھے کہ ان دونوں کے درمیان پیشہ ورانہ سطح پر تعلقات دن بدن کتنے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

دونوں، امریکی اور عراقی افسران کی کوشش ہوتی تھی کہ میڈیا کے سامنے آ کر بتائیں کہ وہ کس طرح دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

لیکن اب اتحادی افواج کے کمانڈر ریکارڈ پر بات کرنے سے جھجھک رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات کے بعد عراق اور امریکہ کی ’عظیم دوستی‘ پر گہرے بادل چھا چکے ہیں۔

جنرل سلیمانی پر کیے جانے والے حملے میں عراق میں موجود ایک ایران نواز ملیشیا کے سربراہ ابو مہدی المہندس بھی مارے گئے تھے۔

یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ اپنی موت سے ایک دو دن پہلے المہندس یونین تھری کے فوجی اڈے پر موجود تھے۔

المہندس کی ہلاکت

سینیئر امریکی افسران نے مجھے بتایا کہ انہیں المہندس کی ہلاکت کی خبر صرف اس وقت ملی جب صبح انہوں نے اپنے اپنے فون دیکھے تھے

اگرچہ ان کے شیعہ ملیشیا گروپ کو ایران کی حمایت حاصل ہے، لیکن یہ گروپ سرکاری طور پر عراق کی سکیورٹی فورسز کا حصہ ہے اور دولت اسلامیہ کو شکست دینے میں بہت اہم کردار ادا کر چکا ہے۔

المہندس یہاں ان عراقی جرنیلوں سے ملنے آئے ہوئے تھے جو امریکہ کے ساتھ مل کر دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔

اور ہر روز جب امریکی افسران اپنے عراقی ساتھیوں سے ملاقات کرنے جاتے ہیں تو اس اڈے پر جس راہداری سے گزر کر انہیں عمارت کی دوسری جانب جانا پڑتا ہے، اس راہداری میں جہاں دوسرے عراقی کمانڈروں کی تصویریں آویزاں ہیں وہاں المہندس کی تصویر بھی دیوار سے لٹک رہی ہے۔

اندھیرے میں کارروائی

یونین تھری کے اڈّے پرموجود دو سینیئر امریکی افسران نے مجھے بتایا کہ انہیں المہندس کی ہلاکت کی خبر صرف اس وقت ملی جب صبح انہوں نے اپنے اپنے فون دیکھے تھے۔

اپنا نام مخفی رکھے جانے کی شرط پر ایک سینیئر افسر کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی ایسی کارروائی کی جاتی ہے جس کے بارے میں آپ کو بتانا ضروری نہیں تو پھر آپ کو اس کی خبر نہیں دی جاتی۔‘

’چاہے اس کارروائی کے نتائج کو بعد میں آپ کو ہی بگھتنا پڑیں۔‘

حقیقت یہ ہے کہ جس رات سلیمانی اور ان کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، اس وقت بغداد کے فوجی اڈّے پر موجود وہ اہلکار جو ڈرونز کو کنٹرول کرتے ہیں، انہوں نے دھماکے کی آواز سن کر پہلے پہل یہ سمجھا کہ بغداد ایئر پورٹ پر قائم اس مرکز پر راکٹ حملہ ہوا ہے جہاں اتحادی افواج کے سفارتکار اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران رہتے ہیں۔

جنرل سلیمانی پر حملے سے چند دن پہلے بھی اسی مرکز پر ایک حملہ ہو چکا تھا۔

اور پھر جب دھماکے کے بعد اڈے پر موجود افسران نے ائیرپورٹ کی جانب سے شعلے اٹھتے دیکھے تو انہیں لگا کہ یہ ڈرون حملہ تھا کیونکہ راکٹ کے حملے سے اتنی آگ نہیں نکلتی، لیکن انہیں اس وقت تک پتہ نہیں تھا کہ یہ ڈرون حملہ کس نے کیا ہے۔

بصرہ میں امہندس کا جنازہ

سلیمانی اور المہندس کی ہلاکت سے عراق میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی

قاسم سلیمانی پر حملے سے چند ہی دن پہلے عراق میں موجود امریکی فوجیوں نے ایران کی پشت پناہی میں لڑنے والے ملیشیا گروپ، کتیب حزب اللہ کے ہیڈ کوار پر حملہ کیا تھا جو عراق و شام کی سرحد پر واقع ہے۔ اتحادی فوج کا یہ حملہ عراق میں اتحادی فوجی اڈّوں پر حملوں کے جواب میں کیا گیا تھا اور اس میں کتیب حزب اللہ کے کم از کم 25 ارکان مارے گئے تھے۔

ان لوگوں کی تدفین کے لیے جمع ہونے والے جلوس نے جلد ہی ایک بڑے مظاہرے کی شکل اختیار کر لی اور انہوں نے امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا۔ لیکن عراق میں موجود شیعہ ملیشیا گروہوں کا کہنا ہے کہ سلیمانی اور المہندس پر ڈرون حملہ کر کے امریکہ نے انتہا کر دی ہے۔

اب دونوں، ایران نواز نیم فوجی گروہوں اور ایران نواز سیاستدانوں کی خواہش ہے کہ امریکہ فوری طور پر عراق سے نکل جائے کیونکہ ان لوگوں کو غصہ ہے کہ اب عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا ’دوولت اسلامیہ کو شکست‘ دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن دوسری جانب اتحادی فوجوں کو امید ہے کہ وہ اپنے عراقی اتحادیوں کے ساتھ مل کر جلد ہی دولت اسلامیہ کے خلاف حتمی کارروائیوں کا آغاز کر دیں گے۔

یونین تھری بیس کے اندر کا منظر

امریکی ڈرون حملے کے بعد سے اڈے پر موجود امریکی اور عراقی افسران میں بے تکلفی کم ہو گئی ہے

اصل میں یہی وہ بے یقینی کی کیفیت جس کی وجہ سے امریکی کمانڈر ذائع ابلاغ سے کوئی بات کر رہے ہیں اور نہ ہی عراقی، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ سیاستدان اگلے ہی روز ان کمانڈروں کے بیانات کو رد نہ کر دیں۔

کئی مرتبہ دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں عراق میں تعینات رہنے والے اور ہر تعیناتی میں مخصوص عراقی کمانڈروں کے ساتھ کام کرنے والے اتحادی افواج کے ایک سینئیر افسر نے مجھے بتایا کہ ’ہماری ساری ٹیم کی نظر (دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں) پر لگی ہوئی ہے اور ہمیں اپنے اس مشن پر یقین ہے۔ ہمیں عراقی عوام پر یقین ہے اور عراق کی سکیورٹی فورسز پر بھی بھروسہ ہے۔‘

یہ سینیئر افسر تقریباً ہر روز اپنے عراقی ہم منصبوں کے ساتھ چائے پیتے تھے، لیکن امریکی ڈرون حملے کے بعد سے فریقین کے درمیان تکلف آڑے آ گیا ہے۔

A coalition soldier in a helicopter

امریکہ اور عراق کی مشترکہ فوجی کارروائیوں کا مستقبل اب غیر یقینی ہو گیا ہے

عراق کی سکیورٹی فورسز کا خیال ہے کہ وہ ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔

عراقی فوج کے مشترکہ آپریشنز کے کمانڈر کے ترجمان، میجر جنرل تحسین الخفاجی کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ یہ کوئی فوجی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ یہ ایران اور امریکہ کا بحران ہے، اور ان دونوں نے ہمیں (اس جھگڑے) کے بیچ لا کھڑا کر دیا ہے۔‘

’ان دونوں ممالک کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ اپنے مسئلوں کو یہاں مت لائیں۔‘

عراقی فوج کا کہنا ہے جنرل سلیمانی کے مارے جانے کے بعد اتحادی افواج کی جانب سے تعاون رک جانے کے بعد، اب عراقی فوج کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے بھروسے پر دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے۔

جنرل تحسین الخفاجی کے بقول ’فی الحال ہم اپنے ہی ایف 16 طیاروں سے ہی دولت اسلامیہ پر فضائی حملے کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہم یہ جنگ اکیلے بھی لڑ سکتے ہیں، تاہم اگر سیاسی مسائل حل ہو جاتے ہیں تو ہم چاہیں گے کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘

فی الحال ہر چیز ہوا میں لٹکی ہوئی ہے کیونکہ عراق میں امریکی افواج کو جو خطرات درپیش تھے ان کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے اور اب اس خطرے کی نوعیت اس خطرے سے یکسر مخلتف ہے جو دولت اسلامیہ سے درپیش تھا۔

اس موقعے پر مجھے امریکی ائیرمین الیجانڈرو پینا کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے جو موجودہ صورت حال کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے۔ انہیں عراق میں تعینات ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہمیں یہاں بھیجا رہا تھا تو میرا خیال تھا میں دولتِ اسلامیہ سے لڑنے جا رہا ہوں، لیکن دو مہینے مجھے احساس ہوا کہ نہیں۔ یہاں تو اور (دشمن) بھی موجود ہیں۔`


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32555 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp