وجاہت مسعود! ہم تمہارا انتظار کرتے ہیں


جب تم دونوں، معاف کرنا، چاروں آنکھوں سے شرارت اور غصہ انڈیلتے ہوئے

جمال اشرف کے پنجابی افسانے پر خوفناک سوال پوچھتے تھے

تو صابر لودھی اور اقبال حیدر بٹ ہی نہیں، پوری پنجابی مجلس محظوظ ہوتی تھی

ادھر مجلس اقبال کے اجلاس میں،

شفقت اللہ اور میں

تمہارا انتظار ہی کرتے رہ جاتے

کہ گورنمنٹ کالج بہر حال تمہارے لئے ایک ٹوڈی درس گاہ تھی

ہم تمہارا انتظار کرتے رہے

تم بیاہ کر کرشن نگر جا پہنچے

اور پھر اچانک ایک روز نیو ہاسٹل میں

میرے اور گلباز آفاقی کے کمرے میں آن پہنچے

تو جیسے ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے

اور میانوالی میں ملنے والے تمہارے خط

جو کوٹ نیناں میں

دریائے راوی کے کنارے سے لکھے گئے

مجھے ہمیشہ ان خطوں کا انتظار رہا

میرا خیال ہے کہ میں نے یہ خط اب بھی کہیں سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں

پتہ نہیں تم نے حفیظ ہوشیار پوری اور ایم ڈی تاثیر کے بعد کی غزل کا ذائقہ

کہیں سنبھالا ہوا ہے کہ نہیں

کالم میں نہیں

بلکہ غزل میں

جس کے ٹکڑے تم ان دنوں مجھے سوکھی راوی کے کنارے سے بھیجا کرتے تھے

میں آنے والے دنوں میں دھیمے سبھاؤ کی رومانوی غزل کے انتظار میں بیٹھا رہا

اور تم نے شدھ پنجابی میں ‘والٹن کیمپ نئیں مکیا’ ٹائپ کر کے ای میل کر دی

ٹوکیو کے جاڑے میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں تھی

اور پھر بی بی سی پر تمہارا کالم آنے لگا

جس کا مجھے کیا، سب ہی کو انتظار ہوتا

کتنے برس بعد اردو کالم ہلکی جذباتیت اور جھوٹی وطن پرستی سے آزاد ہوا

اک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح لوگوں کو ہر صبح اس کا انتظار ہوتا

مگر تازہ ہوا لاہور میں ہر صبح تو نہیں ملتی

ناصر کاظمی اور انتظار حسین خوش قسمت تھے

اب بھی جب تم ہر منگل اور ہفتے کو ایک لذیذ کالم لکھ بھیجتے ہو

تو سوموار اور جمعے کی شام ہی سے

ہمیں

ہم سب کو

انتظار رہتا ہے

کہ تم کیا لکھتے ہو

ان کو بھی

جن کے لئے شاید یہ اتنا لذیذ نہیں ہوتا۔

(ظہور احمد اسلام آباد 24 جنوری 2020 رات دس بجے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments