پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں برفانی تودوں سے تباہی: ’میرا وہ بچہ ہلاک ہو گیا جس نے ابھی دنیا میں آنا تھا‘


تصویر

‎’میں تین دن تک زخمی بیوی کے ساتھ مدد کے انتظار میں بیٹھا رہا، جب مدد آئی تب تک میرا وہ بچہ ہلاک ہو گیا تھا جس نے ابھی دنیا میں آنا تھا۔‘

‎یہ محمد یونس ہیں جو وادی نیلم کے دور دراز گاؤں ڈھکی چکنار سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گاؤں حالیہ برفباری اور برفانی تودے گرنے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دیہات میں شامل ہے اور اس تک جانے والا راستہ انتہائی کٹھن اور طویل ہے۔

اس علاقے میں تاحال صحافی بھی نہیں پہنچ سکے اور رابطوں کے فقدان کے باعث یہ علاقہ وادی نیلم کے باقی حصوں سے کٹا ہوا ہے۔ اب تک یہاں نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔

یہ گاؤں لائن آف کنٹرول کے سامنے انتہائی بلندی پر واقع ہے۔ لائن آف کنٹرول سے کم فاصلے کے باعث یہاں فون کام نہیں کرتے جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت تو سرے سے موجود ہی نہیں۔

مزید پڑھیے

’کھلونا ٹارچ برف کی قبر سے نکلنے کا ذریعہ بنی‘

’کون سوچ سکتا تھا کہ وہاں بھی موت آ جائے گی‘

پاکستان: شدید برفباری سے ہونے والی تباہی کے مناظر

یونس بتاتے ہیں کہ ’یہاں رابطوں کا کوئی ذریعہ نہیں اور دیگر دیہات سے کافی فاصلے پر ہونے کے باعث خیر خبر کا بھی پتا نہیں چلتا، یہاں تو ہیلی کاپٹر بھی نہیں آ سکتا۔‘

‎جب برفانی تودہ گرا تو محمد یونس اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر موجود اپنے رشتہ دار کے گھر میں تھے۔

‎اس دن کی خوفناک یادوں کے بارے میں بتاتے ہوئے یونس کہتے ہیں: ’جیسے ہی برفانی تودہ گرا ایک زوردار آواز آئی جیسے کوئی دھماکہ ہوا ہو۔ میں باہر کی جانب بھاگا تو میں نے دیکھا کہ میرا اپنا گھر تو ہے ہی نہیں۔‘

’برف آئی اور وہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی۔ کہیں مجھے اپنی ماں کا بازو برف سے باہر نظر آیا اور کہیں کسی بچے کا۔‘

انھوں نے دیکھا کہ اردگرد زیادہ تر گھر غائب تھے۔ جو سامنے تھے وہ بھی آدھے گر چکے تھے۔ ایسے میں انھیں اپنی دو سالہ بیٹی نظر آئی تو وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس گئے اور جلدی سے اسے باہر نکالا۔

‎بی بی سی کو انٹرویو دیتے وقت یونس نے اپنی بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا جس نے اپنے ہاتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ اپنی ماں کی طرح وہ بھی پٹی پہنیں۔

یونس کے مطابق ان کی بیٹی معجزانہ طور پر محفوظ رہیں۔

‎اپنی بیٹی کو نکالنے کے بعد یونس دوڑتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں انھیں اپنی والدہ کا بازو نظر آیا تھا۔

’میں نے اکیلے، بہت مشکل سے اپنی ماں کو ملبے سے نکالا، وہ رو رہی تھیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔‘

تصویر

‎بی بی سی کو انٹرویو دیتے وقت یونس نے اپنی بیٹی کو اٹھایا ہوا تھا اور انھوں نے اپنے ہاتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی ماں کی طرح وہ بھی پٹی پہنیں

‎اپنی والدہ کو وہیں چھوڑ کر یونس نے اپنی بیٹی کو ساتھ لیا اور اس گھر میں لے گئے جو اب تک محفوظ تھا۔ جب وہ واپس آئے تو انھیں چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔

‎محمد یونس بتاتے ہیں کہ انھوں نے ملبے سے اپنے گھر کے دیگر افراد کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ ان کے لیے یہ انتہائی کٹھن وقت تھا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ وقت رونے کا نہیں تھا، بس مجھے جان بچانی تھی۔‘

بالآخر یونس نے اپنی حاملہ اہلیہ کو ڈھونڈ لیا اور انھیں بہت مشکل سے ملبے سے نکالا۔ ان کی اہلیہ سر اور جسم کے باقی حصوں پر چوٹوں کے باعث چیخ رہی تھیں۔

‎یونس کے قدموں تلے زمین تب سرکی جب ان کی والدہ جو ’چند لمحے قبل بالکل ٹھیک تھیں، ان کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی اور وہ میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئیں۔‘

‎وہ لمحہ یونس کی زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا۔

’میری ماں میرے سامنے مر چکی تھی۔ میری بیوی مرنے والی تھی اور اس کے پیٹ میں میرا بچہ بھی نہیں بچ سکتا تھا اور میری دوسری بیٹی ملبے تلے کہیں دبی ہوئی تھی۔‘

‎اس وقت تک گاؤں میں بہت سے مرد اور عورتیں امدادی کاروائیاں شروع کر چکے تھے۔

انھوں نے بھی اپنے اور دیگر گھروں کے ملبے سے کئی افراد کو نکالنے میں مدد لیکن ان کی دوسری بیٹی تاحال لاپتہ ہے۔ ’میں تین دن تک اپنی بیٹی کو ڈھونڈتا رہا ہوں۔‘

‎حادثے کے تیسرے روز بالآخر ریسکیو ٹیم ان تک پہنچی۔

‎وہ بتاتے ہیں ’ہم تین دن تک زخمیوں کو لے کر بیٹھے رہے۔ موسم انتہائی خراب تھا۔ نہ ہم کہیں جا سکتے تھے نہ کوئی ہماری مدد کو آ سکتا تھا اور نہ ہی ہم کسی کو اطلاع دے سکتے تھے۔‘

ایسے میں اس دوران ہلاک ہونے والوں کو دفنا دیا گیا جبکہ امدادی ٹیموں کا انتظار اتنا طویل تھا کہ انھیں خیال آ رہا تھا کہ ’شاید زخمیوں کو بھی دفنانا پڑ جائے۔‘

‎تیسرے دن جب امداد پہنچی تو ان کا بچہ پیدائش سے پہلے ہی ہلاک ہو چکا تھا، ان کی اہلیہ کی حالت انتہائی تشویشناک تھی اور ان کے بڑے بھائی کو بھی زخمی حالت میں سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا۔

‎’میری بیٹی کی لاش آج بھی نہیں ملی، میری بیٹی مجھ سے خفا ہو کر کمرے میں گئی تھی، مجھے کیا خبر تھی کہ میں اسے کبھی منا نہیں پاؤں گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp