#coronavirus: چین میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 41 ہو گئی، پاکستانی اور انڈین طلبا مشکلات کا شکار


چین

چین کا ہوبائی صوبہ کرونا وائرس کا مرکز ہے

چین میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبائی میں مزید 15 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جس کے بعد چین میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 41 ہو گئی ہے۔

حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ کر 1287 ہو گئی ہے۔ ہوبائی صوبہ کرونا وائرس کا مرکز ہے۔

بی بی سی کے دانش حسین اور گگن شبروال نے چین کے شہر ووہان میں قائم مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم چند پاکستانی اور انڈین طلبا سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث وہ کس طرح کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے تعلیمی اداروں میں ماحول کیسا ہے۔

پاکستانی طالبعلم محمد عتیق

پاکستانی طالبعلم محمد عتیق ووہان کی فا چونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں 100 سے زائد پاکستانی طلبا زیر تعلیم ہیں۔

محمد عتیق کے مطابق شہر میں ذرائع آمدورفت مکمل طور پر بند ہیں اور انھیں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے سختی سے ہدایات دی گئیں ہیں کہ اپنے کمروں اور کیمپس سے ہرگز باہر نہ نکلیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

یہ بھی پڑھیے

چین میں سانس کی بیماری کا باعث بننے والا نیا وائرس

چین: مہلک وائرس کی ’انسان سے انسان میں منتقلی‘ کی تصدیق

کیا ماسک آپ کو کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

’شہری انتظامیہ کی جانب سے منع کیا گیا ہے کہ عوامی اجتماعات میں شرکت نہ کی جائے جس کے باعث مسجد بند ہے اور ہم نے جمعے کی نماز ادا نہیں کی۔ شہر میں بیشتر دکانیں بند ہیں جبکہ یونیورسٹی میں بھی جو کینٹینز ہمیشہ کھلی رہتی تھیں وہ بھی بند ہو چکی ہیں جس کے باعث کھانے پینے کی اشیا کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ نئے چینی سال کے آغاز پر چین کی یونیورسٹیوں میں سالانہ چھٹیاں دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے بہت سے پاکستانی اور دیگر بین الاقوامی طلبا واپس اپنے ممالک جا چکے ہیں تاہم بہت سے اب بھی یونیورسٹی ہاسٹل میں ہی موجود ہیں۔

’گذشتہ تین روز سے ووہان میں بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے زندگی اور مشکل ہو چکی ہے۔ ہمیں ماسک فراہم کیے گئے ہیں جبکہ ہم اب کھانا خود ہاسٹل ہی میں پکا رہے ہیں۔ ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ گوشت اور انڈوں کو زیادہ درجہ حرارت پر پکا کر کھایا جائے۔ دکانیں بند ہونے کی وجہ سے سبزی کے ریٹ بھی بڑھے ہیں اور آج ہمیں کہیں سے بھی سبزی نہیں مل پائی۔‘

چین

ووہان میں تقریباً تمام ذرائع آمدورفت عارضی طور پر معطل کر دیے گئے ہیں

انھوں نے مزید بتایا ’ہم یونیورسٹی سے باہر نہیں جا پا رہے، سفر نہیں کر پا رہے، کھانے پینے کے مسائل کا سامنا ہے اور شب و روز مشکلات کا شکار ہیں۔ اگرچہ یونیورسٹی میں چھٹیاں ہیں مگر پھر بھی۔‘

انڈین طالبعلم چوگنتھم پیپی

انڈین طالبعلم چوگنتھم پیپی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گذشتہ دو برسوں سے ووہان میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ ووہان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے مینیجمنٹ میں ماسٹرز ڈگری کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے تک صورتحال نارمل تھی مگر گذشتہ دو، تین دن میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ پیپی کیونکہ بین الاقوامی طالبعلم ہیں اسے لیے ان اچانک تبدیلیوں نے انھیں پریشان کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ انھوں نے کبھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہیں کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ووہان کے مقامی حکام تمام طلبا سے تعاون اور ان کی دیکھ بھال کرر ہے ہیں جبکہ حکام کی جانب سے اس وائرس سے بچنے کے لیے ضروری طبی امداد اور مشورے بھی دیے گئے ہیں۔

ان کے مطابق ووہان میں بازار اور گلیاں سنسان ہیں، ایسا چین کے نئے قمری سال کی وجہ سے ہے یا وائرس کی وجہ سے وہ نہیں جانتے۔ ذرائع آمد و رفت بشمول ٹرینیں اور فلائٹس منسوخ کر دی گئی ہیں۔

ان کی یونیورسٹی روزانہ تمام طلبا کا جسمانی درجہ حرارت چیک کرتی ہے جبکہ انھیں چہرے پر پہننے والے ماسک بھی مفت میں فراہم کیے گئے ہیں۔ ضرورت کے تحت یونیورسٹی کے پاس اپنی ایمبولینس اور ہسپتال کی سہولت بھی موجود ہے۔

انھوں نے بتایا کہ طلبا کو کہا گیا ہے کہ وہ ہر گھنٹے بعد اپنے ہاتھ دھوئیں، باہر کے کھانوں سے گریز کریں اور جب بھی اپنے کمرے سے نکلیں تو ماسک پہن کر نکلیں۔

انھوں نے بتایا کہ تمام طلبا پورا دن اپنے اپنے کمروں میں گزارتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے کمرے سے اگلے کمرے میں دوستوں کو ملنے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام طلبا خیروعافیت سے ہیں مگر ڈرے ہوئے ہیں اور انھیں تمام ضروری سہولیات میسر ہیں۔

طالبعلم، دبیش مشرا

چین

ووہان شہر سنسان ہے جبکہ بازار بند ہیں

دبیش مشرا گذشتہ چار برسوں سے ووہان میں زیر تعلیم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فی الحال پورا شہر سنسان ہے جبکہ گذشتہ دو، تین روز سے بارش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ شہر میں جو لوگ نظر بھی آ رہے ہیں انھوں نے ماسک اور ہاتھوں پر دستانے پہن رکھے ہیں۔

شہر میں بہت تھوڑی سے دکانیں کھلی ہیں اور اس سال نئے چینی سال کو اس انداز میں نہیں منایا جا رہا جیسے گذشتہ برسوں میں منایا جاتا تھا۔ ماحول افسردہ ہے اور بہت سے لوگ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

بہت سے انڈین طلبا پریشان اور خوفزدہ ہیں اور اپنے کمروں سے باہر نہیں نکلتے۔ وہ ہر گھنٹے بعد اپنے ہاتھ اور منھ دھوتے ہیں۔

ان کی یونیورسٹی انتظامیہ نے ہدایت کی ہے کہ طلبا زیادہ باہر نہ نکلیں اور عوامی مقامات پر نہ جائیں۔ اور اگر باہر جانا ناگزیر ہو تو منھ پر ماسک پہنا جائے اور صاف ستھری غذا کھائی جائے۔

مشرا کا انڈیا میں موجود خاندان بھی ان کے حوالے سے پریشان ہے۔ مشرا کو نہیں معلوم کے انھیں ووہان شہر چھوڑنے اور انڈیا واپس جانے کی اجازت کب مل پائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ تین روز سے کمروں میں ہی بند ہیں اور آن لائن اور واٹس ایپ گروپس پر خبریں پڑھ رہے ہیں۔ مشرا اپنی ریسرچ پر کام کر رہے ہیں مگر اس سلسلے میں اب وہ کہیں آ جا نہیں سکتے۔ پلان کے مطابق مشرا کو آج کے دن واپس انڈیا کی فلائیٹ لینی تھی مگر شہر سے جانے والی تمام پروازیں منسوخ ہو چکی ہیں۔

بہت سے دیگر افراد کی طرح اس غیریقینی صورتحال کے باعث وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں۔


چین میں ہلاکتوں میں اضافہ

چین میں نئے قمری سال کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں جشن منانے کی تقریبات کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ نئے چینی سال کے آغاز پر اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کا خدشہ ہے جس کے باعث بہت سی تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔

چین صوبہ ووہان میں ایک نیا ہسپتال بھی تعمیر کر رہا ہے اور چینی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایک ہزار بستروں پر مشتمل اس نئے ہسپتال کی تعمیر چھ دن میں مکمل ہو جائے گی۔

تعمیری کام دن رات جاری ہے اور بھاری مشینری ہسپتال کی سائٹ پر کام کر رہی ہے۔ چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس پراجیکٹ کا مقصد علاقے میں طبی سہولیات کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ یہ فیبریکیٹڈ عمارت ہو گی جس کی تعمیر بہت جلد مکمل ہو پائے گی اور اس پر لاگت بھی زیادہ نہیں آئے گی۔

چین

ووہان میں زیر تعمیر ہسپتال

صوبہ ووہان میں اس وائرس کے خوف میں مبتلا شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتالوں کا رخ کر رہی ہے، جس کے باعث ہسپتال اپنی گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں جبکہ صوبہ میں موجود ادویات کی دکانوں پر ادویات کی قلت ہو گئی ہے۔

کرونا وائرس کی ابتدا عام بخار سے ہوتی ہے جس کے بعد اس سے متاثرہ مریض کو خشک کھانسی ہوتی ہے۔ اس صورتحال کے ایک ہفتے بعد مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس مرض میں مبتلا چند افراد کو طبی امداد کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔

کرونا وائرس کے شکار ہر چار میں سے ایک کیس شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔

متاثرہ صوبہ ہوبائی میں کس نوعیت کی پابندیاں ہیں؟

چین میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں ہیں جو ہر شہر کے لیے مختلف ہیں۔

صوبہ ہوبائی کا دارالحکومت ووہان لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔ بسیں، میٹرو، ٹرین اور فیری سروس بند ہے جبکہ یہاں کے ایئرپورٹ سے بیرونی دنیا کے لیے کوئی پرواز نہیں چلائی جا رہی ہے۔

ووہان کے شہریوں کو شہر سے باہر نہ نکلنے کی ہدایات کی گئی ہے جب شہر کی مختلف شاہرایں ٹریفک کے لیے بند کر دی گئیں ہیں۔

صوبہ ہوبائی کے شہر ازہو میں تمام ریلوے سٹیشن بند ہیں جبکہ دوسرے شہر اینشی میں بھی بس سروس معطل ہے۔

چین

باقی چین میں کیا صورتحال ہے؟

چین کے مقامی میڈیا کے مطابق بیجنگ اور شنگھائی کے حکام نے ایسے تمام شہریوں کو اپنے اپنے گھروں سے آئندہ 14 روز تک باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی ہے جو متاثرہ علاقوں کے سفر سے واپس آئے ہیں۔ یہ اقدام وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔

حکام نے مشہور سیاحتی مقامات جیسا کہ بیجنگ میں واقع ’فاربڈن سٹی‘ اور دیوارِ چین کا ایک حصہ سیاحوں کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا ہے جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں ہونے والے بڑے عوامی اجتماعات اور تقریبات کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

مشہور فاسٹ فوڈ چین میک ڈونلڈز نے پانچ شہروں میں واقع اپنے ریسٹورنٹس بند کر دیے ہیں جبکہ شنگھائی ڈزنی ریزارٹ کو بھی عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

گذشتہ جمعرات کو چین کے صوبہ ہیبائی میں کرونا وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی ہلاکت ہو گئی ہے۔ صوبہ ہوبائی کے علاوہ کسی دوسرے چینی صوبے میں اس وائرس کے باعث ہونے والی یہ پہلی ہلاکت تھی۔

ووہان سے دو ہزار کلومیٹر دور واقع صوبہ ہیلونگ جیانگ میں بھی ایک شخص اس وائرس سے ہلاک ہوا ہے۔

عالمی سطح پر صورتحال کیا ہے؟

کرونا وائرس اب یورپ تک پہنچ چکا ہے اور فرانس میں اس کے تین کیسز سامنے آئے ہیں۔

فرانس کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ بورڈیوکس میں ایک جبکہ پیرس میں دو افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

فرانس کے وزیر صحت ایگنز بوزائن کا کہنا ہے کہ فرانس میں سامنے آنے والا کرونا وائرس کا ایک کیس 48 سالہ چینی نژاد باشندے کا ہے جو حال ہی میں ووہان شہر سے واپس آیا تھا۔ اس مریض کو مقامی ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔

پیرس میں سامنے آنے والے والے دوسرے کیس سے متعلق زیادہ تفصیلات موجود نہیں ہیں مگر اس شخص کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ چین آتا جاتا رہتا ہے۔ جمعہ کی شب وزیر صحت نے فرانس میں کرونا کے تیسرے مریض کی موجودگی کی تصدیق بھی کی ہے۔

وزیر صحت نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یورپ میں اس وائرس کے مزید کیس سامنے آ سکتے ہیں۔

چین

سنیچر کو آسٹریلیا نے بھی اپنے ملک میں اس وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ اس شخص کو میلبورن کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ یہ متاثرہ شخص گذشتہ ہفتے ہی چین سے واپس آسٹریلیا آیا تھا۔

امریکہ کی بات کی جائے تو اس کی ریاست شکاگو میں اس وائرس سے متاثرہ پہلا کیس جمعے کو سامنے آیا تھا۔

سنگاپور میں اب تک تین جبکہ نیپال میں ایک کیس سامنے آ چکا ہے۔

تھائی لینڈ میں پانچ افراد میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے، ویتنام اور جنوبی کوریا میں دو، دو جبکہ تائیوان میں ایک کیس سامنے آیا ہے۔

چند دوسرے ممالک میں کرونا وائرس سے متاثرہ مشتبہ کیسز کی تفتیش جاری ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ اور کینیڈا بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اب تک اس وائرس کو ’بین الاقوامی ایمرجنسی’‘کی کیٹگری میں نہیں ڈالا ہے اور اس کی وجہ چین سے باہر اس وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کا نہ ہونا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp