#MerePassTumHo: اعتراضات کے باوجود یہ پاکستانی ڈرامہ اتنا مقبول کیوں؟


پاکستان کا اس وقت کا مقبول ترین ڈرامہ ’میرے پاس تم ہو‘ آج اختتام پذیر ہو رہا ہے اور اس کی آخری قسط نہ صرف ٹی وی پر بلکہ پاکستان کے تمام بڑے سنیما گھروں میں بھی دکھائی جائے گی۔

اس ڈرامے کے بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس ڈرامے نے مقبولیت کے تمام گذشتہ ریکارڈ توڑ دیے۔ اگرچہ اس دعوے کی سچائی کو جانچنے کے لیے کوئی مستند پیمانہ نہیں ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یوٹیوب پر اس کی ہر قسط کو کروڑوں افراد نے دیکھا اور ہر سنیچر کو جب اس کی قسط نشر ہوتی تھی تو یہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز میں ہوتا تھا۔

اس ڈرامے کی مقبولیت تو اپنی جگہ لیکن یہ ڈرامہ اپنے منفرد مکالموں اور اس کو لکھنے والے خلیل الرحمان قمر کے خواتین اور حقوقِ نسواں یعنی فیمینزم سے متعلق خیالات کی وجہ سے مختلف تنازعات کا بھی شکار رہا۔

یہ ڈرامہ اس وقت ٹی وی، نجی محفلوں اور سوشل میڈیا پر زیر بحث بنا جب ڈرامہ شائقین جو پاکستانی ڈرامے میں مرد کی بے وفائی، عورت پر مرد اور عورت پر عورت کا ظلم دیکھنے کے عادی تھے، کو ایک عورت کی بے وفائی اور مرد کی انتہا کی حد تک کی وفا اور محبت دیکھنے کو ملی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا یہ ڈرامہ ’پاکستانی ففٹی شیڈز آف گرے‘ ہے؟

’آپ فرض کر رہے ہیں کہ جج نے بھی ڈرامہ دیکھا ہو گا‘

کیا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ فحش اور غیراخلاقی ہو گیا ہے؟

جہاں بہت سے ناظرین نے اس ڈرامے کی منفرد کہانی کو بہت پسند کیا وہیں اکثر لوگوں کے خیال میں اس ڈرامے کے ڈائیلاگز خواتین کے لیے تضحیک آمیز تھے۔

https://www.facebook.com/bbcurdu/videos/vb.126548377386804/529373841270730/?type=3&theater

ڈرامہ نقاد صدف حیدر کے نزدیک اس ڈرامے پر ہونے والی تنقید اس لیے نہیں کیونکہ اس میں ایک عورت کو منفی کردار میں دکھایا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ تنقید اس لیے ہے کیونکہ اس ڈرامے کے مصنف نے ایک بے وفا بیوی کو تو ’دو ٹکے کی عورت‘ کا نام دیا لیکن اسی ڈرامے میں بے وفا شوہر کا کردار ادا کرنے والے عدنان صدیقی کو اس قسم کے کسی تصحیک آمیز نام سے نہیں پکارا گیا۔

اس ڈرامے کی کہانی، اداکاری اور مکالموں کے علاوہ اس کے مصنف خلیل الرحمان قمر بھی اپنے بیانات کے وجہ سے خبروں کی زینت بنے رہے۔

کبھی وہ خواتین کی برابری کا مطالبہ کرنے والی خواتین کو ’مردوں کا ریپ کرنے کا‘ چیلنج دیتے دکھائی دیے، کبھی انھوں نے فیمینزم کو ’ایک بلا‘ قرار دیا تو کبھی اصلی عورت کی خصوصیات (’عورت فطرتاً بے وفا نہیں ہوتی اور جو بے وفا ہوتی ہے وہ عورت نہیں ہوتی‘) بتاتے ہوئے دکھائی دیے۔

خلیل الرحمان قمر کے ان خیالات کو کافی لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا لیکن شاید انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ وہ واحد خاتون تھیں جنھیں خلیل الرحمان قمر کے فیمینزم سے متعلق خیالات کا براہ راست اصلاح کرنے کا موقع ملا اور طاہرہ عبداللہ کی جانب سے ایک ٹی وی شو میں دی گئے فیمینزم کے سبق کو سوشل میڈیا صارفین نے خوب سراہا۔

خلیل الرحمان قمر کے خواتین سے متعلق بیانات اتنے متنازع ہو گئے کہ اسی ڈرامے میں عائشہ کا کردار ادا کرنے والی رحمت اجمل نے اس ڈرامے کا حصہ ہونے پر شرمندگی کا اظہار کیا اور انسٹاگرام پر جاری اپنے ایک بیان میں لکھا کہ وہ اس ڈرامے میں شامل ہوتے وقت مصنف کے خیالات سے آگاہ نہیں تھیں ورنہ وہ اس کا حصہ ہرگز نہ بنتیں۔

اس کے علاوہ ایک خاتون نے تو اس ڈرامے کی آخری قسط کو نشر ہونے سے روکنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی تاہم جج نے دلچسپ مکالمے کے بعد یہ درخواست خارج کر دی۔

اعتراضات کے باوجود ڈرامہ مقبول کیوں؟

اس ڈرامے کے چرچے سوشل میڈیا سے نکل کر پاکستانی ایوانوں میں بھی سنائی دیے جب سندھ اسمبلی کے اراکین نے سنیچر کو کام کرنے سے معذرت کر لی تاکہ وہ اس ڈرامے کی آخری قسط دیکھ سکیں۔

ڈرامہ نقاد دانیال شاہد کے مطابق اس ڈرامے کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس کا مارکیٹنگ پلان بھی ہے۔

’دوسرے ممالک میں تو ایسا کیا جاتا تھا لیکن میں نے پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ دیکھا کہ اس ڈرامے کی قسط کو وقت سے پہلے دیکھنے کے لیے خصوصی کیو آر کوڈ جاری کیے گئے۔ اس کی کاسٹ کے ساتھ شاپنگ مالز میں میٹ اینڈ گریٹ تقاریب منعقد کی گئیں اور پھر خلیل الرحمان کے بیانات نے بھی اس ڈرامے کو خوب شہرت دلائی۔‘

صدف حیدر کے مطابق اس ڈرامے میں ایک اچھے ڈرامے کے تمام اجزا تھے۔ ہمایوں سعید، عدنان صدیقی اور سویرا ندیم جیسے بڑے نام اس کا حصہ تھے جبکہ اس کے ڈائریکٹر ندیم بیگ نے بھی بغیر کسی گلیمر اور مہنگے کپڑوں اور سیٹ کے اپنی ہدایت کاری سے اس کہانی میں چار چاند لگا دیے۔

ان کی ہدایت کاری کی سب سے بڑی کامیابی ہر قسط کو ایک نئے کلائمیکس پر ختم کرنا تھا جس کی وجہ سے ناظرین اس کی اگلی قسط کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔

چنانچہ ان کے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ڈرامہ بہت مقبول ہوا۔

’لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یہ ڈرامہ پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین ڈرامہ تھا، کیونکہ اب ہر سال ہی کوئی نہ کوئی ڈرامہ بہت مقبول ہوتا ہے اور اس کو بنانے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ڈرامے نے ’ہم سفر‘ کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔‘

’لیکن اس دعوے کی درستگی کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ یوٹیوب پر اس کو دیکھنے والوں کی تعداد اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پاکستانی ڈرامے اب انڈیا میں بھی بہت مقبول ہو رہے ہیں اور وہ ان کو یوٹیوب کے ذریعے ہی دیکھتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp