لبرل منافقت کی کیس اسٹڈی: زندگی تماشہ بمقابلہ میرے پاس تم ہو


خلیل الرحمٰن قمر ایک ڈرامہ رائٹر ہیں۔ شوبز میں کام کرتے ہیں۔ شکل و شباہت اور عادت و اطوار سے مکمل ماڈرن لگتے ہیں۔ خیالات میں بھی مکمل آزاد خیال ہیں۔ ڈراموں میں بھی پاکستانی روایتی عشق و عاشقی کا تڑکا ضرور لگاتے ہیں۔ ٹی وی انٹرویوز تک میں انتہائی لاپرواہی سے سگار کا دھواں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں میں شراب نوشی اور بغیر نکاح کے تعلقات کا تڑکا بھی لگاتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ کسی بھی لحاظ سے دینی پہچان یا دینی طبقے سے واضح اعلانیہ تعلق نہیں رکھتے۔ لیکن اس کے باوجود آجکل لبرلز و سیکولر خواتین ان کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر لعنت و ملامت کا طوفان مچا رکھا ہے۔ ایک پرجوش ماڈرن خاتون تو عدالت جا پہنچی ہے کہ قمر صاحب کے ڈرامے کو نشر ہونے سے ہی روک دیا جائے۔ ماڈرن سمجھے جانیوالے کنئیرڈ کالج میں کلچرل سوسائٹی کی جانب سے ان کے ساتھ انٹریکٹیو سیشن رکھا گیا تھا جسے کینسل کر دیا گیا ہے۔

یہ سب ہو کیوں رہا ہے۔۔ لبرلز و سیکولر این جی اوز زدہ خواتین خلیل الرحمٰن قمر کے اتنی خلاف کیوں ہو گئیں۔ کیونکہ ان کو عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے اور کیوں ان کے ڈرامے اور سیمینارز کو روکا جا رہا ہے؟

دراصل خلیل الرحمٰن قمر سے ایک گستاخی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے حالیہ ڈرامے ” میرے پاس تم ہو” کے حوالے سے ہونے والی بحث میں چند ایسے جملے بول دیے ہیں جن سے این جی اوز۔ وومن رائٹس کی نام نہاد علمبرداروں کے بیانیے کی گستاخی ہوئی ہے۔

ویسے صورت حال بڑی دلچسپ ہے کہ آجکل لبرل و سیکولر طبقہ ایک طرف سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم “زندگی تماشہ” کی حمایت کر رہا ہے کیونکہ اس میں مدارس و دینی طبقے کو انتہائی غلط رنگ اور گھٹیا انداز میں پیش کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب یہی لبرل و سیکولر خواتین خلیل الرحمٰن قمر کے ڈرامے کو روکنے اور ان کی بات چیت تک روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ذرا منافقت چیک کریں کہ ایک طرف آزادی اظہار۔ آرٹ اور فنون لطیفہ کے نام پر سرمد سلطان کی فلم ضرور چلوانا چاہتی ہیں کیونکہ اس میں مدارس نعت خوانوں اور علمائے کرام کی توہین کی گئی ان پر بے ہودہ الزامات جڑے گئے جبکہ دوسری جانب خلیل الرحمٰن قمر کو بولنے کی اجازت نہیں دینا چاہتیں ان کا آزادی اظہار۔ فن و آرٹ اور ادب کا حق دینے سے انکاری ہیں کیونکہ انہوں نے چند ایسے جملے بول یا لکھ دئیے ہیں جن سے عورت کے متعلق سیکولر و لبرل بیانیے کی نفی ہوتی ہے۔ واضح رہے یہ کسی حقیقی کردار یا طبقے کی باقاعدہ توہین نہیں نہ ہی کوئی واضح ٹارگٹ ہے بلکہ صرف اور صرف ایک ڈرامہ ہے۔

حالانکہ اسی ڈرامے میں اس قدر متنازع مواد ہے کہ جس پر دینی طبقے کو اعتراض ہونا چاہیے تھا یعنی بغیر نکاح کے کسی کے گھر رہنا۔ شراب نوشی فلرٹ کے مناظر اور بہت کچھ جو کہ معاشرتی و دینی حوالے سے مناسب نہیں تھا لیکن اس ڈرامے کی مخالفت کا محاذ لبرل و سیکولر طبقے نے سنبھال رکھا ہے کیونکہ خلیل الرحمٰن قمر نے چند گستاخانہ جملے بول دیے ہیں۔۔

ویسے اس صورتحال کو ہمارے ہاں کے لبرل و سیکولر اور نام نہاد ماڈرن طبقے کی منافقت کی اعلی ترین مثال کے حوالے سے بطور “کیس اسٹڈی” لینا چاہیے کہ ان کا آزادی اظہار۔ فن و آرٹ سے محبت اور ادب و ثقافت کی پیشکش کا دراصل معیار کیا ہے۔ اگر تو ڈرامہ فلم یا کوئی فن پارہ ان کے خیالات کے عین مطابق ہو تو پھر نشر ہو سکتا ہے اور اگر اس میں چند جملے بھی ان کے خودساختہ خیالات کے ذرا سے بھی مخالف ہوں چاہے وہ ایک مکمل مسالہ فلم یا ڈرامہ ہی کیوں نہ ہو تو پھر ان کی دم پر پاؤں آجاتا ہے اور وہ اس اظہار کو روکنے کےلئے عدالت بھی چلے جاتے ہیں اور بات تک کرنے کا حق چھین لیتے ہیں۔

یعنی وہ کسی لبرل و سیکولر رائٹر سے بھی اپنے نام نہاد فیمینزم کے خلاف چند جملے نہیں سن سکتیں اس کی زبان بندی کرانا چاہتی ہیں۔

وہ میرا جسم میری مرضی۔عورت مارچ۔ لال لال لہرائے گا سمیت جب چاہیں جو چاہیں مہم چلا کر معاشرتی و دینی روایات و اقدار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں لیکن اپنے بیانیے کے خلاف چند جملے بھی برداشت نہیں کر سکیں۔۔

کم سے کم انہیں احساس ہوا ہو گا کہ جب بول جیسی پروپیگنڈا فلمیں اور دینی طبقے کو بدنام اور دینی و معاشرتی اقدار و روایات کو روندنے والی فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں تو انہیں کتنا دکھ ہوتا ہے۔ معاشرے میں انتشار اور نفرت پھیلانے والے مواد کو نشر ہونے سے روکنا کس قدر ضروری ہوتا ہے۔ دینی طبقہ تو بیچارہ اس مواد کو روک بھی نہیں سکتا۔ حالیہ فلم زندگی تماشہ سنسر بورڈ نے روکی ہے۔ یہ تو پھر بھی آن لائن یا بیرون ملک چلا ہی دی جائے گی۔ جتنی شہرت مل چکی اب بزنس بھی بہتر کرے گی اور بنانے والوں کو دھمکیوں کی آڑ میں بیرونی فنڈز بھی ملیں گے وہاں شہریت بھی ملے گی اور بہت کچھ۔۔

یہ لبرلز بمقابلہ لبرلز صورت حال ہے جس سے ان کی منافقت واضح ہوئی ہے کہ ان کے ہاں آزادی اظہار اور فنون لطیفہ سے اصل مراد کیا ہے۔۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی وحدت اور معاشرتی دینی و ثقافتی اقدار و روایات کی پاسداری کی جائے تاکہ نہ تو میرے پاس تم ہو کے جملوں سے کسی ماڈرن خاتون کا دل دکھے اور نہ ہی کبھی سماجی بگاڑ و انتشار پیدا کرنے والا مواد زندگی تماشا کے نام پر سامنے آ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments