پوشیدہ راز


زبان کا انسانی زندگی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے، ماں کی گود میں جو زبان سیکھی جاتی ہے، وہ مادری زبان کہلاتی ہے، ماں کی گود میں بچہ پہلے زبان سنتا ہے، پھر آہستہ آہستہ اُس کی سمجھ میں الفاظ آنے لگتے ہیں، پھر بولنا شروع کرتا ہے، بعد میں وہ اسے پڑھنا اور لکھنا سیکھتا ہے، زبان کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے، کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اُس کی قومی زبان کے ساتھ وابسطہ ہوتا ہے کہا جائے کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اُس کی مادری زبان میں پوشیدہ ہوتا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

تاریخ شاہد ہے جس قوم نے اپنے ثقافتی و تہذیبی ورثے کی حفاظت کی اُس قوم نے اپنی بقا کی جنگ جیت لی، جو قوم اپنی مادری زبان کے فروغ کے لئے بروقت اقدامات نہ کر سکی اُسے کسی اور زبان کے سہارے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے، جیسے بچے کو چلنے کے لئے باپ یا ماں کی انگلی کی ضرورت پڑتی ہے، ایک نابینا شخص کو چلنے کے لئے چھڑی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی بہت سی اقوام ایسی بھی ہیں جن کو ترقی یافتہ ممالک کی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے، زبانیں کسی سرکاری تحفظ کی محتاج نہیں ہوتیں، زبان کلچر اور تہذیب کا تحفظ قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے، جو قوم اپنی ثقافت اور کلچر کی حفاظت نہیں کر سکتی تو کسی اور سے تحفظ کی اُمید کسی حماقت سے کم نہیں ہوتی۔

زبان تہذیب اور کلچر ہمیں وراثت میں ملے ہیں، مثال کے طور پر والدین کی طرف سے وراثت میں ملنے والے کاروبار اور جائیداد کی حفاظت کی ذمہ داری اولاد پر عائد ہوتی، اسی طرح بحثیت قوم ہماری ذمہ داری ہے ہم اپنی زبان، تہذیب، کلچر کی حفاظت کریں۔

اقوام متحدہ میں اپنی مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے، ہم اپنی مادری زبان یا قومی زبان کا عالمی دن تو نہیں لیکن کیا ہم اپنی مادری زبان کا قومی دن بھی نہیں منا سکتے؟

مسلمانوں نے اپنے علم وفن سے دنیا میں ایک سو سال سے زیادہ لاج کیا، مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا وقت بھی گزرا ہے، جب دنیا کی سماجی، سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تاریخ گواہ ہے مسلمانوں نے سائنس اور طب میں کتنی ترقی کی، مغرب میں اُس کے بعد طب کی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔

مسلمانوں نے جب برصغیر پر قدم رکھا تو اُس وقت مسلمانوں کی زبان ترکی، فارسی اور عربی پر مشتمل تھی، دو قوموں کے ملنے اور بعدازاں آپس میں بات جیت کے لئے مختلف الفاظ کے مجموعے سے اُردو نے جنم لیا،

اُردو زبان کے خمیر میں اتحاد، یکجہتی اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

ہندوستان میں آج بھی اُردو بولی اور پسند کی جاتی ہے، آج بھی ہندوستان کی فلموں میں اُردو زبان استعمال کی جاتی ہے اِس سے اِس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُردو برصغیر میں کتنی مقبول اور پسند کی جانے والی زبان ہے، گاندھی نے اُس وقت کہا تھا کہ اُردو ہمیں پسند ہے، اور ہم اُردو بولنا بھی چاہتے لیکن اُردو کا رسم الخط عربی میں لکھے جاتے جو مسلمانوں کی قربت قرآن سے زیادہ کرتے ہیں اگر یہ رسم الخط ہندی میں ہوں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

باوجود اس کے ہم اُردو زبان کو دفتری اور سیاسی زبان کا درجہ دینے میں ناکام رہے، حال یہ ہے کہ ہماری سرکاری ویپ سائٹس اُردو زبان میں موجود نہیں، دنیا میں ہر ملک کی سرکاری ویپ سائٹس اُس کی قومی زبان میں موجود ہوتی ہیں۔ ہمارے سماج میں اپنی گفتگو میں انگریزی زبان کے استعمال کو تعلیم یافتہ ہونے کی سند سمجھا جاتا ہے، آج بھی ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر پیغامات کا سلسلہ رومن کے ذریعے ہے۔

دنیا کی ہر قوم اپنی قومی زبان پر فخر محسوس کرتی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی قومی زبان بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، عام عوام سے ہمارے حکمرانوں تک اپنی قومی زبان کے فروغ میں کوئی دلچسپی نہیں۔

اگر ہم نے قومی زبان کے فروغ کے لئے اقدامات نہ کیے تو ہماری تاریخ کٹ کے رہ جائے گی تحریک پاکستان میں اُردو زبان کا ایک کردار ہے، ہندوں کے ساتھ اختلافات کی ایک وجہ یہ زبان بھی ہے۔

ہمارے پاس ایسے بے شمار ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو اپنی قومی زبان پر فخر محسوس کرتے ہیں عالمی سطح پر اپنی زبان کو پیش کرتے ہیں۔

چین کے وزیراعظم کو انگریزی میں تقریر کرنے کو کہا گیا تو انھوں نے تاریخ ساز جملہ بول کر اپنی قوم کا سر فخر سے بلند کیا کہا ”چین بے زبان ملک نہیں ہے“۔ اُس جملے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ چین کی پہچان اُس کی زبان سے ہے۔

انگریزی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، موجودہ دور میں مغربی دنیا اپنی زبان کے ذریعے ہی ہم پر قابض ہے لیکن اُردو زبان سے ہماری تاریخ وابسطہ ہے جس زبان نے اقبال اور غالب جیسے شاعر دیے وہی زبان ہماری بے حسی کی وجہ سے وہ مقام حاصل نہ کر سکی جس کی یہ مستحق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments