چین کے ہم جنس پرست افراد نئے سال کے جشن سے کیوں گھبراتے ہیں؟


چین میں ہم جنس افراد کی ریلی

یہ چین میں قمری نئے سال کے جشن کا موقع ہے، بہت سے خاندانوں کے لیے نئے سال کا مطلب اپنے رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔

تاہم اس برس کا جشن چین میں پھیلی کورونا وائرس کی وبا کے باعث پھیکا پڑ گیا ہے۔ بہت سے لوگ ایسی صورت حال میں سفر نہیں کر رہے۔

حالانکہ چین میں ہم جنس برادری کے کئی افراد کے لیے ہر برس ہی نئے سال کے موقع پر یہ بڑا سوال ہوتا ہے کہ گھر کیسے جائیں۔ گھر جانے پر سخت سوالات اور شرمندہ کرنے والے الفاظ کی چوٹ کا خطرہ رہتا ہے۔

فلم ساز اور سماجی کارکن فین پوپو نے بتایا کہ ’کچھ والدین کے لیے بچے کے ہم جنس ہونے کا مطلب ہوتا ہے جیسے کہ ان کی دنیا ہی ختم ہو گئی ہو۔‘

فین نے بتایا کہ ’رشتہ دار ان سے سوال کرتے ہیں کہ وہ شادی کب کر رہے ہیں۔‘

چین میں ہم جنس پرستی کو دو دہائی سے زیادہ عرصے سے قانونی حیثیت حاصل ہے۔ 2001 میں چین کی تنظیم سوسائٹی آف سائکیٹری نے بھی اسے ایک ذہنی مرض کہنا بند کر دیا تھا۔

لیکن چین میں آج بھی ہم جنس افراد کا ایک دوسرے سے شادی کرنا غیر قانونی ہے اور چند ہم جنس افراد کو آج بھی قریبی رشتہ داروں سے برے سلوک کا سامنا ہے۔ خاص طور پر روایتی مواقع پر ان سے توقعات اور بڑھ جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’ویٹیکن ایک ہم جنس پرست ادارہ ہے‘

ہم جنس پرست افراد کی زبردستی شادیاں

اقوام متحدہ کے 2016 کے ڈیولپمینٹ پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین میں زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ہم جنس پرست افراد ہی اپنے گھر والوں خود کے ہم جنس ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں۔

شنگھائی میں رہنے والے ژی ژاو نے بتایا کہ ’بہت سے ہم جنس افراد کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دنیا کو اپنے بارے میں بتا سکے، لیکن بہت سے ایسے ہیں جو شدید خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ انہیں ہر وقت اس بات کی فکر رہتی ہے کہ کہیں ان کے رشتہ داروں کو ان کے بارے میں پتا تو نہیں چل گیا۔‘

بڑی کمپنیاں فائدے کے لیے حامی

گذشتہ چند برسوں میں متعدد بڑی کمپنیوں نے ہم جنس پرستوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم جنس پرست افراد کی حمایت ان کے کاروبار کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔

2015 میں چین کی سب سے بڑی ائی کامرس کمپنی علی بابا نے سات ہم جنس جوڑوں کو شادی کے لیے امریکہ بھیجا تھا۔ اس کے علاوہ سپورٹس سے متعلق اشیاء بنانے والی کمپنی نائیکی شنگھائی کی پرائڈ دوڑ میں حصہ لینے والوں کو ٹی شرٹ دیتی ہے۔

نائیکی کمپنی شنگھائی کی پرائڈ دوڑ میں حصہ لینے والوں کو ٹی شرٹ دیتی ہے

نائیکی کمپنی شنگھائی کی پرائڈ دوڑ میں حصہ لینے والوں کو ٹی شرٹ دیتی ہے

لندن سکول آف اکانومکس میں اسوسئیٹ پروفیسر ٹم ہلڈبرانٹ کا خیال ہے کہ چین میں بڑی کمپنیاں ہم جنس پرستوں کی حمایت کر کے اسی طرح فائدہ اٹھا رہی ہیں جس طرح مغربی ممالک میں ہوا۔

انھوں نے بی بی سی سے کہا کہ ’گلابی رنگ کا چینی لباس یوان ہم جنس برادری پر توجہ مرکز کرنے کی ایک وجہ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو لگتا ہو کہ ہم جنس افراد سے پیسے کمانا اچھی بات ہے، لیکن یہ تو طے ہے کہ اس سے ہم جنس برادری کو اپنی شناخت حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب میں’ہم جنس شادی‘ کی ویڈیو پر گرفتاریاں

سربیا کی پہلی ہم جنس پرست وزیراعظم

جنوری کے آغاز میں علی بابا کی ہی ایک اور شاپنگ ویب سائٹ ٹی مال پر نئے سال سے وابستہ ایک اشتہار جاری کیا گیا جس میں ایک ہم جنس جوڑے کو دکھایا گیا تھا۔

ویڈیو میں ایک شخص اپنے ایک مرد دوست کو نئے سال کے موقع پر کھانے کے لیے گھر ساتھ لے کر آتا ہے۔ جب اس دوسرے شخص کو لڑکے کے والد سوپ دیتے ہیں تو وہ ان کا شکریہ انہیں ’ابو‘ بلا کر کرتا ہے، اسی طرح جیسے شادی شدہ جوڑوں میں بہو یا داماد کرتے ہیں۔

یہ اشتہار سوشل میڈیا پر خوب پسند کیا گیا اور وائرل ہو گیا۔

لیکن فرین کا خیال ہے کہ یہ سماجی سطح پر ہونے والی تبدیلی سے زیادہ گاہکوں کو اپنی طرف رجوع کرنے کی کوشش ہے۔

انھوں نے کہا ’انہیں ہم جنس افراد کے مسائل سے کوئی لینا دیا نہیں۔ انہیں پتا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسے ہیں، اور انہیں یہ پیسے چاہئیں۔‘

ژی اس بات سے خوش ہیں کہ کم از کم ایک ہم جنس جوڑا اشتہار میں دکھایا تو جا رہا ہے۔

چین میں ہم جنس افراد کی ریلی

انھوں نے کہا کہ عوام کمپنیوں کو یہ بتانے میں دیر نہیں کرتی ہے کہ انھوں نے غلطی کر دی ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں غلطی کرنے پر فوری طور پر رد عمل سامنے آتا ہے۔

ہم جنس پرستوں کی شادی کی حمایت

چین میں ہم جنس پرستی کو سماج میں جیسے جیسے قبول کیا جانے لگا، ان کی شادی کی حمایت کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔

گذشتہ برس دسمبر میں نیشنل پیپلز کانگریس کے قانونی معاملات کے کمیشن نے کہا تھا ہم جنس پرستوں کو شادی کی آزادی کا مطالبہ چینی عوام کی جانب سے آنے والی درخواستوں میں سب سے زیادہ عام ہے۔

اس غیر معمولی بیان سے ہم جنس پرستوں کے حامیوں میں نئی امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب انہیں اس فیصلے کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع پر بہت بحث ہوئی۔

ایک خاتون نے چین کی مائیکرو بلاگنگ سائٹ ویبو پر لکھا کہ ’بہت سے ایسے افراد ہیں جو ہم جنس پرستوں کو سمجھ نہیں سکتے، انہیں برداشت نہیں کر سکتے۔ جب یہ ملک انہیں قانونی حیثیت دے گا تو ان لوگون میں بھی انہیں قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔‘

اسی طرح کسی ایک صارف نے لکھا تھا کہ ’ہم جنس پرستوں کی شادی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، لیکن موجودہ صورت حال ہم جنس پرستوں کو ضرور تکلیف پہنچا رہی ہے جو ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ چین میں ہم جنس پرستوں کی شادی کے قانون کی حمایت کی جانی چاہیے۔‘

لیکن ہلڈڑبرانٹ کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر کہی جانے والی باتیں عوامی جذبات کی اصل عکاسی نہیں کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ باتیں ہم جنس پرستوں کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنان کرتے ہیں جو اس مہم کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

ملک میں ہم جنس برادری کے لیے حمایت میں اضافے کے باوجود قمری نئے سال کا موقع ان کے لیے بہت مشکل وقت ثابت ہوتا ہے۔ یہ متعدد ہم جنس پرستوں کے لیے شدید ذہنی دباؤ کا وقت بن کر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp