سمیع چوہدری کا کالم: ’بابر اعظم آج اطمینان سے سو سکتے ہیں‘


سرد رُتوں کے تھکے مسافر بالآخر جب منزل پہ پہنچتے ہیں تو یکبارگی دل میں ایک گہرا سکون اتر آتا ہے اور روح تک مسکرا اٹھتی ہے۔

یہ ٹیم بھی سرد اور خشک رُتوں کی ماری ہوئی تھی۔ کوئی وہ دن تھے کہ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو ہرانا دیوانے کا خواب ہوا کرتا تھا۔ نہ کسی کو شاداب خان کی گگلی سمجھ آتی تھی نہ ہی حسن علی کے کٹرز۔

عماد وسیم اپنی جگہ ایک معمہ تھے اور بابر اعظم کا سٹروک پلے بڑے سے بڑے کپتانوں کے طوطے اڑا دیتا تھا۔ اور کجا یہ دن کہ کوئی سیریز جیتے ہی سال سے اوپر ہو گیا۔

سمیع چوہدری کے مزید کالم

وہ فیصلہ جس نے آج لاہور میں ’پاکستان کی لاج رکھ لی‘

مصباح کا ‘ٹرائل اینڈ ایرر’ کہاں تک چلے گا؟

’مگر پی سی بی جیت گیا۔۔۔‘

اس دور میں بابر اعظم ٹی ٹونٹی کے شاطر ترین بلے باز تھے اور اپنے ساتھ ساتھ رینکنگ میں پاکستان کو بھی پہلے نمبر پر لے آئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل مصباح نے ٹی ٹونٹی میں پاکستانی کارکردگی کا تجزیہ یہی کیا تھا کہ اکیلے بابر اعظم کی کارکردگی نے پاکستان کو نمبر ون ٹیم بنایا تھا۔

یہ بات خاصی حد تک درست یوں تھی کہ ٹیسٹ ہو یا ٹی ٹوئنٹی، ہدف کا تعاقب کر کے جیتنا کبھی بھی پاکستان کا خاصہ نہیں رہا۔ سرفراز احمد کی کپتانی میں یہ رجحان پہلی بار بدلا۔

اس رجحان کے بدلنے میں بابر اعظم کی خواب کن فارم اور فخر زمان کی جارحیت اپنی جگہ، مرکزی کردار بولرز کا رہا تھا۔ چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی فتح پہ اظہر محمود نے بہت خوبصورت جملہ کہا تھا کہ بلے باز میچ جتواتے ہیں جبکہ بولر آپ کو ٹورنامنٹ جتواتے ہیں۔

حسن علی، محمد عامر، شاداب خان اور عماد وسیم کی شکل میں پاکستان کے پاس چار ایسے مہرے تھے کہ جن کی چال پلٹنا نہ تو ولیمسن جیسے لگے بندھے کپتانوں کے بس میں تھا نہ ہی ایرون فنچ جیسے جارح مزاجوں کے۔

مگر جب سٹارڈم کی چکا چوند اور پے درپے فتوحات نے ایک بار پھر اصلی پاکستانی کرکٹنگ کلچر عیاں کیا تو وہی ہوا جو نوّے کی دہائی میں تواتر سے ہوا کرتا تھا۔

جیتتے جیتتے ٹیم اچانک ہارنے کی ڈگر پر چل پڑی۔

کچھ سٹارز کرکٹ کے میدان سے زیادہ فیس بک اور ٹوئٹر کے محاذ پر مشہور ہو گئے۔ رنگ برنگی سیلفیاں مارکیٹ میں آنے لگیں اور اول فول قسم کے سکرین شاٹ ویب صفحات کی زینت بننے لگے۔

سٹمپس کے پیچھے کھڑے سرفراز بس چِلاتے رہ گئے۔ ماضی کے برعکس اب ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی بولرز کے کان پر جوں تک کو متحرک نہ کر سکی۔

حسن علی پہلے جیسے بولر نہ رہے۔ شاداب خان پھیکے پڑ گئے اور عماد وسیم محض ایک محفوظ چال بن کر رہ گئے۔

بابر اعظم مگر واحد سٹار تھے جو نہ تو شیمپو بیچنے گئے نہ ہی سوشل میڈیا پر گھوڑے دوڑانے، وہ اس دوران بھی اوپر تلے رنز کے ڈھیر لگاتے رہے لیکن ان کے اردگرد کی ساری دنیا بکھر چکی تھی۔

انہی حالات میں جب ٹیم کی قیادت بھی بابر کو دے دی گئی تو پہلا خطرہ یہ تھا کہ کہیں ہابر کا خوف کپتانی کے دباؤ کی شکل میں نہ نکلے اور یہ ہو کہ بلا بھی سست پڑ جائے۔ مگر پہلی ہی سیریز میں یہ تو واضح ہو گیا کہ کپتانی کے عہدے نے بابر کے اعتماد میں اضافہ ہی کیا، کمی نہیں کی۔

آج کے میچ میں بابر اعظم کی کپتانی بھی ان کی بیٹنگ کے جیسی نکلی، سیدھی، صاف اور واضح۔

بابر اعظم کی کپتانی میں کوئی اضافی ڈرامے نہیں ہیں۔ کل کے میچ میں وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں کنفیوز نظر آئے تھے۔ مگر آج کے بابر اعظم ایک ایک چینج اور فیلڈ پوزیشن کے بارے ذہنی طور پر بالکل ہشاش بشاش اور واضح پلاننگ سے چلتے نظر آئے۔

بولرز نے وکٹ کو بھر پور استعمال کیا اور بابر نے اس ڈسپلن کو منظم جارحیت میں بدلا۔

یہ وکٹ کل سے بہت بہتر تھی۔ اس میں باؤنس متوازن تھا اور رنز بنانے کے مواقع بھی موجود تھے۔ یہ کوئی بنگلہ دیش کی قسمت خراب نہیں تھی، دراصل پاکستان نے بولنگ ہی اتنی شاندار کی کہ کسی بنگلہ دیشی بلے باز کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے۔ شاہین شاہ آفریدی نے لائن لینتھ کے ڈسپلن کا کمال مظاہرہ کیا۔

ان سے بھی زیادہ متاثر کن فارم میں دکھائی دئیے محمد حسنین، جنھوں نے پورے پلان سے بلے بازوں کو کریز میں پچھلے قدموں باندھے رکھا۔ جب بولر ایسا ڈسپلن دکھا چھوڑیں تو بیٹنگ لائن کا خون خود ہی سیروں بڑھ جاتا ہے۔

بابر اعظم کل بھی بہت خوشی کی نیند سوئے ہوں گے، آج یقیناً وہ شاہانہ اطمینان سے سو سکتے ہیں۔ ان کے بولرز نے ان پہ اعتماد کرنا سیکھ لیا ہے۔ رہی بات بیٹنگ لائن کی، تو پہلے ہی دنیا بابر پر اعتماد کر چکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp