ٹرمپ کا مواخذہ: ’ڈیموکریٹک انتخابات کے نتائج الٹنا چاہتے ہیں،ٹرمپ کے وکلا


ٹڑمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے مقدمے میں ان کا دفاع کرنے والی وکلا کی ٹیم نے ڈیموکریٹک رہنماؤں پر الزام لگایا کہ وہ دو ہزار سولہ کے انتخابی نتائج کو الٹنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈیموکریٹک رہنماؤں پر الزامات کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ہے جو وہ اب تک پوری نہیں کر سکے ہیں۔

امریکہ کی تاریخ میں یہ تیسری مرتبہ ہو رہا ہے کہ کسی صدر کو مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ وائٹ ہاؤس کونسل پیٹ سیپولونی نے دفاعی بحث کا آغاز آج بہت ہی نپے تلے الفاظ میں کرتے ہوئے کہا کہ ‘صدر نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔’

انھوں نے ڈیموکریٹک رہنماؤں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ آپ سے گذشتہ انتخابات کے نتائج الٹنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ صدر ٹرمپ کو تقریباً نو ماہ میں ہونے جا رہے انتخابات میں حصہ نہ لینے دیں۔’

سیپولونی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مواخزے کے ‘ملک کے لیے نتائج’ اچھے نہیں ہوں گے۔

انہون نے سینیٹ سے کہا کہ ‘ڈیموکریٹز آپ سے وہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں جو کسی بھی سینیٹ نے آج سے پہلے کبھی نہیں کیا اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر۔’

یہ بھی پڑھیے

’صدر ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات غیرقانونی اور شرمناک ہیں‘

’صدر ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات غیرقانونی اور شرمناک ہیں‘

صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیسے ہو پائے گا؟

ٹڑمپ کے مواخزے کا مقدمہ

اس سے قبل ماضی میں دو امریکی صدور، اینڈریو جانسن اور بل کلنٹن کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی جبکہ تیسرے صدر رچرڈ نکسن مواخذے کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے تھے۔

امریکی جمہوری نظام کے ماہرین کی نظر میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ صدر کے مواخذے کے لیے ضروری ہے کہ دو تہائی ممبران اس کی حمایت میں ووٹ ڈالیں جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اور اس طرح یہ کارروائی وہیں رک جائے گی۔

ایک جانب ڈیموکریٹک پارٹی پر الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کرنے کا مسلسل دباؤ ہے تو دوسری جانب صدر ٹرمپ کا دفاع کر رہے وکلا کو ڈیموکریٹک پارٹی کی بحث کو کمزور اور ناکافی ثابت کرنا ہے۔

صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور کانگریس کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین کے سربراہ پر گذشتہ سال 25 جولائی کو ایک فون کال کے دوران آئندہ انتخابات میں اپنے ممکنہ ڈیموکرٹک حریف جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ صدر ٹرمپ اس الزام سے تردید کرتے ہیں۔

امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی صدر کو مواخذے کی کارروائی کے نتیجے میں عہدہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔

ڈپٹی وائٹ ہاؤس کونسل مائیک پرپرا نے ڈیموکریٹک رہنماؤں کی بحث میں شامل تین الفاط ‘دو طرفہ مفادات’ کو بھی ہدف بنایا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کا الزام ہے کہ یوکرین کے صدر کا دورہ ٹرمپ کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچانے کی شرط پر مشتمل تھا۔

ٹرمپ کے مواخزے کا مقدمہ

پرپرا نے مقدمے کی سنوائی کے دوران کہا کہ ‘یوکرین کے صدر زیلینسکی پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ وہ یہ بات خود کہتے ہیں۔ تو کیا ڈیموکریٹک جماعت یہ کہہ رہی ہے کہ صدر زیلینسکی اور ان کے مشیر جھوٹ بول رہے ہیں؟’

یہ بھی پڑھیے

ٹرمپ کے مواخذے پر ایوانِ نمائندگان میں ووٹنگ آج

صدر ٹرمپ کے مواخذے سے متعلق دو الزامات منظور

انھوں نے سوال کیا کہ ‘بتائیے اپنے دوستوں کے بارے میں ایسی بات کرنا امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے لیے کس طرح حق میں ہے۔’

مواخذہ ہے کیا؟

اس معاملے میں ‘مواخذے’ کا مطلب ہے کہ صدر کے خلاف الزامات کانگرس میں لائیں جائیں جو ان کے خلاف مقدمے کی بنیاد بنیں گے۔

امریکی آئین کے مطابق ‘صدر کو مواخذے کے ذریعے عہدے سے اس صورت میں ہٹایا جا سکتا ہے جب انہیں بغاوت، رشوت ستانی، کسی بڑے جرم یا بد عملی کی وجہ سے سزا دینا درکار ہو۔’

مواخذہ کی کارروائی ایوانِ نمائندگان سے شروع ہوتی ہے اور اس کی منظوری کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس کا مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔

یہاں صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور امریکی تاریخ میں یہ سنگ میل کبھی عبور نہیں ہوا۔

ٹرمپ کے مواخزے کا مقدمہ

کس کا مواخذہ کیا گیا؟

اگرچہ کئی مواقع پر مواخذے کی دھمکیاں ملتی رہیں لیکن آج تک دراصل صرف دو امریکی صدور کا مواخذہ ہوا۔

ماضی قریب میں صدر بل کلنٹن جو کہ بیالیسویں امریکی صدر تھے جن کا انصاف کی راہ میں حائل ہونے، مونیکا لیونسکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں جھوٹ بولنے اور مبینہ طور پر انہیں بھی جھوٹ بولنے پر اکسانے کے الزام میں مواخذہ ہوا۔

ایوان نے پہلے الزام پر 228 میں سے 206 ووٹوں کے ساتھ مواخذے کی حمایت کی جبکہ دوسرے الزام پر 221 میں سے 212 لوگوں نے حمایت کی۔

یہ بھی خیال رہے کہ دسمبر 1998 میں بل کلنٹن کی بطور صدر توثیق کی شرح 72 فیصد تھی۔

تاہم جب 1999 میں یہ معاملہ سینیٹ تک پہنچا تو حکم نامہ کی منظوری کے لیے دو تہائی حمایت حاصل نہ کر سکا۔

اس وقت ایک تجزیے میں بی بی سی نے لکھا ‘صدر کو ہٹانے کی اپنی بے قراری میں انھوں نے یہ سوچنا ترک نہیں کیا کہ کیا ان الزامات کو ثابت کیا جا سکے گا؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp