پچھلے بينچ پر بیٹھا ہوا شخص


ويران شہر کے زبوں حال ريلوے اسٹيشن کے ملبے سے گزر کر، میں پليٹ فارم پر پہنچا۔ وہاں اتنا ملبہ نہیں تھا اور ريلوے ٹريک بالکل صاف تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ، “اس شہر سے آخری ٹرين نصف صدی قبل روانہ ہوئی تھی، جس کے بعد پھر دوبارہ کوئی ٹرین اس شہر میں نہیں آئی…” مگر ریلوے ٹریک کی پٹریاں یوں چمک رہی تھیں جیسے ان پر سے روزانہ جانے کتنی ٹرينیں گزرتی رہی ہوں۔

میں نے پليٹ فارم کے دونوں اطراف دیکھا۔ خستہ حال چائے خانے کے چولہے میں آگ جل رہی تھی۔ چولہے پر چڑھے برتن میں چائے ابل رہی تھی مگر چائے خانے کوئی موجود نہ تھا۔ میں بہت تھک چکا تھا۔ چائے کی طلب بھی محسوس ہورہی تھی۔ میں چائے خانے کے قریب گیا اور اندر جھانک کر دیکھا لیکن وہاں کوئی شخص نظر نہ آیا۔

میں پليٹ فارم کے ایک گوشے کی سمت دیکھ کر زور سے پکارا، ” کوئی ہے….؟”

چند لمحے انتظار کیا مگر کوئی جواب نہ آیا۔

میں نے پليٹ فارم کے دوسری سمت جاکر پکارا، “کوئی ہے…؟”

میں نے چند لمحے انتظار کیا مگر اس بار بھی کوئی جواب نہ آیا۔

میں نے چائے خانے میں اندر جاکر جوش کھاتی چائے میں سے ایک کپ بھرا اور پليٹ فارم پر موجود بينچ پر جا بیٹھا

چائے پی کر خالی کپ بينچ پر رکھا تو اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ میں نے چائے کے پیسے اور خالی کپ اس کی طرف بڑھایا تو مسکرا کر بولا، “میں چائے والا نہیں، میں تو خود ایک مسافر ہوں اور آپ سے یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ، کیا ٹرين تاخیر کا شکار ہے؟”

میں نے حيرت سے جواب دیا، “لیکن مجھے تو انسانوں سے خالی ويران شہر کے آخری رہائشی بوڑھے شخص نے بتایا ہے کہ، اس شہر کا یہ ريلوے اسٹيشن کئی برس پہلے منہدم ہوکر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا. اس شہر سے آخری ٹرين بھی نصف صدی قبل روانہ ہوئی تھی، جس کے بعد دوبارہ کوئی ٹرین اس شہر میں نہیں آئی۔۔۔!”

میرے سامنے بیٹھے شخص نے جواب دیا، “وہ بوڑھا شخص جھوٹ بولتا ہے اس کا کام ہی مسافروں کو ورغلانا اور پھانس کر مارنا ہے!”

میں نے اپنے وجود میں دہشت کی لہر سرایت ہوتے محسوس کی۔

اس شخص نے بينچ پر بیٹھتے ہوئے کہا، “اس اسٹیشن سے تمام ریل گاڑیاں روزانہ اپنے مقررہ وقت پر گزرتی ہیں۔”

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر میرا ان پراسرار حالات سے واسطہ کیوں پڑ رہا ہے!

اس نے پوچھا، “آپ کو کہاں جانا ہے؟”

میں نے اپنے شہر کا نام بتانے کے بعد اس سے پوچھا، “آپ کہاں جائیں گے؟”

اس نے سگريٹ سلگاتے ہوئےجواب دیا، ” اس شہر میں میرا کام تکمیل کو پہنچا. اب مجھے جہاں جانے کا حکم ہوگا، وہاں چلا جاؤں گا۔”

مجھے اس کی بات سمجھ نہ آئی۔ پوچھا، “آپ ایسا کون سا کام کرتے ہیں جو اس شہر میں پورا ہوگیا اور اب…”

اس نے میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی سگريٹ کا دھواں میرے چہرے پر چھوڑتے ہوئے کہا، “میں انسانوں کو مارنے کا کام کرتا ہوں۔ آباديوں کو ويرانوں میں تبدیل کردیتا ہوں۔ اس شہر کے بعد اب مجھے جہاں کا حکم ملے گا، وہاں چلا جاؤں گا.”

میں ششدر رہ گیا۔

خوف کی ایک سرد لہر میرے پورے وجود میں سرایت گئی۔ دہشت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے وہاں سے اٹھ کر، اس سے دور ہٹ کر کہیں اور جگہ بیٹھنے کا قصد کیا۔ دفعتاً اس کے موبائل کی بیل بجی اور وہ بات کرنے کی غرض سےخود ہی اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔

میں نے اپنے موبائل فون سے اپنے شہر کے پوليس چيف کو کال کی۔ پوليس چيف نے مجھ سے اس شخص کے حلیے سے متعلق معلومات لینے کے بعد کہا، “پوليس کو کافی عرصہ سے اس مجرم کی تلاش ہے۔ یہ علاقہ میری حدود میں تو نہیں آتا مگر آپ اطمینان رکھیں۔ کہیں اور مت جائیے گا، وہیں موجود رہیے گا۔ بہت جلد قریبی علاقے کی پولیس وہاں پہنچ جائے گی۔”

وہ شخص فون پر گفتکو کرتا واپس آیا اور میرے عقب میں موجود بینچ پر دوسری طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک پوليس افسر اپنی فورس سمیت ريلوے پليٹ فارم پہنچ گیا۔ فورس کے کئی جوان دوڑتے ہوئے ہماری سمت آنے لگے، مگر وہ شخص بڑے اطمینان سے میرے عقبی بینچ پر بیٹھا رہا۔

فورس کے جوانوں نے قریب آتے ہی مجھ پر اسلحہ تان کر مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ پوليس افسر نے مجھے ہتھکڑی پہنائی تو میں نے حواس باختہ لہجے میں استفسار کیا، “مجھے کیوں گرفتار کر رہے ہیں!؟”

پوليس افسر نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر میری آنکھوں کے سامنے لہرائی ،”ہم بہت وقت سے تمہاری تلاش میں تھے!”

میں شدید وحشت زدہ ہوکر چلایا، ” لیکن یہ تصوير تو اس شخص کی ہے جو میری عقبی بینچ پر بیٹھا ہے!”

پوليس افسر میری بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا، “میں نے اپنی زندگی میں پہلا مجرم دیکھا ہے جو خود اپنی شکل پہچاننے سے انکار کر رہا ہے!”

میں نے حیرت سے پوچھا، “آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟”

 پوليس افسرنے طنزیہ انداز میں جواب دیا، “میں جیب میں آئينہ رکھ کر نہیں گھومتا کہ آئینے میں تمہیں تمہاری شکل دکھا سکوں!”

یہ کہہ کر پوليس افسر نے یکا یک اپنے موبائل فون سے میری تصویر بنا کر مجھے دکھائی تو میں حیرت سے اچھل پڑا۔ تصویر میں شرٹ تو میری تھی لیکن چہرہ عقبی بینچ پر بیٹھے شخص کا تھا۔۔۔!

(سندھی سے ترجمہ: آکاش مغل )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments