خطرناک وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے: چینی صدر


چین

شی جن پنگ

چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ خطرناک وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے ہو رہا ہے۔

انھوں نے یہ بات نئے چینی سال کے موقع پر عام تعطیل پر منعقدہ حکومت کے خصوصی اجلاس کے موقع پر کہی۔

اعلیٰ حکام سے گفتگو میں صدر نے کہا کہ ملک بہت خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔

چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی دریافت کے نتیجے میں اب تک کم ازکم 42 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 1400 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

ادھر برطانیہ میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چین ممکن ہے کہ چین اس وائرس کو کنٹرول نہیں کر سکے گا۔

بہت سے متاثرہ شہروں میں سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اتوار سے نجی گاڑوں کو بھی ووہان کے مرکزی اضلاع نقل و حرکت نہیں کرنے دی جائے گی یہی علاقہ اس وائرس کا مرکز ہے۔

مزید پڑھیے

کورونا وائرس: چین میں مزید سفری پابندیاں عائد

کیا ماسک آپ کو کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

چین کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی کا کہنا ہے کہ ایک دوسرا ایمرجنسی ہسپتال ایک ہفتے میں بنایا جائے گا تاکہ وائرس سے متاثرہ 1300 نئے افراد کا علاج کیا جا سکے اور اسے آدھے مہینے میں ختم کر دیا جائے گا۔

یہ تیزی سے ہونے والا دوسرا تعمیراتی کام ہے۔ اس سے پہلے 1000 بستروں والا ہسپتال بنایا جا چکا ہے۔

فوج کی خصوصی طبی ٹیمیں ہوبئی صوبے میں پہنچ گئی ہیں جہاں ووہان واقع ہے۔

یہ وائرس جو دسمبر میں نمودارہوا تھا کے حوالے سے چین اور دیگر جگہوں پر پائے جانے والی تشویش ہنگامی صورتحال سے ظاہر ہو رہی ہے۔

چین میں نئے سال کی آمد کے موقع پر تقاریب اور جشن بہت سے شہروں میں سنیچر کو کینسل کر دیا گیا تھا۔

بہت سے شہروں میں ٹرین سروس معطل کر دی گئی ہے اور چین کے مرکزی حصوں میں سفر کرنے والے مسافروں کے جسم کے درجہ حرارت کو چیک کیا جا رہا ہے تاکہ کسی میں بھی ممکنہ طور پر بخار کی علامات کو جانچا جا سکے۔

ہانگ کانگ میں اعلیٰ درجے کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے اور سکولوں کی تعطیلات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

بہت سی دیگر اقوام میں بھی کچھ کیسز سامنے آئے ہیں اور متاثرہ مریضوں کو تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر ووہان کے رہائشیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ شہر سے نہ نکلیں۔ اسی دوران مقامی افراد کی جانب سے غذائی قلت کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

کورونا وائرس کیا ہے اور اس نے کیا کیا ہے؟

کورونا وائرس کا تعلق وائرسز کے اس خاندان سے ہے جس کے نتیجے میں مریض بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔

لیکن یہ وائرس اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا۔

چین

نئے وائرس کا مختلف جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونا عام ہو سکتا ہے۔

سنہ 2003 میں چمگادڑوں سے شروع ہونے والا وائرس بلیوں سے مماثلت رکھنے والے جانوروں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں تک پہنچا اس سے ان سب کا سے نظام تنفس شدید متاثر ہوا۔

یہ نیا وائرس بھی سانس کے نظام کو متاثر کر رہا ہے۔

اس وائرس کی علامات بخار سے شروع ہوتی ہیں جس کے بعد خشک کھانسی ہوتی ہے اور پھر ایک ہفتے کے بعد مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور کچھ مریضوں کو ہسپتال منتقل ہونا پڑتا ہے۔

اس سے بچاؤ کے لیے نہ تو کوئی ویکسین ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص علاج ہے۔

ابتدائی اطلاعات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متاثرین میں سے صرف ایک چوتھائی ایسے تھے جو شدید متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں میں خصوصی طور پر تو نہیں لیکن زیادہ تر ایسے تھے جو بوڑھے مریض تھے جو پہلے سے کسی طور پر بیماری کی صورتحال کا سامنا کر رہے تھے۔

چینی حکام کو سمندری غذا کی منڈی پر شبہ ہے کہ وہاں میں جنگلی جانوروں کے غیر قانونی لین دین سے یہ وبا پھوٹی ہے۔

وائرس

احتیاطی تدابیر

ہانگ کانگ یونیورسٹی میں شعبہ پبلک ہیلتھ کے صدر گیبرئیل لیونگ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔

اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں اور اپنے ناک یا چہرے کو مت رگڑیں۔

احتیاط کریں اور باہر جاتے ہوئے ماسک پہن کر رکھیں۔

پرہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں۔

اگر آپ نے چین کے شہر ووہان کا سفر کیا ہے تو اپنا طبی معائنہ ضرور کرائیں۔

اپنے ڈاکٹر سے ہرگز یہ بات مت چھپائیں کہ آپ نے ووہان کا سفر کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp