حکمرانوں کے دعوے اور معیشت


 محمد وقار

\"waqar-butt\"

کہنے کو تو کچھ مشکل نہیں، کہ پاکستان معاشی لحاظ سے استحکام آوری کی جانب گامزن ہے۔ مگر در حقیقت دل کو بہلانے کے لیے، یہ خیال اچھا ہے۔ کہتے ہیں خداداد ریاست پر جب بھی اچھا وقت آنے لگا، آمریت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور پھر اسے کنگال کر کے ترقی کے زینے سے تنزلی کی جانب دھکیل دیا۔ لیکن معاشی طور پر مکمل مستحکم ہوتا ملک کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اس بات کے داعی تو سب ہوتے ہیں، کہ ملک آگے بڑھنے والا تھا، مگر ایسا کوئی نہیں جو کہے، ملک ترقی کی پٹری پر چڑھ چکا تھا۔ تمام ادوار ہی پس ماندگی کا پیش خیمہ رہے۔ اب کہا جارہا ہے، کہ اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آگئی ہے۔ رفتہ رفتہ معیشت تن آور ہو رہی ہے، اور پاکستان دوبارہ تعمیر ہونے جا رہا ہے۔ وزیرِ خزانہ اپنے من گھڑت اعزازات کا پرچار کروا کر اپنے آپ کو بہترین وزیرِ خزانہ کہلواتے نہیں تھک رہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان ملک میں لانے والی خوشحالی کی داستانیں سناتے شرما نہیں رہے۔ ان کے نزدیک آلو کی قیمت میں کمی بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جب کہ اس چھوٹی سی بات میں بھی جھوٹ پیش پیش ہے، کہ کسانوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ وہ آئے دن احتجاج کر رہے ہیں۔

انہیں جواب یہ ملتا ہے کہ بھارت سے زیادہ سبسڈی انہیں دی جارہی ہے۔ یعنی معیارِ موازنہ وہ ملک ہے، جو خود حقوق سلب کرنے کے اعتبار سے بدنام ہے۔ 2018ء میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ وزیرِ اعظم نے کیا، جس کی نفی نیپرا نے کی کہ ایسا ممکن ہی نہیں، کہ لوڈشیڈنگ پر اتنی قلیل مدت میں قابو پایا جاسکے۔ وزیرِ اعظم کو مغالطہ ہے کہ عوام کو جو کہانی سنائی جائے گی، وہ اسے پتھر پر لکیر جانیں گے۔ پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کی نوید بھی سنائی جارہی ہے۔ نواز شریف کو خفتہ خیالی سے باہر نکل کر یہ کہنے کا خیال آیا، تو صحت پروگرام کے اجرا کے وقت فرما رہے تھے، کہ چاہے آدھا بجٹ لگانا پڑے، لگائیں گے۔ مگر موصوف یہ بھول گئے کہ مالیاتی \’گیپ\’ پہلے ہی متاثرہ روپ دھارے ہوئے ہے، اور فقط تسلیاں عوام کے مسائل کا حل پیش نہیں کرتیں۔ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ کا گزشتہ سالوں کی نسبت بلند ترین سطح پر آجانے کا واویلا کیا جارہا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں قابلِ ستائش کمی واقع ہوئی ہے، مگر حیف کہ یہ محض دکھلاوا ہے۔ یہ ایک زعم ہے جو سادہ و معصوم عوام کے ذہنوں میں ہے، کہ شاید غریب کی سنی جانے والی ہے۔ مجھے نہایت استعجاب کے ساتھ اس پہلو کو بھی سامنے لانا پڑرہا ہے، کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کا بہت بڑا قرضہ لے چکا ہے، اور مستقبل کی حکمتِ عملی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر دوسرے قرضے اتارے جارہے ہیں۔

خیر یہ بات تو صحیح ہے، چاہے تاثر ہی سہی، لیکن بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ پاکستان کی طرف مرکوز ہو رہی ہے اوران کا خیال ہے کہ پاکستان میں نیم معاشی اصلاحات متوقع ہو سکتی ہیں، جو بہت خوش آئند ہے۔ تاہم اپنے کارناموں کے ڈنکے بجانے سے بہتر ہے کہ پچیدہ صورتحال کو اسحاق ڈار پوری طرح بھانپیں، اور کچھ ایسا کریں جسے اصلاح کا زینہ طے کیا جا سکے۔ ٹیکس نیٹ بڑھا کربھی وہ ثمرات سامنے نہیں آسکے جو متوقع تھے، کیونکہ بڑے مگر مچھ اس سے عاری قرار پائے اور نادہندگی پر ڈھٹائی سے کاربند رہے۔ سعودی عرب سے ملا تحفہ ڈیڑھ ارب ڈالر بھی فارن ایکسچینج میں لگ چکا، اور اب 2018ء تک ساٹھ فی صد قرض میں کمی لانا مقصود ہے۔ جس کے لیے بھی حکومت قرضہ پالیسی ہی کا تعاقب کرے گی۔ پاک چائنا کوریڈور کی بات کی جائے تو اسے پنجاب چائنا کوریڈور کے مفروضوں سے پکارا گیا۔ کیونکہ جب نواز شریف اقتدار میں آتے ہی چین کے دورے پر گئے تھے، تو بلوچستان میں گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کا فیصلہ ہوا تھا۔ جسے بعد میں پراجیکٹ سے نکال دیا گیا۔ پھر مغربی روٹ جو کے پی کے میں ہے، وہاں راہداری منصوبے کا جو ترقیاتی کام ہونا تھا اس کا بھی ایک بڑا حصہ نکال دیا گیا، جس سے یہ شائبہ ہوا کہ اس کا ارتکاز پنجاب کی طرف زیادہ ہے۔ پاک چائنا کوریڈور یقیناً گیم چینجر ہے، لیکن اس کی تکمیل ضروری ہے، اسے سبوتاژ کرنے والے عناصر کا خاتمہ وقت کی مانگ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments