ہولوکاسٹ: پولینڈ میں قائم بدنام زمانہ نازی حراستی کیمپ میں اپنے نانا کی تلاش


آشویٹز، یہودی، ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی، پولینڈ، عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، ہٹلر

میرے نانا میار نیویگ آشوٹز کے کیمپ میں اپنے قتل سے ایک سال پہلے ہی باپ بنے تھے

پولینڈ میں نازیوں کا آشوٹز برکیناؤ حراستی کیمپ جنوری میں بالخصوص اور بھی تاریک محسوس ہوتا ہے۔ میرے نانا کو یہاں قتل کیا گیا تھا اور میری والدہ کو اس کیمپ کا دورہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونے میں کئی دہائیاں لگیں۔

میار نیویگ اُن لگ بھگ 11 لاکھ افراد میں سے تھے جنھیں اس کیمپ کے بدنامِ زمانہ مرکزی ٹاور کے نیچے قتل کر دیا گیا تھا۔ مارے جانے والے 11 لاکھ افراد میں تقریباً 10 لاکھ یہودی تھے۔ جب میرے نانا کو قتل کیا گیا تو اس وقت میری والدہ انتہائی کمسن تھیں اور اپنے پیروں پر چلنا سیکھ رہی تھیں اور اس لیے انھیں ان کے والد یاد نہیں ہیں۔

آشوٹز کیمپ کے قیدیوں کو آزاد ہوئے اب 75 سال بیت چکے ہیں۔ ہم وہاں اس قتل عام کی پچاس سالہ تقریب کے موقع پر گئے تاکہ اپنے نانا کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں جو کچھ ممکن ہو جان سکیں۔

ٹاور کے نیچے سے گزرتے ہوئے آپ کو یہاں سے گزرنے والے ریل کی پٹری دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جانوروں کے لیے بنائی گئی ریل کی بوگیوں کو انسانوں سے بھر کر یہاں لائی جا رہی ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیے

ہٹلر کی دیوانی ایک ہندو خاتون

نازی جرمنی: سرجری کی نایاب کتاب اور اخلاقی بحث

یہودی لڑکی نازیوں سے چھپنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

آپ کے دائیں جانب ٹریک کے ساتھ ہی قیدیوں کو رکھنے کے لیے بنائے گئے لکڑی کے چند اصطبل نما قدیم جھونپڑے اب بھی موجود ہیں۔ دوسری جگہوں پر ان کی نشاندہی باقی بچی کچھی اینٹوں کے ذریعے کی گئی ہے۔

آشویٹز، یہودی، ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی، پولینڈ، عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، ہٹلر

آشوٹز برکیناؤ (آشویٹز 2) میں ریلوے لائن سیدھی گیس چیمبر تک جاتی تھی جہاں لے جا کر قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا

کیمپ کو آزاد کروائے جانے سے چند ہفتے قبل نازی جرمنی نے قتل و غارت کی اس مشین کو توڑنا شروع کر دیا تھا۔ گیس چیمبر اور مردوں کو جلانے والی جگہیں بارودی مواد سے اڑا دی گئیں اور چند ہزار ریکارڈز کے علاوہ باقی سب ریکارڈز برباد کر دیے گئے۔

جہنم تک ٹرین کا طویل سفر

میرے نانا نیدرلینڈز سے مقبوضہ جنوبی پولینڈ میں واقع اس وسیع و عریض کیمپ میں آئے اولین لوگوں میں سے تھے۔

38 سالہ میار نیویگ کو جرمنی کے سرحد کے قریب واقع اپنے گھر سے 10 جولائی 1942 کو ٹرین پکڑ کر ویسٹربورک میں مرکزی ڈچ کیمپ پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔

پانچ دن بعد دو ٹرینوں سے جڑے جانوروں کی بوگیوں میں دو ہزار بچوں، مردوں اور عورتوں کو بھر کی ویسٹربورک سے آمس فورٹ میں قائم ایک اور ٹرانزٹ کیمپ تک لے جایا گیا۔

جولائی کی 17 تاریخ کو یہ ٹرینیں آشوٹز پہنچیں۔ اس وقت تک یہ ریلوے لائن برکیناؤ کے حراستی کیمپ تک نہیں جاتی تھی چنانچہ انھوں نے باقی راستہ پیدل چل کر مکمل کیا ہو گا۔

فوراً ہی 449 ڈچ یہودیوں کو زائکلون بی نامی ہائیڈروجن سائنائیڈ گیس سنگھا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

آشویٹز، یہودی، ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی، پولینڈ، عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، ہٹلر

آشوٹز برکیناؤ میں قیدیوں کے کیمپس کے آثار

دیگر افراد کچھ عرصہ مزید زندہ رہے اور میار نیویگ ان میں سے ایک تھے۔ ڈچ ریڈ کراس سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق ان کے بازو پر نمبر 47483 داغا گیا تھا۔

ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے نازی فارم پر جرمن زبان میں زرعی مزدور لکھا تھا۔ کام کے لیے موزوں تصور کیے جانے والے لوگوں سے اکثر غلامی کروائی جاتی چنانچہ اس سفید جھوٹ نے ان کی زندگی میں ایک ماہ اور ایک دن کا مزید اضافہ کر دیا۔ وہ مویشیوں کے تاجر خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک انشورنس ایجنٹ تھے۔

ریڈ کراس کے مطابق انھوں نے برکیناؤ میں مردوں کے کیمپ میں اپنے آخری دن بلاک 12 میں گزارے تھے۔ ہمارے پاس بس یہی معلومات تھیں۔

ایک تباہ شدہ شمشان گھاٹ کے پاس ہم مٹی پر بیٹھے ایک اور گروپ کے پاس جا بیٹھے اور آشوٹز سے بچ نکلنے والے مصنف ایلی ویزل کو سننے لگے جن کی والدہ اور بہن یہاں ہلاک ہوئیں تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ سچ ہے کہ تمام متاثرین یہودی نہیں تھے، لیکن تمام یہودی متاثرین تھے۔’

آنسو بہنے لگے اور غم کے وقت پڑھی جانے والی یہودی دعا ’کدیش‘ پڑھی گئی۔

اس سے پہلے کسی نے میرے نانا کے لیے ان کی ہلاکت کے مقام پر کدیش نہیں پڑھی تھی۔ صرف یہی چیز پورے سفر کا حاصل قرار پا سکتی تھی۔

آشویٹز، یہودی، ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی، پولینڈ، عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، ہٹلر

27 جنوری 1995 کی اس تصویر میں آشوٹز برکیناؤ کی تباہ کی گئی عمارت کا ملبہ دیکھا جا سکتا ہے

ہولوکاسٹ کے دوران ڈچ یہودیوں کا قتل

  • ہولوکاسٹ کے دوران ایک لاکھ 40 ہزار ڈچ یہودی آبادی میں سے ایک لاکھ دو ہزار ہلاک ہوئے
  • 220 ڈچ روما اور سِنٹی افراد نازیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے
  • 17 جولائی 1942 کو آشوٹز میں دو ہزار ڈچ یہودیوں کو لے کر دو ٹرینیں یہاں پہنچیں
  • 449 کو فوراً قتل کر دیا گیا جن میں اکثریت خواتین اور لڑکیوں کی تھی
  • 1251 مردوں اور لڑکوں کو 47088 سے لے کر 47687 تک کے نمبر الاٹ کیے گئے
  • 697 خواتین اور لڑکیوں میں سے 300 کو 8801 سے 8999 اور 9027 سے 9127 تک کے نمبر دیے گئے

بلاک 12 کی تلاش

ہم نے ایک ڈچ شخص میکس سے بات کی۔ باریش اور جھکے ہوئے کندھوں والے میکس پر واضح طور پر موقع کی مناسبت سے جذبات کا غلبہ تھا۔ ان کے والد بھی میرے نانا والی ٹرین میں ہی یہاں لائے گئے تھے۔ ان کے والد 23 جولائی 1942 کو یہاں آمد کے چھ دن بعد ہلاک ہو گئے تھے۔

بلاک 12 کی تلاش میں ہم نے آشوٹز سے بچ جانے والے لوگوں کو تلاش کیا۔ یہاں پر ساٹھ کے پیٹے میں موجود ایک شخص تھے جو ’موت کے فرشتے‘ کے نام سے جانے جانے والے نازی جوزف مینگیل کی جانب سے جڑواں بچوں پر کیے گئے بدترین تجربات سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پچاس سال گزر جانے کے بعد انھیں اب یاد نہیں کہ بلاکس کو نمبر کیسے دیے گئے تھے۔

آشویٹز، یہودی، ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی، پولینڈ، عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، ہٹلر

سنہ 1995 میں کیمپ کے قیدیوں کو آزاد کروائے جانے کے 50 سال مکمل ہونے پر بچ جانے والے افراد اور لواحقین خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں

جنوری کے اس سرد دن ہمیں کافی دیر ہو چکی تھی اور تب تک دن کا اجالا بھی جا رہا تھا۔

مرکزی دروازے تک واپس آتے ہوئے ہمیں نقشے پر بلاک 12 ملا۔ یہ حراستی کیمپ کی سائٹ کے پچھلی جانب ریلوے لائن کے اختتام پر تھا۔

ہمیں فکر تھی کہ کہیں ہم دن کے اختتام کی وجہ سے اندر بند نہ ہو جائیں، چنانچہ ہم نے اپنا مشن آدھا مکمل چھوڑ کر نکلنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے تین سال بعد ہم ایک مرتبہ پھر بلاک 12 کی بچ جانے والی اینٹوں کے ڈھیر کی تلاش میں یہاں آئے اور اپنے نانا کے لیے ایک شمع جلائی۔ انھوں نے اس کے ساتھ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کی تصاویر رکھیں۔

میرے نانا کے خاندان کو آشوٹز اور سوبیبور کے ڈیتھ کیمپس میں ہلاک کر دیا گیا تھا مگر انھیں بھلایا نہیں گیا تھا۔

آشویٹز، یہودی، ہولوکاسٹ، نازی، جرمنی، پولینڈ، عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، ہٹلر

آشوٹز برکیناؤ جن کیمپوں میں قیدیوں کو رکھا جاتا تھا اب ان کی چند ہی باقیات کھڑی نظر آتی ہیں

قتلِ عام پر پردہ ڈالا گیا

آشوٹز میوزیم کو ان کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کی ایک نقل ملی جسے ان کے گیس چیمبر میں بھیجے جانے کے آٹھ دن کے بعد پُر کیا گیا تھا۔ اس پر نازی پارٹی کی ایس ایس فورس سے تعلق رکھنے والے جنگی مجرم والٹر کوئیکرنیک کے دستخط ہیں جو برکیناؤ کے بدنام سربراہ تھے۔

آشوٹز میوزیم کے مطابق صرف 69 ہزار لوگوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کیے گئے تھے جن میں 29 ہزار یہودی تھے۔ میرے نانا بھی ان میں سے ایک تھے۔ زیادہ تر افراد کو یہاں آتے ہی قتل کر دیا گیا اور ان کی آمد کا اندراج تک نہیں کیا گیا تھا۔

نازیوں نے گیس چیمبرز کے ذریعے کیے گئے قتلِ عام پر پردہ ڈالنے کے لیے موت کی تقریباً 50 وجوہات کا سہارا لیا۔

سرٹیفیکیٹ کے نیچے میار نیویگ کی موت کی افسانوی وجہ انتڑیوں کی سوزش کے ساتھ دل کا دورہ پڑنا لکھی گئی ہے۔

نازی ہولوکاسٹ میں ایک اہم لمحہ

نیدرلینڈز سے برکیناؤ تک پہلی ٹرانسپورٹ کا پہنچنا ڈچ یہودیوں کے نازیوں کے ہاتھوں قتلِ عام کا پہلا کیس تھا اور یہ ہولوکاسٹ میں ایک اہم موڑ پر ہوا تھا۔

اس سے چند ہفتے قبل 22 جون 1942 کو ایڈولف آئیخمین نے فرانس، نیدرلینڈز اور بیلجیئم سے ہزار، ہزار یہودیوں کو اکھٹا لانے کے لیے خصوصی ٹرینوں کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ ہٹلر کی ایس ایس فورس سے تعلق رکھنے والے آئیخمین کو یورپ کے یہودیوں کے قتل کے انتظام کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

زیادہ تر یہودیوں کو آشوٹز ان ٹرینوں کے ذریعے پہنچایا گیا جن کا انتظام ریخ مین سکیورٹی آفس (آر ایچ ایس اے) نے کیا تھا۔ ہزاروں یہودیوں کو پہلے ہی سلوواکیہ اور فرانس سے برکیناؤ پہنچا دیا گیا تھا۔

جس دن میار نیویگ کی ٹرین آشوٹز پہنچی، اس دن ایس ایس فورس کے سربراہ ہائنریخ ہِملر نے بھی آشوٹز کا دورہ کیا۔

ہمیں یہ اس لیے معلوم ہے کہ آشوٹز کے کمانڈنٹ روڈولف ہیوس نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ کس طرح ہِملر نے برکیناؤ کا معائنہ کیا، کچن اور بیماروں کی جگہ کا دورہ کیا۔ ہِملر نے 17 جولائی 1942 کو قتلِ عام کا پورا مرحلہ دیکھا کہ کس طرح ٹرینوں میں قیدیوں کو لایا جاتا، قتل کے لیے کیسے انتخاب کیا جاتا، انھیں کیسے گیس چیمبرز میں بھیجا جاتا اور لاشیں کس طرح جلائی جاتی ہیں۔

ہِملر نے اپنی ڈائری میں ڈچ یہودیوں کے قتل کے مقام پر اپنی موجودگی کا تذکرہ نہیں کیا ہے، لیکن یہ 17 سے 18 جولائی 1942 کے دوران تھا جب انھوں نے برکیناؤ کی گنجائش بڑھا کر دو لاکھ قیدیوں تک کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہاں پر یہودیوں کا قتلِ عام نومبر 1944 تک جاری رہنا تھا۔

یہ بات ایک طویل عرصے سے علم میں ہے کہ نازی ڈیتھ کیمپس کے مقامات پر کوئی پرندے نہیں گاتے، اور آشوٹز کے بارے میں بھی یہ بات سچ ہے۔

میرے نانا جہاں قتل کیے گئے، ان تباہ ہوتے بلاکس پر سورج کی مدھم روشنی کے درمیان میں نے دیکھا کہ کیمپ کے قیدیوں کی کھودی گئی ایک خندق کے ساتھ ساتھ ایک لومڑی تیز تیز قدموں سے چلتی جا رہی ہے۔

ایک ویران جگہ پر یہ زندگی کی ایک نایاب علامت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp