عمران خان کی کشتی بھنور میں چکر کاٹ رہی ہے


موجودہ سیاسی منظرنامہ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کی کشتی بھنور میں چکر کاٹ رہی ہے اور فی الوقت ساحل تک پہنچنا مشکل ہے۔ 2018 میں عنانِ اقتدار سنبھالنے والی پی ٹی آئی دو سالوں کے اندر ہی اپنی نا اہلیت ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ خان صاحب جو کہ سمجھتے تھے کہ کاروبارِ حکومت کاروبارِ ہسپتال سا ہی ہو گا، ساری قوم کو اپنے ناکام تجربے کی نذر کر گئے ہیں۔

انتحابات سے قبل سے بلند و بانگ دعوے اور اقتدار میں آنے کے بعد عجیب و غریب پالیسیز نے پاکستان کو بہت ماضی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ قومی احتساب بیورو کو سیاسی مقاصد کے لیے استمعال کیا گیا جو کہ پہلی حکومتوں والا عمل دہرانے کے مترادف ہے۔ سیاسی حریفوں کے چاروں شانے چِت کرنے بعد موجودہ حکومت نے جس احسن انداز سے عوام کے چاروں طبق روشن کیے ہیں اس کی نظیر ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ طوفانِ بدتمیزی کے ساتھ ساتھ طوفانِ مہنگائی بھی اسی حکومت کی دین ہے۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہو گا کہ غریب تباہ شد۔

اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو بہت سی باتیں عیاں ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف نے پنجاب جیسے بڑے اور اہم صوبے کے ساتھ نہایت تضحیک آمیز سلوک کیا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ عثمان بردار صاحب کو سائیکل کے بعد ٹرک دے دیاگیا۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں انتظامیہ کی اکھاڑ پچھاڑ نے مزید بحرانوں کو جنم دیا۔ عوام کو اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی سے متاثر کرنے کی بجائے اتحادیوں کو جوڑے رکھنے کے لیے رشوت ستانی کا بازار گرم کیا ہے جو کہ پی ٹی آئی کے منشور کا قطعی متضاد پہلو ہے۔

ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن ماضی کی نسبت بڑھی ہے اور پاکستان تین درجے نیچے یعنی 120 نمبر پر آ گیا ہے۔ اکانومسٹ کے سروے کے مطابق پاکستان میں جمہوریت ماضی کی نسبت کمزور ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک مکمل جمہوریت ہے اور نہ ہی مکمل آمریت ہے مگر ان دونوں کا امتزاج ہے جسے ہم عام زبان میں ہائیبرڈ سسٹم کہتے ہیں۔

اندرونی حالات کی نزاکت اور ان رپورٹس کا اس وقت آنا حکومت کی نا اہلی پر مہر ثبت کر گیا ہے۔ مگر لاہور ہائی کورٹ کی طرح جس نے فیصلے کی بجائے خصوصی عدالت کو ہی کالعدم قرار دے دیا، اس حکومت نے بھی اعداد و شمار کے بجائے رپورٹس کو ہی جعلی اور تراشیدہ قرار دے دیا ہے۔ اکبر اور اس کے نو رتن دوسروں کو نصیحت، خود میاں فصیحت محاورے پر مِن و عِن پورا اترتے ہیں۔ 2011 سے لے کر 2018 تک پاکستان کی سیاست کا کوئی برج ان کی زبان سے محفوظ نہ رہا مگر فیصل واوڈا نے 2020 میں عملی بدتمیزی کا بھی آغاز کر دیا اور یوں قول سے فعل تک کا یہ سفر پاکستانی سیاست میں سیاہ دور کا درجہ رکھتا ہے۔

فیض احمد فیض کی شعری پیش گوئی کا وقت بھی ہوا چاہتا ہے یعنی ’جب تخت گرائے جائیں گئے‘ ۔ پنجاب اور پختونخوا میں ایم پی ایز جس طرح پر پرتول رہے محسوس ہوتا ہے کہ اب اس حکومت کے پاس زیادہ قوت نہیں رہا۔ صوبوں میں عمران صاحب کی براہ راست مداخلت نے جہاں صوبائی حکومتوں کو عاجز کر دیا وہیں آٹا چینی کے بحران اور مہنگائی نے عوامی تحریک کے لیے وجہ پیدا کر دی ہے۔ اب جب عوام اور سیاستدانوں کا نشانہ ایک ہی ہے تو پھر حکومت خود کو کسی سراب میں رکھنے کی بجائے ایک باعزت الوداع کا سوچے تو بہتر ہو گا۔

گو کہ خان صاحب نے صدقِ نیت سے اس قوم کا بھلا چاہا اور اس کے لیے جائز و ناجائز عمل سے اقتدار بھی حاصل کیا مگر بقول شاعر
یہاں کسی کو کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نے ملے اور ہمیں تو نہ ملا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments