”بارِ شناسائی“ میں چھُپی ”بندہ شناسی“


پچھلے ہفتے چھتیس سالہ سفارت کاری کا تجربہ رکھنے والے کرامت اللہ غوری صاحب کی کتاب ”بارِ شناسائی“ ہاتھ لگی، کتاب کے سرورق پہ درج ہے ”کچھ لوگ، کچھ یادیں، کچھ تذکرے ان شخصیات کے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ بنائی اور بگاڑی“۔ یہ کتاب پہلی بار پاکستان سے شائع نہ ہوسکی جس کی وجہ سے اس کا پہلا ایڈیشن ”دہلی“ سے شائع ہوا۔ واقعات سے بھری کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھی گئی۔ کتاب میں موجود تمام افراد کے رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر مصنف نے ہر ایک کے بارے میں اپنی انفرادی رائے دی ہے، جسے میں مصنف کی ”بندہ شناسی“ کا نام دے رہا ہوں۔

سب سے پہلے ذکر ہوا ہے جنرل ضیاء الحق کا جن کے ”باب“ کو مصنف نے ”جنرل ضیاء الحق۔ مومن کہ منافق“ کا نام دے رکھا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ”ضیاء الحق میں چھوٹوں اور اپنے سے کہیں کمزور افسروں کی بات غور سے سننے کا حوصلہ تھا، جو ان سے پہلے میں نے کسی لیڈر میں محسوس نہیں کیا تھا“۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ضیاء ایک متوسط گھرانے کے انسان تھے اور ان کے خمیر میں انسانی مساوات اور احترام کا عنصر پایا جاتا تھا۔ ان کی شخصیت میں انکسار اور عجز نمایاں تھے۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ ضیاء بلاشبہ ایک انتہائی متنازع شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت کا ادراک کرتا ہوں کہ میں نے مدت ملازمت میں ضیاء الحق سے زیادہ نرم خو اور حلیم انسان نہیں دیکھا۔

اگلا باب ہے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے جسے ”ذوالفقار علی بھٹو۔ اک معمہ“ کا نام دیا گیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے ”میں نے ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین انسان نہیں دیکھا اور میں نے اپنی زندگی میں بھٹو جیسا مغرور اور متکبر انسان بھی نہیں دیکھا“۔ بھٹو کے باب میں ایک جگہ لکھتے ہیں ”بھٹو کی بے نظیر ذہانت اور تخلیقی صلاحیت پر وڈیرہ شاہی اور جاگیر داری کی قلعی چڑھی ہوئی تھی، اس نے اصل بھٹو کو کبھی آگے آنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس آسیب نے جو پیدائش سے ان کو گھیرے رہا تھا، آخر کار انھیں قبل از وقت قبر پہنچا دیا“۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ”بھٹو جیسے ذہین اور طبّاع انسان کے ساتھ یوں لگتا تھا جیسے وڈیرہ شاہی کی نخوت کا آسیب ہمہ وقت چمٹا رہتا تھا اور اس آسیب کی تسکین ہر اس شخص کو ذلیل کر کے ہوتی تھی جو ان کے مقابلے میں کمتر، کمزور یا چھوٹا تھا“۔

مصنف بے نظیر کے بارے میں لکھتے ہیں ”یہ احساس میرے لیے خاصا تکلیف دہ اور مایوس کن تھا کہ بے نظیر کو انسان کی پرکھ نہیں تھی“ ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ”بے نظیر بھٹو کے برعکس فاروق لغاری میں آدمی کی پرکھ کا ملکہ تھا“۔

پھر ذکر آتا ہے محمد خان جونیجو کا جن کے باب کو مصنف نے ”محمد خان جونیجو۔ یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ“ کا نام دے رکھا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں : ”میری کتاب میں سائیں محمد خان جونیجو پاکستان کے سب سے معصوم اور بھولے سیاست دان تھے“ ایک جگہ جملہ لکھتے ہیں ”سائیں مرنجان مرنج، بھولے اور طبیعاً نیک انسان تھے، لیکن آخر وڈیرے تھے“۔ آخر میں لکھتے ہیں ”سائیں جونیجو اپنے نادان دوستوں اور مشیروں کی مہم جوئی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سائیں کا ایسا کوئی کارنامہ نہیں کہ تاریخ انہیں یاد رکھے، لیکن میری کتاب میں وہ منفرد رہیں گے کہ پاکستان کی سیاست کے جوہڑ میں ان کا دامن چھینٹوں سے پاک رہا۔ ان کے نام کے ساتھ کوئی اسکینڈل چسپاں نہیں“۔

پھر ذکر آتا ہے میاں نواز شریف کا جس باب کو ”میاں نواز شریف۔ پہلے دیسی رہنما“ کا نام دیا گیا ہے۔ میاں صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ”ترکی کے صدر سلیمان دیمرل کی معیت میں جمعہ کی نماز ادا کرتے ہوئے میں نے میاں نواز شریف میں جس خشوع و خضوع کا رنگ دیکھا وہ مجھے کسی اور پاکستان سیاسی رہنما میں کبھی دکھائی نہیں دیا۔ لوگ کہتے ہیں یہ ان پر ضیا الحق کا اثر ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ انہیں ان کے والدین کی طرف سے ودیعت ہوا ہے۔ اس کی کوئی بھی وضاحت ہو، ان پر رسومات کی حد تک مذہب کا رنگ گہرا ہے، اندر کا حال تو خدا بہتر جانے ”۔

پھر لکھتے ہیں“ میاں صاحب کو ٹیکنالوجی کی سہولت میں زیادہ درک بھی نہیں ہے، وہ فطرتاً شرمیلے اور کم گو انسان ہیں۔ ان میں یقینا فطری ذہانت کی وہ برقی رو، وہ چمک دمک نہیں جو بے نظیر میں تھی لیکن انسانی رویوں اور حسن سلوک کی میزان میں میری کتاب میں ان کا پلڑا بے نظیر سے بھاری ہے ”مصنف نے میاں نواز شریف اور محمد خان جونیجو میں ایک قدر مشترک لکھی وہ یہ کہ دونوں کو“ شریف النفس ”پایا۔

پھر ذکر آتا ہے جنرل مشرف کا جسے ”جنرل پرویز مشرف۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ“ کا نام ملا ہے۔ مصنف مشرف کے بارے میں لکھتے ہیں ”پاکستان کے کسی آمر اور طالع آزمانے ملک و قوم کی ذلت اور رسوائی کا ایسا ساماں نہیں کیا جیسا مشرف نے کیا۔ اپنی ہوس اقتدار کی تسکین کے لیے انہوں نے پورے ملک کو سامراج کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور ملک کی غلامی کا وہ بدترین دور آج تک جاری ہے“۔ اصلی تے وڈے کمانڈو پرویز مشرف کے بارے میں دی گئی مصنف کی رائے ”سنہری حروف“ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔

مصنف نے اپنی کتاب میں ”حکیم دانا۔ حکیم محمد سعید“ کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں وضعداری اور جامہ ذیبی حکیم سعید پر ختم تھی۔ میری دانست میں تو حکیم صاحب وہ انسان تھے جس پر فرشتے رشک کرتے ہوں گے خوش خلقی میں حرف آخر۔ حکیم صاحب میری کتاب میں ان افراد کی فہرست کے سر آغاز پر آتے ہیں جن کے متعلق بے خوف فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔

؎ جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں گے مگر ایسے بھی ہیں!

مصنف نے نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کیے گئے ”کارناموں“ کے بعد دونوں شخصیات کے بارے میں رائے دی ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خان پاکستان کی سیاست کا اہم کردار تصور کیے جاتے ہیں، عام تاثر یہی ہے کہ وہ زیر ک سیاست دان تھے۔ لیکن کرامت اللہ غوری نے ”دونوں شخصیات“ کے بارے میں جو بیان کیا ہے، وہ نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ اس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ بڑے ناموں سے کچھ نہیں ہوتا، انسان کا اصل ایسے موقعوں پر عیاں ہوتا ہے جہاں ایک عام آدمی اسے نہیں دیکھ سکتا۔

آخر میں ایک دکھ ضرور ہے کہ چھتیس سالہ تجربے کی کتاب اتنی چھوٹی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کردوں کہ یہ ”بندہ شناسی“ انفرادی طور پر کرامت اللہ غوری صاحب کی طرف سے کی گئی ہے جنھوں نے ان شخصیات کو قریب سے دیکھا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ”اجتماعی بندہ شناسی“ بھی یہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments