جب مجھے کلینیکل فائیبرومائلجیا ہوا


تحریر ابصار فاطمہ

تعاون اختر علی شاہ

مجھے کافی عرصے سے جسم میں تکلیف کی شکایت رہتی تھی جسے میں کیلشئیم کی کمی سمجھ کے نظر انداز کرتی رہی بلکہ نظر انداز نہ کہوں تو بہتر ہے. میں نے اسے بہتر کرنے کے لیے کئی کوششیں کیں، روز دودھ پینا شروع کیا، جو کہ دمے کی شکایت کی وجہ سے میں سردیوں میں چھوڑ دیتی ہوں۔ ایک لمبے عرصے سے ناشتہ نہ کرنے کی بری عادت پہ قابو پایا، دن میں روز پھل کھانے اور ان کا جوس پینے کو دوا کی طرح ضروری کرلیا۔ مگر مسئلے میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی یہ اندازہ بھی ہوا کہ واک کرنا بھی ضروری ہے لہذا آفس کے کاموں سے فارغ ہوکر آفس میں ہی چہل قدمی کی عادت بھی اپنائی تاکہ جسم متحرک رہے۔

اس دوران ایک مسئلہ یہ شروع ہوا کہ سر کے پچھلے حصے میں شدید درد شروع ہوگیا۔ وہ بھی ایسے کہ جب سونے کے لیے تکیے پہ سر رکھتی تو ایسا لگتا جیسے اس جگہ چوٹ لگی ہو۔ اگر کسی وجہ سے لیٹے لیٹے موبائل دیکھنے کی کوشش کرتی تو سر سن ہوجاتا اور ٹیسیں سر کے بائیں حصے سے شروع ہوتی ہوئی بازو اور انگلیوں تک آتیں۔ نیند کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ وہ منفی باتیں بلکہ روزمرہ کی باتیں جو میں با آسانی نظر انداز یا ڈیل کرلیا کرتی تھی ذہن پہ سوار رہنے لگیں۔

دل چاہنے لگتا کہ کسی سے لڑ لوں۔ چند ایک پہ برہم بھی ہوئی مگر ان ہی کی معاملہ فہمی نے بات بگڑنے نہیں دی۔ صبح اٹھتی تو جسم اور سر میں اتنا شدید درد ہوتا کہ اٹھنا مشکل ہوتا۔ ہر دوسرے دن آفس سے چھٹی کی ضرورت پڑتی کیوں کہ صبح کے وقت دماغ بالکل سن ہوتا۔ اور سر پھوڑے کی طرح دکھ رہا ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ درد اتنا بڑھا کہ مستقل رہنے لگا۔ بائیں طرف کا چہرہ مسلسل سن اور نظر بھی متاثر ہوتی لگنے لگی۔ مجھے اپنی تخلیقی صلاحیتیں منجمد ہوتی لگنے لگیں۔ دماغ سوچتا ضرور تھا لیکن ان الفاظ کو لکھنے کا کام دنیا کامشکل ترین اور تھکا دینے والا کام لگتا۔

مجھے لگا کہ کہیں نہ کہیں کچھ ہاتھ موبائل کا بھی ہے۔ اس لیے موبائل کا استعمال نہ ہونے کے برابر کردیا۔ سمجھیے پہلے جو ہلکی ہلکی علامات تھیں وہ ایک ہفتے میں شدید ہوگئیں تو بالآخر ڈاکٹر کے پاس جانے کا ارادہ کر لیا۔ ڈاکٹر نے ایک اینٹی انفلامیٹری اور پین کلر دوا لکھی، ایک نیورانز بلینس کرنے کی اور ایک طاقت کی دوا لکھی۔ سر کو ٹھنڈ سے بچانے کا مشورہ دیا تھکن سے بچنے کا کہا اور بھوک کو نہ دبانے کا کہا۔ اور تین ہفتے بعد آنے کامشورہ دیا۔

پہلے ہفتے ادویات کے استعمال سے خاطر خواہ اثر ہوا سر اور گردن کا درد بالکل ختم ہوگیا چہرے اور سر کا سن ہونا ختم ہوگیا۔ بھوک بڑھ گئی اور موڈ بہتر محسوس ہونے لگا۔ لیکن ٹھنڈ لگتے ہی درد فوراً شروع ہوجاتا۔ لیکن ایک ہفتے بعد ادویات کے استعمال کے باوجود درد دوبارہ بڑھ گیا پھر بھی ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق تین ہفتے دوا مکمل کرکے ہی چکر لگایا۔ ڈاکٹر نے وہی ادویات جاری رکھنے کا کہا ساتھ ایک اینٹی ڈپریسینٹ بڑھا دی۔

اس کے باوجود اگلے دو ہفتے میں حالت پہلے جیسی ہوگئی۔ بس ایک غنیمت یہ رہی کہ سر اور چہرہ دوبارہ سن نہیں ہوا۔ لہذا اس بار حکم عدولی کی اور ڈاکٹر نے چار ہفتے کے بعد آنے کا کہا مگر میں دو ہفتے بعد ہی پہنچ گئی اس بار تکلیف دور نہ ہونے کی شکایت کے ساتھ ساتھ ڈائیگنوسز بھی ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا۔ پاکستان میں رہنے والی اکثریت جانتی ہے کہ ڈاکٹر حضرات چند مشہور زمانہ بیماریوں کے علاوہ ڈائیگنوسز بتانے پہ کتنا ناراض ہوتے ہیں۔

بہرحال ڈاکٹر کی مہربانی کہ تھیلے سے بلی نکال ہی دی۔

تو اب میرے دکھی دل کے پھپھولے پڑھنے کے بعد مطلب کی بات یعنی ڈائیگنوسز پہ آجاتے ہیں۔ جو کہ ڈاکٹر کے مطابق کلینیکل فائیبرومائلجیا کہلاتا ہے

clinical fibromyalgia

فائیبرو مالجیا ایک ایسی کنڈیشن ہے جس میں وہ کیمیائی مادے جو کہ درد کا احساس دلاتے ہیں وہ عمومی مقدار سے کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں جبکہ وہ کیمیائی مادے جو کہ درد برداشت کرنے میں مدد کرتے وہ عمومی مقدار سے کم ہوجاتے ہیں۔ یہ بہت عام پائی جانے والی بیماری ہے جو کہ مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ کچھ ریسرچرز کا ماننا ہے کہ اس کی ایک وجہ شاید اس کی مبہم علامات ہیں جس کی وجہ سے مردوں میں ڈائیگنوسز کے وقت معالج کسی دوسری بیماری سے مغالطہ کر سکتا ہے۔

اس کی ممکنہ وجوہات یہ ہیں

وراثت میں پانا

کسی اچانک ذہنی یا جسمانی حادثے سے گزرنا

ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہونا

یا بہت کم متحرک رہنا

اس کی علامات کچھ یوں ہیں :

پورے جسم میں شدید درد

ہڈیوں، خاص کر جوڑوں میں درد

توجہ کی کمی یا یاداشت کی کمزوری جو کہ فائیبرو فوگ fibro fog کہلاتی ہے

نیند کی کمی

سر میں درد

صبح کے وقت جسم میں کھنچاؤ

ہاتھوں پیروں کی انگلیوں کا سن رہنا یا سنسناہٹ ہوتے رہنا

مستقل تھکن

اینگزائٹی یاڈپریشن

نظام انہظام میں گڑبڑ

پیشاب میں جلن

ماہواری کے درد میں اضافہ

چوں کہ اس کی علامات کئی دوسری بیماریوں سے ملتی جلتی ہیں اس لیے اس کی تشخیص مشکل ہے۔ کبھی کبھی تمام علامات نہیں بھی ہوتیں۔ اور اس کی آدھی علامات ڈپریشن سے ملتی جلتی بھی ہیں۔ اس کے لیے کوئی مخصوص ٹیسٹ نہیں بلکہ علامات کی بنیاد پہ ہی تشخیص ممکن ہے۔ اگر آپ کو اپنی علامات سے لگ رہا ہے کہ آپ کلینیکل فائیبرومائلجیا کا شکار ہوسکتے ہیں تو جوڑوں اور پٹھوں کی بیماریوں کے ماہر سے رابطہ کریں۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ مکمل طور پہ قابلِ علاج مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن بہتر تدابیر اختیار کرکے اسے کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے۔ اچھی غذا، ورزش، ذہن کو پرسکون رکھنا بہت ضروری ہے۔

اپنے مرض کی تشخیص جاننا کیوں ضروری ہے؟

یہ مریض/کلائنٹ اور اس کے گھر والوں کا حق ہے کہ انہیں مرض کی تشخیص کا علم ہو۔ نفسیات کے شعبے میں ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کلائنٹ کو اپنی ذہنی کیفیت سے مکمل آگاہ رکھیں۔ تاکہ وہ ناصرف اپنی مناسب دیکھ بھال کرسکے بلکہ لاپرواہی کی صورت میں جو مسائل اسے درپیش ہوں ان کا بھی اسے علم ہو۔ اگر آپ میری مثال دیکھیے تو میرا ذاتی خیال تھا کہ ڈاکٹر بنیادی طور پہ سر درد کا علاج کر رہا ہے اور باقی جسم کا درد اس مسئلے سے الگ ہے۔ لیکن جب مجھے اصل تشخیص کا علم ہوا تو ہی یہ بات واضح ہوئی کہ بہت سی علامات جن میں میرے مزاج کی تبدیلی بھی شامل ہے اسے بطور ماہر نفسیات میں نے حاوی نہیں ہونے دیا وہ بھی اسی مرض کا نتیجہ تھی۔

دوسری ایک اور بات جو نوٹ کرنا اہم ہے وہ یہ کہ ڈاکٹر کا نسخہ ہمیشہ درست تھا پہلے والا نسخہ کم شدت کی علامات کے لیے تھا جبکہ موجودہ انہی علامات کی شدید نوعیت کے لیے ہے۔ اگر مجھے تشخیص کا علم نہ ہو تو میں کبھی نہیں جان سکتی کہ ڈاکٹر مجھے درست نسخہ لکھ کر دے رہا ہے یا نہیں۔ میں یا تو بار بار ڈاکٹر بدلتی رہوں گی یا ڈاکٹر کی غلط دوا کو بھی صحیح سمجھتی رہوں گی۔ اور اس سے ڈاکٹر کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ پیسہ اور صحت میرے برباد ہوں گے۔

وہ افراد جو میری طرح دمے کے مریض ہوں، یا کسی اور قسم کی مستقل بیماری کا شکار ہوں جیسے ذیابیطس، بلند فشار خون یا کلینکل ڈپریشن وغیرہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈاکٹر کو پہلے ہی اپنی اس بیماری کا بتادیں۔ بدقسمتی سے بہت کم ڈاکٹر بتانے کے باوجود اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اور مجھے بہت دفع ادویات کا ری ایکشن سہنا پڑا ہے۔ خوش قسمتی سے اس دفعہ محترم ڈاکٹر صاحب نے بتائی گئی ہر علامت پہ توجہ کی اور ادویات کسی قابلِ ذکر ری ایکشن کا باعث نہیں بنیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ کچھ ادویات بہت معمولی ری ایکشن ضرور رکھتی ہیں جو کہ نقصان دہ نہیں ہوتا۔ ادویات کی پہلی خوراک کھانے سے پہلے ان ادویات کے بے ضرر اور خطرناک ہر قسم کے ری ایکشن کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ یہ معلومات آپ کو دوا کے ساتھ موجود پرچے یا گوگل سے بہت آسانی سے مل سکتی ہے۔

یہ مضمون مختلف میڈیکل سائٹس پہ موجود معلومات اور ذاتی تجربے کو ملا کر ترتیب دیا گیا ہے۔ لکھنے کی وجہ اس بیماری کی معلومات سے زیادہ یہ تھی کہ وہ تمام افراد جو ان علامات سے گزر رہے ہیں مگر عموما درد کش ادویات کھا کر گزارا کر رہے ہیں یا ان کے معالج کو بنیادی مسئلہ سمجھ ہی نہ آرہا ہو جس کی وجہ واضح ہے کہ اس کی علامات کئی دوسری بیماریوں سے مشابہہ ہیں تو وہ متعلقہ ڈاکٹر کے پاس جا سکیں۔ میں چاہوں گی کہ اس کے متعلق آپ کو بھی اگر مستند معلومات ہوں تو ضرور بتائیے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments