ترجیحات کی سمت بدلنے کی ضرورت ہے


بڑے پر امید تھے ہم کہ نظام ٹھیک ہوجائے گا، ادارے مضبوط ہوں گے، احتساب ہوگا، کرپشن کا خاتمہ ہوگا، خوشحالی آئے گی ترقی ہوگی، انصاف دستک پر ملے گی، بیروزگاری اور مھنگائی کا خاتمہ ہوجائے گی جس کے نتیجے میں تعلیم کا بول بالا ہو گا بچے مزدوری نہیں کریں گے، بھیک نہیں مانگیں گے۔ بچے والدین پر بوجھ نہیں بنیں گے بلکہ ان کا سہارا بنیں گے، ہسپتال ویران اور کھیل کے میدان آباد ہوں گے۔

لیکن یقین جانئیے بہت مایوسی ہوئی۔

اور تو اور تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کا حال بڑا بے حال ہے۔ پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں ڈراپ آوٹ سب سے زیادہ ہے۔ تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے بجٹ میں بہت کم رقم پہلے ادوار کی طرح مختص کی جاتی ہے ’جوکہ موجودہ تعلیمی صورتحال کو دیکھتے ہوئے آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جبکہ دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ اسی بجٹ کا زیادہ تر حصہ چند مخصوص ترقیافتہ اضلاع پر خرچ کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دور دراز اور پسماندہ اضلاع میں تعلیمی ادارے کسمپرسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ بہت سے تعلیمی اداروں میں بچے موسمی شدائد کے باوجود کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ’ایسے اداروں کی کمی نہیں جہاں یا تو اساتذہ کی مطلوبہ تعداد ہی موجود نہیں یا وہاں دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔

دوسری طرف صحت کا حال یہ ہے کہ اجتماعی طور پر ہمارا معاشرہ غذائی قلت کا شکار ہے متوسط طبقے گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں کرسکتے تو حاملہ خواتین اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کے غذائی اشیاء کی ضرورت کہاں اور کیسے پوری کریں۔ پاکستان میں 1000 میں 60 سے 70 بچے صحت کے امراض سے 5 سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ یوں ریجن میں اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں 25 اور سری لنکا میں یہ شرح 7 ہے۔ جس کا موازنہ اگر امریکہ سے کرایا جائے تو وہاں یہ شرح 6 ہے۔

بہرحال وقت نے ثابت کر دیا کہ ڈکٹیٹرز میں مشرف جیسے طاقتور اور جمہوریت میں عمران خان جیسے ایماندار اور مخلص حکمران بھی ملک میں خوشحالی و ترقی لانے میں بے بس دکھائی دیے۔ جس کا براہ راست اثر ہمارے مستقبل کے معماران پر پڑ رہا ہے۔

یوں اگر دیکھا جائے تو خوشحالی و ترقی کسی بھی ملک میں تب ہی ممکن ہوتی ہے جب ادارے مضبوط ہوں، نظام درست ہو، انصاف کا بول بالا ہو، فیصلے میرٹ پر ہو، اقرباء پروری کی دلشکنی ہو، کرپشن کا خاتمہ ہو، احتساب ہو شفافیت ہو حکومتی پالیسیاں اور فیصلے غریب دوست ہو۔ تعلیم، صحت و دیگر بنیادی حقوق کا فروغ و تحفظ اولین ترجیح ہو۔ انوسٹمینٹ انسانوں کی فلاح و بہبود پر ہو نہ کہ ایوانوں پر۔

بلاشبہ اگرچہ فی الوقت مایوسی ضرور ہے، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے جینا حرام کرکے رکھا ہے پھر بھی وقت اور عوام کا ساتھ اب بھی ہے، بس سیاسی عزم اور ترجیح عوام دوست ہونی چاھئے، انسانی حقوق کا فروغ و تحفظ اولین ذمہ داری اور توجہ چاھئے، جبکہ موجودہ وسائل کا مناسب جگہ بروقت اور باضرورت استعمال فھم و فراست اور مشاورت سے ہو تو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن کچھ بھی نہیں۔ بس ترجیحات کی سمت بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ترجیحات آج بھی وہیں کی وہیں ہیں جو کل تھیں اور یہی وجہ کہ ملک و قوم خوشحالی و ترقی کی راہ ترس رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments