شرعی سنسرشپ


ایک دفعہ ہم دوستوں میں بحث چھڑ گئی کہ سنیما میں فلم دیکھی جائے تو کیا اس کا گناہ اپنے گھر بیٹھے لیپ ٹاپ یا موبائل پر وہی فلم دیکھنے سے زیادہ ہوگا یا برابر؟ لیکن کسی بھی گناہ کی شدت ماپنا انسانی قوت کے بس کا کام نہیں اس لئے ایک لمبی بحث کے بعد ہم سب ایک بات پر ضرور متفق ہوگئے تھے کہ فلم دیکھنا شرعی لحاظ سے گناہ سے خالی نہیں سمجھا جاتا چاہے۔ لیپ ٹاپ یا موبائل پہ دیکھی ہو یا سنیما میں۔ تبھی تو دیہی علاقوں میں اب بھی فلم دیکھنا یا سنیما جانا ایک خفیہ سرگرمی ہے،

مجھے آج بھی یاد ہے جب میں ایک دفعہ اسلام آباد میں منعقدہ ایک فلم فیسٹیول میں گیا تھا۔ واپسی پر وہاں کھینچی ہوئی ایک تصویر میں نے اپنی فیس بک وال پر لگادی تو اس پر غیر معمولی کمنٹ آئے لیکن سب سے زیادہ حیرانگی گاؤں پہنچ کر تب ہوئی جب ہمارے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تم فلم دیکھنے گئے تھے؟ ان کا سوال سن کر میں تو ششدر ہی رہ گیا کیونکہ اس سے پہلے مجھے کبھی بھی معلوم نہیں تھا کہ مولانا صاحب بھی فیس بک کی سیر کرتے ہیں اور ہم پر آنکھ بھی رکھی ہوئی ہے۔ مولانا صاحب کا استفسار مجھے گناہ کا احساس دلانے کے لئے کافی تھا۔

فلم یا ڈرامہ دیکھنے کو کہیں بھی اور کبھی بھی شرعی قبولیت حاصل نہیں ہوئی، ایسے نہ کبھی سنا ہے نہ پڑھا ہے اور اگر کہیں قبول بھی کر لیا گیا ہو تو وہ میرے علم میں نہیں۔ لیکن حکومت پاکستان کے حالیہ ”زندگی تماشا“ کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کے فیصلے نے شرعی سنسرشپ کا نیا باب رقم کردیا۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل اس فلم کو سنسر کرتی ہے تو یہ ملکی تاریخ میں بالکل ہی ایک نیا باب ہوگا اور یہ پہلی فلم ہوگی جس کو کسی شرعی کونسل کی قبولیت حاصل ہوجائے گی۔ فلموں میں بھی جائز اور ناجائز فلموں کا تصور شروع ہوجائے گا اور مستقبل میں شاید ہر فلم کو اسلامی نظریاتی کونسل کا سرٹیفیکیٹ لینا لازمی ہوجائے۔

میں سرمد کھوسٹ کی فلم کے بارے میں کوئی زیادہ بات نہیں کرونگا کیونکہ اس پر پہلے ہی کافی لوگ بول اور لکھ چکے ہیں اور محمد حنیف صاحب کے آرٹیکل نے تو سارے شکوک و شبہات ختم کردئے کیونکہ ابھی تک اس فلم کے بارے میں وہ واحد لکھاری ہیں جنھوں نے فلم دیکھ کر ہی بات کی اور عمومی شکوک کو کافی حد تک دور کردیا ہے۔ تین سنسر بورڈز سے کلیئر ہوجانے کے باوجود جب پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے فلم کی ریلیز پر پابندی لگا دی تو کئی سوال اٹھ گئے اور جس کا جواب ایک ہی ہے کہ تحریک لبیک کے کارکنوں کو ایک ان دیکھی فلم کی ریلیز ہونے پر شدید اعتراض یے اور کارکنان تحریک نے فلم ریلیز ہونے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے، جس سے وفاقی حکومت کی پریشانی بڑھ گئی اور انہیں امن و امان کی اتنی شدید فکر ہو گئی کہ انھوں نے سنسر بورڈز سے پاس شدہ فلم کی ریلیز ہی روک دی۔

جبکہ فلم کا ہدایتکار بارہا حکومت اور ناقدین کو یقین دلا چکاہے کہ ان کی فلم میں کوئی بھی اسی چیز نہیں جس سے ملک میں انتشار پیدا ہو اور بارہا یہ بھی کہا گیا کہ ڈھائی منٹ کے ٹریلر دیکھ کر پوری فلم کو جج نہ کیا جائے۔ لیکن جب آنکھوں پر انا کی گوند سے بلا وجہ تنقید کے پوسٹر چپکا دیے جاتے ہیں تو پھر وہ کسی بھی دلیل سے نہیں ہٹتے۔ جب فلم کی ریلیز کے حوالے سے ساری امیدیں مایوسی کی سیاہ رسیوں میں بندھ چکی تھیں تو اسی دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا ٹویٹر پیغام سامنے آیا کہ انھوں نے فلم کی ریلیز کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگ لی یے۔

اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگنا حکومت کا قانونی و آئینی حق ہے لیکن میں بندہ ناچیز فلم، سنیما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے بیچ صحیح تعلق سمجھنے سے قاصر ہوں، اور جو تین سنسر بورڈ فلم کو کلیئر کرچکے ہیں ان کے سرٹیفیکیٹس کس کام کے؟ اور ان کی قانونی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ جیسے سوالات بھی میرے ذہن میں ٹام اینڈ جیری کھیل رہے ہیں۔ پھر یہ سوچ کر سوالات کے اس مدوجذر کو شانت کردیتا ہوں کہ ’جس ملک میں کوئی ڈاکٹر مطلب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان وزیر اطلاعات و نشریات ہوسکتی ہیں تو وہاں فلم کی ریلیز کی صلاح کسی شرعی کونسل سے لینا بالکل بھی عجیب نہیں‘ ۔

مجھے بلکہ مجھ سمیت کسی بھی پاکستانی کو اسلامی نظریاتی کونسل سے کسی بھی حوالے سے رائے لینے پہ کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دیگر اداروں کا کوئی مینڈیٹ نہیں؟ کیا سنسر بورڈ میں بیٹھے افراد نہیں جانتے کہ پاکستان کیسا ملک ہے؟ اس کے معاشرتی اور مذہبی اقدار کیا ہیں؟ کیا وہ کسی ایسی فلم کو کلیئر کرسکتے ہیں جس میں توہین مذہب یا مملکت کی گئی ہو؟

اگر یہ اعتراض فلم ریلیز ہونے کے بعد اٹھتا تو پھر سنسر بورڈز کے سرٹیفکیٹس کو منسوخ کرکے حکومت جس سے بھی رائے مانگتی کسی کو اعتراض نہ ہوتا کوئی انگلی نہ اٹھتی اور اگر کھوسٹ فلمز واقعی توہین کی مرتکب ہوتی تو پھر ان کے خلاف صرف تحریک لبیک نہیں، پورا پاکستان کھڑا ہوتا۔

پہلے اس ملک میں کوئی فلم بنتی نہیں اور کبھی بن بھی جائے تو پھر وہ اس قسم کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہے، میں سوچتا ہوں کہ اگر انڈیا کے ’اؤ مائی گاڈ‘ اور ’پی کے‘ جیسے فلمیں یہاں بنتیں تو پتہ نہیں کتنے ہنگامے ہوتے اور کتنا شور برپا ہوتا۔ موجودہ حالات دیکھ کر کوئی کیوں اور کیسے فلم بزنس میں سرمایہ کاری کرے گا اور کیسے ہمارے انڈسٹری گروم ہوگی۔ ہمارے ان ہی رویوں کی وجہ سے کہیں سنیماؤں کو تالے لگ گئے تو کہیں وہ شاپنگ مال میں تبدیل ہو کر رہ گئے، اور میرے خیال میں ایسے گھٹ گھٹ کر مارنے سے تو اچھا ہے کہ ایک ہی دفعہ میں بند کردی جائے یہ انڈسٹری اور کہہ دیا جائے کہ نہیں بنے گی اور کوئی فلم اور نہیں بولے گا کوئی سچ اور خاص طور پر وہ سچ تو بالکل بھی نہیں جسے ہم من حیث القوم سننا اور سوچنا نہیں چاہتے۔ پھر کوئی بھی فلم میکر اپنا پلاٹ بیچ کر، اپنی جمع پونجی خرچ کرکے ایک مفلوج انڈسٹری کو کھڑا کرنے کے لئے بیساکھی نہیں بنائے گا۔

آخر میں ایک فائدے کی بات اور وہ یہ کہ عام آدمی کے حق میں تو یہ اچھا ہی ہوگیا کہ فلم اسلامی نظریاتی کونسل بھیج دی گئی۔ سرمد کی فلم کو کلین چیٹ ملے یا نہ ملے ہمیں یہ پتہ چل جائے گا کہ فلم بنانا یا دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جائز و ناجائز فلم میں کیا فرق ہے۔ کم از کم اس فیصلے کے بعد فلم بینی اور فلم بینوں دونوں کو پروٹیکشن مل جائے گی۔

بصر علی خان
Latest posts by بصر علی خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments