خودساختہ بحرانوں میں گھرے کپتان اور خاموش اپوزیشن


کپتان آج چاروں طرف سے بحرانوں میں گِھرے ہوئے اور یہ بحران ان کے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ بحران کھڑے کرنے کا آغاز کپتان نے پارلیمان میں اپنی پہلی تقریر سے ہی کردیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کپتان کو تخت نشیں ہوئے اٹھارہ ماہ میں ہونے کو آئے اور ان اٹھارہ ماہ میں کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جس میں کسی نئے بحران نے سر انہ اٹھایا ہو۔ کپتان کے بحرانوں میں گھرے رہنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا غیر لچکدار، غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی لا ابالی رویہ ہے، وہ آج بھی خود کو وزیرِ اعظم کم اور اپوزیشن رہنما زیادہ سمجھتے ہیں

یہ تو بھلا ہو خاتونِ اول کا کہ وہ انہیں گاہے بہ گاہے باور کرا دیتی ہیں کہ خان جی آپ وزیرِ اعظم ہیں ملک کے تب انہیں ہوش آجاتا ہے تھوڑی دیر کے لئے ورنہ تو اسی گمان میں گم ہوتے ہیں کہ وہ کنٹینر پہ چڑھے ہوئے ہیں اور ان کے چاروں اور ٹائیگرز کھڑے ان کی پھلجڑیوں پہ جھوم رہے ہیں۔

خان صاحب کے پی کے میں پچھلے ساڑھے چھ سال سے برسرِ اقتدار ہیں، جبکہ وفاق اور پنجاب و بلوچستان ڈیڑھ سال پہلے ان کے زیرِ تسلط آئے ہیں، مگر کمال کا طرزِ حکمرانی ہے کہ لگتا ایسا ہے جیسے بھولے کے ہاتھ بندر لگ گیا ہو، ملک کی مضبوط ترین اپوزیشن جو حکومت گرانے کے بجائے چاہتی ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے مگر کپتان تو جیسے اپنے ہی چمن کے آپ دشمن بنے بیٹھے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے وہ کسی زمانے میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں انتہائی ناقص کارکردگی کے باوجود منصور اختر کو ٹیم سے نکالنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے بالکل ویسے ہی پنجاب میں عثمان بزدار صاحب اور کے پی کے میں محمود خان صاحب کو مسلسل بدترین طرزِ حکمرانی، نا اہلی نالائقی کے باوجود انہیں برقرار رکھنے کی ضد میں وہ اپنی ہی نیّا ڈبونے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

پچھلے دو تین ماہ سے ملک کے سیاسی داخلی حالات انتشار و افتراق کا شکار نظر آتے ہیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اپنی قیادت کے ملک سے باہر چلے جانے، مریم نواز کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کرنے، ملکی و بین الاقوامی معاملات پہ غیر واضح مؤقف اپنانے اور خاص طور پر آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے میں ووٹ کی عزت تار تار کرنے کی وجہ سے اپنے کارکنان، ووٹرز، میڈیا اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں اور داخلی اندرونی اختلافات کا شکار نظر آتی ہے تو دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی بھی تذبذب کی کیفیت سے دوچار ہے، یعنی کپتان کو مخالفین کی جانب سے کسی مشکل کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔

ملک کے تقریباً تمام مقتدر ادارے کپتان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، لیکن پھر بھی بحران ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے، دراصل یہ بحران، افراتفری اور انتشار کپتان کی کمزور طرزِ حکمرانی، اپنی جماعت میں اندورنی اختلافات، اتحادیوں کی ناراضگیوں اور ان کے تحفظات کا شاخسانہ لگتے ہیں۔

عمران خان صاحب نے اپنے جماعت میں بھانت بھانت کے مختلف الخیال، مختلف نظریات اور مفادات کے لوگ جمع کیے ہوئے ہیں جن کے متصادم مفادات نے پارٹی میں انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا کی ہوئی ہے اور یہی اندرونی اختلافات بحرانوں کے پیدا ہونے کا جواز بن رہے ہیں۔ اس وقت سیاسی قرائن بتا رہے ہیں کہ عمران خان صاحب خود ہی حکومت کر رہے ہیں اور خود ہی اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ ان کے اپنے اکابرین، میمبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی وزراء اپنی ہی وفاقی، صوبائی حکومتوں کے خلاف 164 کے تحت بیانات دیتے نظر آ رہے ہیں۔

کراچی سے منتخب ایک میمبر قومی اسمبلی نے کہا کہ کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جس نے بڑے جوش وخروش سے تبدیلی کو ووٹ دیا مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ جس تبدیلی کو وہ ووٹ دے رہے ہیں وہ تبدیلی محض ڈیڑھ برس میں ان کی زندگیوں کو جہنم بناکر انہیں ملک کے سیاسی نظام سے ہے متنفر بنا دے گی۔ ملک کے صدر، چار پانچ وفاقی وزراء کا تعلق کراچی سے ہونے کے باوجود ہم اپنے حلقوں میں اپنے ووٹروں کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہے، جبکہ پیپلز پارٹی باوجود الزامات کی زد میں ہونے کے مسلسل کراچی میں ترقیاتی کام کرنے اور میگا پراجیکٹس کے افتتاح کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی حکومت اپنے اپنے منشور کے مطابق ڈلیور کرنے کے بجائے نان اشوز میں الجھ کر رہ گئے ہیں، وزیراعظم عمران خان ان کی ضد، ہٹ دھرمی، آنا نے ان کے لئے صرف مسائل ہی کھڑے کیے ہیں، پنجاب میں آپ نے ایک ایسے شخص کو وزارت اعلیٰ کے منصب پہ بٹھا دیا جسے اپنی تحصیل کے افسران بھی نہیں پہچانتے۔ اسی طرح کا فیصلہ آپ نے کے پی کے میں کیا، جب خان صاحب خود اپنے نشیمن پہ بجلیاں گرانے کا بندوست کیے بیٹھے ہیں تو مخالفین کو اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

خان صاحب کے تعویذ گنڈے کی بنیاد پہ کیے گئے ایسے ہی کئی غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ فیصلوں نے آج خان صاحب کے سامنے بحرانوں، انتشار و افراتفری کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا ہے جو خدانخواستہ کہیں جمہوری سسٹم کے خاتمے یا پھر خان صاحب کی اپنی حکومت اور سیاست کے خاتمے پہ ہی نہ منتج ہو۔ وزیراعظم عمران خان کے اردگرد، ان کے حلقۂ یاراں میں کچھ ایسے لوگ شامل ہیں جو نہ صرف کپتان کے کیے گئے فیصلوں پہ خاصہ اثر رکھتے ہیں بلکہ اہمیت اور حیثیت کے حامل بھی ہیں۔

یہ لوگ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھی خاصی اہمیت اور اثر رکھتے تھے وہ اس وقت بھی آٹے، چینی جیسے کئی بحرانوں کے ذمے داران گردانے جاتے تھے وہ آج بھی ان بحرانوں کے بینیفشریز ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو ہر بار اپنا سیاسی کعبہ و قبلہ تبدیل کرنے میں سب پہ سبقت لے جاتے رہے ہیں، آج جو پاکستان کو جو بحران خان صاحب کی بدترین طرزِ حکمرانی کی وجہ سے درپیش ہیں ان کے اصل خالق و ذمے داران بھی ملک میں گندم و چینی کے چالیس فیصد سے زائد پیداوار کے مالکان ہی ہیں، ان میں سے ایک کو سپریم کورٹ کرپٹ و بدعنوان قرار دے کر پہلے ہی تاحیات نا اہل قرار دے چکی ہے مگر آج بھی وہ کپتان کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے اب تک کے اقدامات بیانات اور فیصلوں سے صاف نظر آ رہا ہے کہ کپتان پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے بجائے اپنی ضد ہٹ دھرمی پہ ہی قائم ہیں اور ان کی یہی ضد اور ہٹ دھرمی، خود ساختہ پیدا کیے ہوئے بحران ہر گزرتے روز ملک کو بدترین مہنگائی، بھوک و بدحالی، معاشی، سیاسی انتشار اور خود ان کو اور ان کی جماعت کو سیاسی خودکشی کی جانب دھکیل رہی ہے جبکہ اپوزیشن خاموش تماشائی بنی کپتان کو اپنے ہی نشیمن پہ خود بجلی بن کر ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ اللہ ربّ العزّت پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments