نایاب جانور: پاکستان میں برفانی تیندوے سمیت معدومیت کے خطرے سے لاحق جانوروں کے اعضا اور کھالوں کا کاروبار کہاں تک پھیلا ہوا ہے؟


گذشتہ دنوں اسلام آباد میں محکمہ جنگلی حیات نے دو مختلف واقعات میں تیندوے، جنگلی بلی (لپیرڈ کیٹ)، ہرن، بھیڑیے، لال لومڑی، اژدھے اور دیگر جنگلی حیات کی کھالیں بر آمد کی ہیں۔

پیر کو محکمہ جنگلی حیات نے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں چار مختلف گارمنٹس شاپس پر چھایے مارے جہاں سے انھوں نے تقریباً 57 قیمتی جنگلی حیات کی کھالیں اور ان سے تیار کردہ چار جیکٹیں بر آمد کی ہیں۔

جنگلی حیات کی کھالوں کی کل ہونے والی اس برآمدگی سے چند دن قبل اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے انتہائی خطرے کے شکار تیندوے کی مہنگی اور قیمتی کھال بھی برآمد کی تھی۔

جنگلی حیات کی کھالوں سے گارمنٹس کی تیاری

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد فہیم کے مطابق اسلام آباد کے کچھ علاقوں کی گارمنٹس کی دوکانوں سے برآمد ہونے والی کھالیں اور ان سے تیار کردہ گارمنٹس، جوتوں اور پرس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالرز کے حساب سے کروڑوں پاکستانی روپے بنتی ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی قیمتیں لاکھوں میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’قاتلوں کا قاتل‘ سانپ درد سے نجات کا ذریعہ

’ریچھ پکڑنے کے لیے پہلے اس کی ماں کو مارا جاتا ہے‘

دنیا کا نایاب ترین اونی کپڑا کیسے بنتا ہے؟

کیا پرفیوم ‘آدم خور شیرنی’ کو پکڑوائے گا؟

محکمے نے اپنے چھاپوں کے دوران چار ایسی جیکٹس بر آمد کی ہیں جن میں سے ایک ایک جیکٹ پر جنگی بلی کی کئی کھالوں کا استعمال ہوا ہے۔

’اس ایک جیکٹ کی قیمت کم از کم دو لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ تک جاتی ہے۔ لومڑی، ہرن اور بھیڑیے کی کھال سے تیار کردہ جیکٹ 40 ہزار سے شروع ہو کر چار لاکھ، اژدھے اور نیولے کی کھال سے تیار کردہ جوتے 25 ہزار سے لے کر تین لاکھ اور پرس 40 ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے تک میں فروخت ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان دوکانوں پر باقاعدہ تربیت یافتہ کاریگر موجود تھے جو صرف آرڈر پر من پسند ڈیزائن کی جیکٹیں تیار کرتے تھے اور ان کے گاہکوں میں غیر ملکی اور امیر ترین لوگ شامل ہیں۔

’پکڑے جانے والے لوگوں نے ہمیں دوران تفتیش بتایا کہ یہ کھالیں انھوں نے لاہور اور کراچی کی مختلف پارٹیوں سے ادھار پر منگوائی تھیں، جن کی ادائگیاں گاہک سے رقم وصول ہونے کی بعد کی جاتی ہیں۔ کھالوں کو محفوظ کیا گیا تھا جبکہ جیکٹس کو ان کی دوکانوں میں تیار کیا گیا تھا۔‘

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے فیلڈ آفیسر ظہیر مرزا نے بتایا کہ چند دن قبل انھوں نے اسلام آباد میں جو تیندوے کی کھال بر آمد کی تھی، اس کو محفوظ کرنے میں نقص رہ گیا تھا جس وجہ سے اس کی کاروباری قیمت ایک لاکھ روپیہ تھی جبکہ نفاست سے تیار کردہ تیندوے کی کھال کی کاروباری قیمت دو لاکھ روپے سے کم کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمٰن کے مطابق یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ تیندوا، جنگلی بلی، ہرن اور اس کے علاوہ جتنی بھی جنگلی حیات کی کھالیں برآمد ہوئی ہیں۔ یہ جانور پاکستان میں انتہائی خطرے کے شکار ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اور اگر اس طرح جنگلی حیات کا غیر قانونی کاروبار جاری رہا تو پھر ان جنگلی حیات کے تحفظ میں مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ ان جانوروں کی صرف کھالوں کا کاروبار نہیں ہوتا بلکہ ان کے دیگر اعضاء کھالوں سے بھی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔

جنگلی حیات کے تقریباً سارے ہی اعضاء کی سب سے بڑی مارکیٹ چین ہے جبکہ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے طریقہ علاج میں بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار میں اندھی کمائی

ڈاکٹر انیس الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار میں اندھی کمائی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں اور ان کی قانون نافذ کرنے والی ایجسنیاں بھی اس حوالے سے حساس ہیں، مگر وہاں پر بھی یہ کاروبارکسی نہ کسی طرح چل رہا ہے۔

’مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں پر قوانین زیادہ سخت نہیں ہیں، وہاں پر تو ہر ایرا غیر اس کاروبار میں شامل ہے۔ یہ کاروبار جرائم پیشہ عناصر کے لیے بھی آسان کام بن چکا ہے جس میں پاکستان جیسے ملک میں ان کے لیے زیادہ خطرات بھی موجود نہیں ہیں۔‘

محمد وسیم بین قدرت کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے علاوہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار پر سروے میں انکشاف ہوا کہ اگر آپ پیسے خرچ کرنے کو تیار ہوں تو کراچی کی ایمپریس مارکیٹ، لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ، پشاور کی نمک منڈی، خیبر بازار اور راولپنڈی کے کالج روڈ کے علاقوں میں ہر قسم کی جنگی حیات کے اعضاء اور کھالیں دستیاب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر اس کاروبار میں منظم مافیا موجود ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ مقامی لوگ بھی کسی نہ کسی طرح طرح اس میں ملوث ہوتے ہیں۔

’کچھ عرصہ قبل گلیات، ایبٹ آباد کے علاقے باغ بانڈی میں ایک مردہ تیندوا پایا گیا تو اس کی کھال غائب تھی۔ اسی طرح حویلیاں کے علاقے میں بھی بغیر کھال مردہ تیندوا برآمد ہوا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات دیگر علاقوں میں ریچھ، لومڑی اور دیگر جنگلی حیات کے ساتھ بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

’منظم مافیا جب کسی جنگلی حیات کا کاروبار کے لیے شکار کرے گی تو وہ اس کے ہر اعضاء کو فروخت کریں گے مگر جب عام افراد کے ہتھے چڑھے گا تو وہ صرف کھال ہی پر اکتفا کریں گے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین 1972 سے نافذ ہیں ۔ جن میں وقتاً فوقتاً پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔

ان تبدیلیوں کا مقصد انتہائی قیمتی اور جنگلی حیات کا تحفظ ہوتا ہے، جس میں تیندوے، برفانی تیندوے، بھیڑیے، لومڑی، ہرن، ریچھ، کالا ریچھ وغیرہ شامل ہیں جن کو پکڑنے، شکار، کاروبار اور خرید و فروخت کرنے پر پابندی ہے۔

ان جنگلی حیات یا دیگر محفوظ قرار دیے گئے جنگلی حیات کے کاروبار کرنے پر جرمانے اور قید کی سزائیں رکھی گئی ہیں جس میں 50 ہزار سے لے کر پانچ لاکھ جرمانے، تین ماہ سے لے کر پانچ سال تک قید کی سزا دونوں یا الگ الگ دی جاسکتی ہیں۔

محکمے نے مانسہرہ میں کیا دیکھا؟َ

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے فیلڈ آفیسر ظہیر مرزا کے مطابق چند دن پہلے جب اسلام آباد سے تیندوے کی کھال برآمد کی گئی تو اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر مزید تفتیش کا فیصلہ ہوا تھا۔

ہم لوگ اسلام آباد میں موجود ایک مڈل مین سعد الحسن سے گاہک کے روپ میں ملے جو ہمیں مانسہرہ کے علاقے اوگئی تک لے گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اوگئی پہنچے تو ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ چکے تھے۔ ان کی حفاظت کا انتظام موجود تھا مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک انتہائی منظم اور خطرناک گروہ ہوگا۔

اوگئی پہنچنے پر ان کا استقبال دو لوگوں نے کیا جو انھیں گھماتے رہے اور پھر دو لوگوں کے حوالے کردیا۔ ا

نھیں کوئی 10 مختلف لوگ اسی طرح گھماتے پھراتے رہے۔ ایک کپڑے اور درزی کی دوکان پر بٹھایا تو پتا چلا کہ ان صاحبان کے پاس بھی کچھ جنگلی حیات کے اعضاء وغیرہ موجود تھے۔ آخر میں انھیں ایک آبادی میں سب سے آخری گھر میں لے گئے۔

ظہیر مرزا کا کہنا تھا کہ تین، چار کمروں پر مشتمل اس گھر کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے انھوں نے واضح طور پر دیکھ لیے تھے۔

’وہاں کا ماحول ہی بتا رہا تھا کہ معمولی سی غلطی بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ وہ ہماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھ رہے تھے اور آپس میں آنکھوں کے ذریعے سے بات کررہے تھے۔

’اس دوران ہم نے دیکھا کہ وہاں پر لومڑی، بھیڑیے، ہرن، ریچھ، پینگولین اور دیگر جنگلی جانوروں کی کھالیں اور اعضاء موجود تھے۔ اسی طرح وہاں پر تقریبا 300 کے قریب بوتلوں میں بند انتہائی قیمتی بچھو اور کالے بچھو موجود تھے جن کا وزن تین سو گرام سے کسی صورت کم نہیں تھا اور جن کی قیمت بلا مبالغہ کروڑوں روپے میں تھی۔‘

پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں پایا جانے والا برفانی تیندوا خطرے کے شکار جانوروں میں سے ہے

پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں پایا جانے والا برفانی تیندوا خطرے کے شکار جانوروں میں سے ہے

ظہیر مرزا کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ٹمبر کے کاروبار سے منسلک تھے مگر اس میں اب بہت سختی ہے اور مال پکڑا جائے تو بہت نقصان ہوتا ہے چنانچہ اب انھوں نے جنگلی حیات کے کاروبار کا آغاز کیا ہے۔

اس میں اب تک خطرہ اور سزائیں بھی کم ہیں۔ کھالیں وغیرہ مفرور اور اشتہاری فراہم کرتے ہیں جو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔

’اس دوران ہمیں سب سے بڑاجھٹکا تو اس وقت لگا جب موقع پر موجود ایک بندے نے ہمیں اپنے موبائل میں سے برفانی تیندوے کی کھال دکھائی۔

’اپنے گاہکوں کو یقین دلانے کے لیے اس نے کھال کے ہمراہ تصویر لی ہوئی تھی۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس وقت چار برفانی تیندووں کی کھالیں موجود ہیں جن کی اگر ادائیگی کردی جائے تو موقع پر پہنچا دی جائیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوے کی کھال میں وہ سودے بازی کرنے اور کوئی بات کرنے کو بالکل تیار نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ اس گروہ کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی اور تیندوے کی مزید تین کھالوں کے بہانے اس گروہ کے مزید لوگوں کو اسلام آباد لایا جائے گا، مگر بہت زیادہ قانونی مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ جس کے بعد سعد الحسن نامی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کروایا گیا جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔

اس شخص کی تیسرے دن ضمانت ہوگئی تھی۔

غیر قانونی کاروبار کا پھیلاؤ کہاں تک؟

حکام کے خیال میں اوگئی، مانسہرہ میں موجود گروہ کو ضلع مانسہرہ، ایبٹ آباد، ضلع تورغر (کالا ڈھاکہ)، کوہستان، گلگت بلتستان اور دیگر اضلاع کے دور دراز علاقوں میں پناہ لیے ہوئے جرائم پیشہ عناصر جنگلی حیات کا شکار کر کے کھالیں اور اعضاء فراہم کرتے ہیں۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس کے مطابق مذکورہ علاقہ ان کی حدود میں نہیں آتا جس کی بناء پر وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، تاہم وائلڈ لائف صوبہ خیبر پختونخوا کو اس بارے میں اطلاع فراہم کردی گئی ہے۔

’اس کے علاوہ اس سارے معاملے پر اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے اجلاس میں بحث ہوئی تھی جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف کا نمائندہ بھی موجود تھا۔

رابطہ قائم کرنے پر محکمہ جنگلی حیات صوبہ خیبر پختونخوا کے قائم مقام چیف کنزرویٹر محمد علی نے ضلع مانسہرہ اور صوبے بھر میں کسی بھی قسم کے جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کی سختی سے تردید کی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسا کوئی کاروبار نہیں ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، اور اگر واقعی اس میں کچھ سچ ہے تو اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ ہمیں ثبوت دے ہم کارروائی کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp