’شاہین باغ والے آپ کی بہن بیٹیوں کا ریپ کریں گے،‘ بی جے پی ایم پی کا انتباہ


شاہین باغ احتجاج

شاہین باغ کا احتجاج مودی حکومت کے لیے غیر متوقع طور پر ایک بڑا سیاسی چیلنج بن کر سامنے آیا ہے

دلی کا ریاستی انتخاب وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے لیے ساکھ کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دلی میں گزشتہ انتخابات میں خود وزیراعظم نے بی جے پی کی مہم کی قیادت کی تھی۔ انہیں شکست فاش ہوئی تھی۔ اس بار امیت شاہ انتخابی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ دلی میں اگر بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو اسے مودی اور امیت شاہ کی شکست سے تعبیر کیا جائے گا۔

تمام انتخابی جائزوں میں وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور ان کی جماعت عام آدمی پارٹی کی یکطرفہ جیت کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ کیجریوال کی انتخابی مہم کا موضوع ان کی حکومت کی کارکردگی ہے۔ ماضی میں تصادم کی سیاست کے برعکس انہوں نے شعوری طور پر جے این یو اور جامعہ ملیہ کے تنازعوں اور شاہین باغ کے احتجاج سے خود کو الگ رکھا ہے اور اپنی توجہ صرف اپنی کارکردگی پر مرکوز کر رکھی ہے۔

اس کے برعکس بی جے پی نے انتخابی مہم میں شاہین باغ کے بارے میں نفرت کی ایک مہم چھیڑ دی ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی عوام کو ہندو قوم پرستی کے خطوط پر تقسیم کرنا ہے۔ دلی میں انتخاب جیتنے کا اسے یہی ایک راستہ نظر آ رہا ہے۔ وہ عام آدمی پارٹی کو کسی طرح شاہین باغ اور جے این یو جیسے موضوعات میں پھنسانا چاہتی ہے۔

شاہین باغ احتجاج

احتجاج کے شرکا کی اکثریت مسلم خواتین پر مشتمل ہے مگر ان کا بیانیہ سیکولر ہے

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش ورما نے شہریت کے متنازع قانون کی مخالفت کرنے والے شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین کو دلی کے شہریوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر انہیں وہاں سے ہٹایا نہیں گیا تو وہ دلی والوں کا ریپ کریں گے۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو دیے گئے ایک انٹوویو میں پرویش ورما نے شاہین باغ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دلی والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ‘وہاں لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کے گھروں میں داخل ہونگے۔ آپ کی بہن بیٹیوں کو اٹھائیں گے۔ ان کا ریپ کریں گے۔ ان کو ماریں گے۔’

دلی کے ایک حلقے کی نمائندگی کرنے والے رکن پارلیمان ورما نے کہا کہ ‘ کل مودی جی نہیں آئیں گے بچانے، امیت شاہ نہیں آئیں گے بچانے۔ آج اگر دلی کے لوگ جاگ گئے تو اچھا رہے گا۔ مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں اس لیے دلی کے لوگ آج محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ کوئی اور وزیر اعظم بن گیا تو ملک کے عوام خود کو محفوظ نہیں محسوس کریں گے۔’

شاہین باغ احتجاج

اس سے پہلے دلی میں بی جے پی کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اگر گیارہ فروری کو دلی میں بی جے پی کی حکومت آگئی تو شاہیں باغ میں آیک آدمی نہیں دکھائی دے گا۔’

وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ دنوں انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا تھا ‘اس بار ووٹنگ مشین پر اس طرح بٹن دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک محسوس ہو۔’

ایک مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر ایک انتخابی ریلی میں ‘گولی ماروں غداروں کو’ کے نعرے لگا کر تشدد کو ہوا دے رہے تھے۔ اس سے پہلے ایک رہنما نے دلی کے انتخاب کو ‘انڈیا اور پاکستان کے درمیان مقابلہ’ قرار دیا تھا۔

مودی کی کابینہ کے ایک سینیر وزیر روی شنکر پرساد نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ‘شاہین باغ میں قومی پرچم اور قومی ترانوں کے پیچھے ملک کو توڑنے والی طاقتیں چھپی ہوئی ہیں۔’

شاہین باغ احتجاج

مسلم خواتین اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہیں

شاہین باغ مودی حکومت کے لیے غیر متوقع طور پر ایک بڑا سیاسی چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف شاہین باغ مزاحمت کی ایک طاقتور قومی علامت بن کر ابھرا ہے۔ شاہین باغ میں احتجاج کی قیادت خواتین کر رہی ہیں اور بیشتر شرکا مسلم ہیں۔ وہ شہریت کے قانون میں مسلمانوں کے خلاف امتیاز کی مخالفت کر رہی ہیں اور اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہیں۔ لیکن ان کا بیانیہ سیکولر ہے۔ ان کے احتجاج کے نعرے اور علامتیں سب ہی سیکولر ہیں۔

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی مسلمانوں کی نئی نسل کی اس بے چینی سے ناآشنا تھی۔ دلی کے ایک چھوٹے سے نواحی علاقے سے اٹھنے والی اس تحریک نے عشروں سے پیدا کیے جانے والے مسلمانوں کے خوف کو یکلخت ڈھا دیا ہے۔ شاہین باغ نے ملک میں مسلمانوں، بالخصوص مسلم خواتین، کا روایتی امیج بھی تبدیل کیا ہے۔ آج اس کے زیر اثر مہاراشٹر، بنگال، بہار، راجستھان، پنجاب، مدھیہ پردیش، کرناٹک، کیرلا اور اتر پردیش تک میں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔

شاہین باغ احتجاج

شاہین باغ کی تحریک کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن مودی حکومت خواتین کے خلاف کسی جبری کارروائی سے گریز کر رہی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ خواتین اور بچوں کے خلاف کوئی جبری کارروائی سیاسی طورپر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ مئی میں دوبارہ انتخابات جیتنے کے بعد مودی حکومت خود کو انتہائی طاقتور سمجھنے لگی تھی۔ اسی اعتماد کے پیش نظر اس نے تین طلاق، بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کی شق 370 کے خاتمے اور شہریت کے قانون کے پے درپے فیصلے کیے تھے۔اسے یقین تھا کہ اب ملک میں اختلاف کی آوازیں دب چکی ہیں۔

شاہین باغ احتجاج

دلی کی ایک نواحی بستی سے شروع ہونے والا یہ احتجاج دوسرے شہروں تک پھیل گیا ہے

شہریت کے قانون کے خلاف ملک گیر مظاہروں میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں۔ حیدرآباد اور بنگال کو چھوڑ کرکم و بیش ہر جگہ ان مظاہروں کی قیادت مقامی طور پر سول سوسائٹی کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں کو شعوری طور پر ان مظاہروں اور احتجاج سے الگ رکھا گیا ہے۔

شاہین باغ سے شروع ہونے والا یہ احتجاج کیا ملک گیر سیاسی تحریک کی شکل اختیار سکے گا اس کا اندازہ اس مرحلے پر لگانا مشکل ہے۔ لیکن دلی کے انتخابی نتائج ایک طاقتور ملک گیر اپوزیشن کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp