پشتون تحفظ موومنٹ پر کریک ڈاؤن اور مجبور وزیر اعظم پر تہمت


ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا طوفان بدستور جاری ہے۔ اس دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر منظور پشتین کی گرفتاری کے بعد اب اس حراست کے خلاف احتجاج کرنے والے درجنوں دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ بھی شامل ہیں۔ منظور پشتین کو ڈیرہ اسماعیل خان میں درج کی جانے والی ایک ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا جس میں ان پر اشتعال انگیزی اور ملک دشمنی پر مبنی بیانات دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پشاور کی ایک عدالت نے منظور پشتین کی راہداری ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں ڈیرہ اسماعل خان روانہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

ملک بھر کے پشتون نوجوانوں کی مقبول تحریک کی قیادت کے خلاف اس اچانک کارروائی کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔  ملک کی بحران زدہ سیاست میں منظور پشتین کی گرفتاری اور ان کی رہائی کے لئے پر امن مظاہرہ کرنے والوں پر کریک ڈاؤن، ایک نیا قضیہ شروع کرنے کے مترادف ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر تسلسل سے ملک کے آئین کو تسلیم کرنے اور اپنی جد و جہد کو پر امن رکھنے کا اعادہ کرتے ہیں۔ منظور پشتین کی اچانک اور بلا اشتعال گرفتاری کے بعد بھی پی ٹی ایم کی قیادت نے اپنے حامیوں کو پر امن رہنے اور قانون کے مطابق احتجاج کرنے کی تلقین کی تھی۔ اس کے باوجود آج اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرہ کے دوران محسن داوڑ اور دیگر مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی تصادم کی فضا پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ حکومت نے اس معاملہ پر کوئی باقاعدہ وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے منظور پشتین کی گرفتاری پر افغان صدر اشرف غنی کی تشویش کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔

سیاسی محاذ پر متعدد چیلنجز کا مقابلہ کرنے والی حکومت کو بنیادی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک نوجوان تحریک کے خلاف غیر ضروری اشتعال سے گریز کی ضرورت تھی۔ یہ درست ہے کہ پاک فوج پی ٹی ایم پر افغان ایجنسی کے لئے کام کرنے کا الزام عائد کرتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کے لیڈروں کو بیرون ملک سے مالی امداد ملتی ہے۔ تاہم ان الزامات کو ابھی تک کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ اس ملک میں الزامات عائد کرنے اور عدالتوں سے ان کی تائید میں فیصلے لینے کی تاریخ بھی قابل فخر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی حکومت کسی بھی تنظیم یا فرد پر الزامات تو عائد کرتی ہو لیکن ان الزامات کی بنیاد پر مقدمہ قائم کرنے اور عدالتی کارروائی سے اجتناب کر رہی ہو تو یہ سمجھنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ الزامات محض سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور کسی گروہ کو ہراساں کرنے کے لئے عائد کئے جارہے ہیں۔ پی ٹی ایم کا مقدمہ ہی بنیادی طور پر قبائلی علاقوں میں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں ہے۔ لہذا اگر فوج کے ترجمان جوابی الزامات عائد کریں تو اسے دو فریقوں کی طرف سے ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی کوشش ہی کہا جائے گا۔

فردوس عاشق اعوان کا یہ بیان بھی قابل فہم نہیں جس میں منظور پشتین کی گرفتاری پر اظہار افسوس کے لئے افغان صدر کے ٹوئٹ کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دوسرے ملکوں سے مطالبات بھی کرتے ہیں اور ان کی درستی کا تقاضہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ خود پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک  پریشانی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی بھارت میں رونما ہونے والے واقعات پر رکھی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر وہاں رونما ہونے والے واقعات پر پاکستان کی تشویش درست ہو سکتی ہے۔ لیکن حال ہی میں بھارت میں منظور ہونے والے شہریت قانون پر حکومت پاکستان کی نکتہ چینی اگر انسانی حقوق کے لئے تشویش نہیں ہے تو اسے کیا نام دیا جائے گا؟ اگر پاکستان کو اپنے ہمسایہ ملک میں شہریوں یا اقلیتوں سے برتے جانے والے سلوک پر پریشانی لاحق ہوسکتی ہے تو افغان صدر نے بنیادی حقوق کی جد و جہد کرنے والے پشتون لیڈر کی گرفتاری پر بھی اسی قسم کی پریشانی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ منظور پشتین کی گرفتاری کیوں کر قانون اور میرٹ کے مطابق ہے۔ حکومت کا یہ عذر قبول نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے، کسی کو اس پر بات کرنے کا حق نہیں ہے۔

حکومت اور اس کے نمائندوں کو البتہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ کی حراست پر صدر اشرف غنی کے ٹوئٹ پیغام پر تشویش کی بجائے اس بات پر پریشان ہونا چاہئے کہ ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کو چاروں صوبوں میں سیاسی عدام استحکام کی صورت حال کا سامنا ہے، کس نے اور کیوں اس مسئلے کو چھیڑنے کی کوشش کی ہے۔ منظور پشتین یا پی ٹی ایم حکومت کے لئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ اس کے گلے شکوؤں کا تعلق عسکری اداروں سے ہے کیوں کہ اس تحریک کی بنیاد ہی شہری حقوق کی بحالی، لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت قتل جیسے اقدامات کی روک تھام اور قانونی کارروائی کے بغیر شہریوں کی گرفتاری کی روک تھام جیسے مطالبات پر ہے۔ پی ٹی ایم کی قیادت ان سارے معاملات میں فوجی اداروں کو ذمہ دار سمجھتی ہے، اسی لئے فوج ہی اس کی مخاطب ہوتی ہے۔ فوج کو بھی اس تحریک سے یہی گلہ ہے کہ وہ اپنی شکائتیں بند کمروں میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں سامنے لانے کی بجائے قبائیلی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے معاملات کو عام جلسوں میں کیوں زیربحث لاتی ہے۔

فوج کے ترجمان بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پی ٹی ایم کے نوجوان اپنے ہی لوگ ہیں اور ان کی شکائتیں بھی درست ہیں۔ البتہ طریقہ کار پر اختلاف موجود ہے۔ بدقسمتی سے اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ عسکری اداروں کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم کے لیڈر بہت ’زبان دراز‘ ہیں تو پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈروں کا خیال ہے کہ ان کی پر امن تحریک کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو سوچنا چاہئے کہ موجودہ سیاسی حالات میں پی ٹی ایم کا پنڈورا باکس کھول کر کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ ایک ہی نظام میں دو طاقتوں کے ٹکراؤ کا معاملہ نہیں ہے تو حکومت کو منظور پشتین کی گرفتاری کی سیاسی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور پی ٹی ایم کے خلاف انتظامی کارروائیوں کو نظرانداز کرنے کا رویہ ترک کرنا چاہئے۔ اگر حکومت کی مرضی و منشا کے بغیر یہ معاملہ شروع کیا گیا ہے تو اس کے مضمرات کا اندازہ کرنا عمران خان اور تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کے لئے ضروری ہوگا۔

ملک کے سیاسی بحران اور تحریک انصاف کی حکومت کو لاحق اندیشوں میں اگرچہ اس بات کے لئے دن اور ہفتے گنے جارہے ہیں کہ کب عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوتا ہے لیکن یہ قیاس آرائیاں ان معنوں میں غلط ثابت ہوسکتی ہیں کہ عمران خان 2023 تک وزیر اعظم رہیں۔ تاہم یہ امید اس طرح سے درست ثابت ہوجائے کہ انہیں جزو معطل بنا کر رکھا جائے۔ نہ ان کے پاس پالیسی سازی کا اختیار ہو اور نہ حالات کی تبدیلی پر توجہ دینے کا موقع ملے۔ عمران خان اگر آج سے آٹھ دس سال پہلے والے سیاست دان ہوتے تو وہ اپنے ہی اس قول پر عمل کرتے ہوئے اب تک استعفیٰ قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرچکے ہوتے: ’جب مجھے کام ہی نہیں کرنے دینا تو میں اس عہدے پر فائز رہ کر کیا کروں گا؟‘ اب تو ان کے بدترین دشمن بھی ان سے یہ مطالبہ نہیں کرتے۔ عمران خان کی حکمرانی کا ہر دن ان آنکھوں کے خواب ویران کر رہا ہے جنہوں نے عمران خان کی صورت میں ایک ’ہیرو‘ کو سارے مسئلے حل کرکے نیا پاکستان تعمیر کرتے دیکھا تھا۔ عمران خان کو اس وقت اقتدار سے محروم کرنے کا مقصد یہی ہوگا کہ انہیں نئی سیاسی زندگی دے دی جائے۔ حقیقت شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے سیاسی دشمن اور سرکاری دوست یکساں طور سے یہ ’خطرہ‘ مول نہیں لینا چاہتے۔

ایک پیج کی طاقت کو عمران خان کی سب سے بڑی صلاحیت قرار دیا جاتا تھا۔ بعض مبصرین کا اصرار ہے کہ اسٹبلشمنٹ اب بھی پوری طرح عمران خان کی پشت پر ہے۔ تاہم سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے ’اثر و رسوخ اور اختیار‘ کا اندازہ قائم کرتے ہوئے بیشتر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عسکری اداروں کی اپنی بھی کچھ حدود اور مجبوریاں ہیں۔ یہ قیاس کرنا کہ ہر معاملہ میں آرمی چیف کا ایک اشارہ ہی معاملات کو سمت دینے کے لئے کافی ہوتا ہے، درست رویہ نہیں ہوسکتا۔ فوج کی اپنی ضرورتیں اور تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ بھی غلطیوں پر غلطیاں کرنے والی کسی حکومت کا ہاتھ پکڑ کر اسے تباہی کے راستے پر جانے سے نہیں روک سکتی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے معاملے میں تو اب در پردہ یہ خواہش بھی پنپتی دکھائی دے رہی ہے کہ  یہ حکومت اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے ہی دب جائے تب ہی ملک کو مقبول سیاست کے اس عفریت سے نجات دلائی جا سکے گی۔

اس دوران وزیر اعظم کی سیاست اور کابینہ کی سرگرمیاں سندھ آئی جی کی تقرری پر اٹکی ہوئی ہیں۔ جس انسپکٹر جنرل کو وزیر اعظم تبدیل کرنے کا وعدہ کرکے آئے ہیں، وہ اپنے خلاف سازشوں کا انکشاف کررہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں تبدیل کرنا آسان نہیں۔ کاندھے پر لگے پھولوں کی وجہ سے ڈاکٹر کلیم امام بھی خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ مقام تو سپریم کورٹ کی عطا کردہ 6 ماہ کی توسیع پر کام کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے باوجود ان کی مزید توسیع کا فیصلہ 28 مئی تک وزیر اعظم عمران خان کو ہی کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments