گندم کا حالیہ بحران: پاکستان میں فصلوں کی متوقع پیداوار کا تخمینہ کیسے لگایا جاتا ہے؟


تصویر

پاکستان میں گندم کے حالیہ بحران اور آٹے کی بڑھتی قیمت پر جہاں عوام پریشان ہیں وہیں حزب اختلاف کی جماعتیں اس کا ذمہ دار حکومتی پالیسیوں اور خراب طرزِ حکومت کو قرار دے رہی ہیں۔

البتہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس بحران کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گندم کی گذشتہ فصل سرکاری تخمینوں کے برعکس کم رہی۔ حکومت نے اُنھی تخمینوں کی بنیاد پر گندم برآمد کرنے کی منظوری دی تھی جس کی وجہ سے ملک کے اندر گندم کی کمی ہو گئی۔

کیا پاکستان میں اجناس اور فصلوں کی متوقع پیداوار کے تخمینے کے نظام میں کہیں کوتاہی ہوتی ہے یا اس نظام میں کوئی سقم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور میں روٹیاں ’بلیک‘ ہونے لگیں

آٹے کا بحران: کہیں روٹیاں پاپڑ بن گئیں تو کہیں تندور سرد

پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں گندم اور کپاس کی فصل کی متوقع پیدوار کا تخمینہ لگانے کا طریقہ کار کیا ہے اور اس میں کون کون سے ادارے شامل ہیں۔

فصل کی پیدوار کا تخمینہ لگانےمیں کون کون شامل

وفاقی وزارت برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے فوڈ سکیورٹی کمشنر ڈاکٹر سید وسیم الحسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی فصل کی متوقع پیداوار کا تخمینہ لگانے کے لیے وزارت برائے قومی فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ تقریباً 30 اداروں، سٹیک ہولڈرز اور محکموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

ان میں سے چند اہم اداروں میں صوبائی وزارت برائے زراعت اور خوراک، وفاقی ادارہ شماریات، صوبائی محکمہ پاکستان ایگری کلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو)، صوبائی وزارت زراعت کا ذیلی محکمہ کروپ رپورٹنگ سروس شامل ہیں۔

گندم

وفاقی کمیٹی برائے ذراعت کی سربراہی وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کرتے ہیں، چاروں صوبوں کے وزیر زراعت سمیت تمام متعلقہ محکموں اور سٹیک ہولڈرز کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں

یہ نظام کام کیسے کرتا ہے؟

فوڈ سکیورٹی کمشنر ڈاکٹر وسیم الحسن کے مطابق وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نے اس ضمن میں ایک ایپکس باڈی بنائی ہے جسے وفاقی کمیٹی برائے زراعت کہا جاتا ہے۔

اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کرتے ہیں، چاروں صوبوں کے وزیر زراعت سمیت تمام متعلقہ محکموں اور سٹیک ہولڈرز کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ڈائریکٹر ایگری کلچر ریسرچ ڈاکٹر تصور حسین ملک کے مطابق کسی بھی فصل خصوصاً گندم اور کپاس کی متوقع پیدوار کا تخمینہ لگانے کے لیے تین اہم جزیات ہوتے ہیں جن میں قابل کاشت رقبہ کتنا ہے، متوقع پیداوار کیا ہو گی اور فی ایکڑ سے اوسط پیداوار کیا ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر تصور کے مطابق ان تمام جزیات کو جاننے میں سب سے اہم کردار صوبائی وزارت زراعت کے ذیلی محکمے کروپ رپورٹنگ سروس اور محکمہ ایکسٹینشن کا ہوتا ہے۔

ان محکموں کے اہلکار و افسران ہر ضلع، تحصیل، یونین کونسل اور ویلیج کونسل کی سطح پر کام کرتے ہیں اور براہِ راست کسانوں، کاشتکاروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے بیج، قابل کاشت رقبہ کے اعداد و شمار اکھٹے کرتے ہیں۔

تصویر

ڈاکٹر تصور کے مطابق ان تمام جزیات کو جاننے میں سب سے اہم کردار صوبائی وزارت زراعت کے ذیلی محکمے کروپ رپورٹنگ سروس اور محکمہ ایکسٹینشن کا ہوتا ہے

فیلڈ میپنگ کا عمل

ڈاکٹر تصور حسین کے مطابق فیلڈ میپنگ کا مطلب یہ ہے کہ ہر فصل کی کاشت بشمول گندم اور کپاس کے لیے کروپ رپورٹنگ سروس اینڈ محکمہ ایکسٹینشن کے اہلکار ہر کسان کا نام، پتہ، کتنا بیج حاصل کیا، کتنے رقبہ پر کاشت کر رہا ہے کے اعداد و شمار اکھٹے کرتے ہیں جو یہ مقامی پٹواریوں اور یونین کونسل یا ویلج کونسل کی سطح سے حاصل کرتے ہیں۔

یہ اعداد و شمار صوبائی وزارت ذراعت کو بھجوائے جاتے ہیں اور ہر صوبے کے تمام اضلاع اور تحصیلوں سے یہ اعداد و شمار حکومت کے ریکارڈ میں درج ہوتے ہیں۔

ان اعداد و شمار کو صوبائی محکمہ ذراعت اور محکمہ خوراک ایک ساتھ مل کر مرتب کرتے ہیں اور صوبائی سیکریٹریز ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے وفاقی وزارت برائے فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کو بھیجتی ہے جس کے بعد ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے ای سی سی یا وفاقی کابینہ کو بھجوائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر تصور کا کہنا ہے کہ صوبائی و وفاقی حکومت ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی کسانوں کو بھیجے جانے والا ذرعی ٹیکس، پانی کے بل وغیرہ کا تخمینہ لگاتی ہے۔

تصویر

ماہرین کا خیال ہے کہ اس بحران کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گندم کی گذشتہ فصل سرکاری تخمینوں کے برعکس کم رہی۔ حکومت نے انہی تخمینوں کی بنیاد پر گندم برآمد کرنے کی منظوری دی تھی

پلانٹ پاپولیشن ڈینسٹی اور جرمینیشن کا عمل

وفاقی وزرات برائے فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسریچ کے فوڈ سکیورٹی کشمنر ڈاکٹر وسیم الحسن کا کہنا ہے کہ اس مرحلے میں کسی بھی فصل بشمول گندم اور کپاس کے سیڈ جرمینشن یعنی بیچ سے پودا نکلنے کے عمل کا مرحلہ بھی بہت اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گندم کے حوالے سے جرمنیشن 90 سے 100 فیصد تک ہوتی ہے تاہم کپاس میں کیڑا لگنے، بیج کا توانا نہ ہونا، زمین کی ذرخیزی، موسم کا فصل پر اثر انداز ہونے سمیت دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔

پاکستان میں کپاس کی مرکزی کمیٹی کے ڈائریکٹر ریسریج ڈاکٹر تصور کے مطابق کروپ رپورٹنگ سروس کے اہلکار ہی بیچ سے پودے کے پھوٹنے سے متعلق اعداد و شمار اکٹھا کرتے ہیں اور فی ایکڑ پلانٹ پاپولیشن ڈینسٹی کا جائزہ لیتے ہیں۔ پلانٹ پاپولیشن ڈینسٹی سے مراد فی ایکڑ میں کتنے پودے اگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فصل کی متوقع پیداوار کے جائزے کا حصہ ہے اگر آپ کی فی ایکڑ پلانٹ پاپولیشن ڈینسٹی اچھی ہے تو آپ کی پیدوار اچھی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ہر فصل کے لیے ہر سال کیا جاتا ہے اور اس سے آئندہ کی حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد ملتی ہیں اور یہ اندازہ لگانے میں بھی آسانی ہوتی ہے کہ آیا ہم اس فصل کے مقررہ ہدف تک پہنچے گے یا ہمیں اسے درآمد کرنا پڑے گا۔

گندم

گندم کے حوالے سے جرمنیشن 90 سے 100 فیصد تک ہوتی ہے تاہم کپاس میں کیڑا لگنے، بیج کا توانا نہ ہونا، زمین کی ذرخیزی، موسم کا فصل پر اثر انداز ہونے سمیت دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں

پلانٹ پیمپنگ اور سیمپلنگ کا عمل

ڈاکٹر تصور کے مطابق متوقع پیداوار کا تخمینہ یا اندازہ لگانے کا آخری اور سب سے اہم عمل پلانٹ پیمپنگ اور سیمپلنگ کہلاتا ہے۔

اس طریقہ کار میں چاروں صوبوں کے کروپ رپورٹنگ سروس اور محکمہ ایکسٹنشن کے اہلکار مخِتلف علاقوں میں زیر کاشت رقبہ میں جاتے ہیں اور مختلف علاقوں میں فی مربع میٹر یا تین مکعب میٹر کے رقبے میں پودوں کی تعداد کا تعین کرتے ہیں۔

اگر گندم کے پودے کی بات کی جائے تو اس رقبے میں موجود پودوں پر نکلنے والے خوشوں کو گنا جاتا ہے جبکہ کپاس کے پودوں پر کاٹن بالز یعنی ٹینڈوں کو گنا جاتا ہے۔

ڈاکٹر تصور حسین کا کہنا تھا کہ پلانٹ سیمپلنگ کے دوران یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ متعین کردہ زمین کے ٹکڑے پر ایک کپاس کے پودے پر جتنے ٹینڈے ( کاٹن بالز) ہوں اس رقبے سے اتنے من کپاس کی پھٹی نکلتی ہے۔ مثلاً اگر ایک پودے پر 30 کاٹن بالز ہوں گے تو اس رقبے سے 30 من کپاس کی پھٹی کی پیداوار متوقع ہے۔

ڈاکٹر تصور حسین کے مطابق اس مرحلے میں تقریباً تمام ملک سے اعداو شمار اکٹھے کر لیے جاتے ہیں اور کاٹن کروپ ایسسمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں چاروں صوبائی سیکرٹری برائے زراعت یہ وہاں پیش کرتے ہیں جس کے بعد فصل کی متوقع پیداوار کا باخوبی تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اور اگر پیداوار میں کمی ہے تو اس کی وجوہات پر بھی غور کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر تصور حسین نے بتایا کہ کپاس کی فصل میں اگلے مرحلہ کاٹن جنرز کا آتا ہے۔

گندم

کاٹن جنرز کا کردار

کاٹن جنرز کا کام کپاس کی فصل سے حاصل کردہ پھٹی سے بیج اور روئی کو علیحدہ کر کے اس سے روئی کی گانٹھے جنھیں کاٹن بیلز کہا جاتا ہے تیار کرتے ہیں۔

ان کے مطابق کاٹن بیلز یا گانٹھ کے وزن کا ایک اوسط معیار متعین ہے جو تقریباً 170 کلو گرام بنتا ہے۔

ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً دو ہزار کاٹن جنریز کام کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر تصور حسین ملک نے بتایا کہ فصل کی پیدوار کے اعداد و شمار کا آخری مرحلہ جنرز کے پاس ہوتا ہے اور شاید یہ دنیا میں سب سے اچھا نظام ہے جہاں ہر جنر روزانہ کی جننگ کی جانیوالی کاٹن بیلز کا ڈیٹا اپنے ہیڈ کواٹر یعنی پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے دفتر میں بھیجتے ہیں جو ملتان میں ہے۔

ان کا کہنا تھا گندم کے برعکس کپاس کی فصل سے پیدوار تین مرحلوں میں حاصل ہوتی ہیں کیونکہ کپاس سے نکلنے والی پھٹی جو پہلے بنے گی وہ پہلے چنی جائے گی جبکہ بعد میں نکلنے والی پھٹی کو بعد میں چنا جاتا ہے۔ اس عمل میں دو سے ڈھائی ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

گندم

کاٹن جنرز کا کام کپاس کی فصل سے حاصل کردہ پھٹی سے بیج اور روئی کو علیحدہ کر کے اس سے روئی کی گانٹھے جنھیں کاٹن بیلز کہا جاتا ہے تیار کرتے ہیں

فصل کی متوقع پیدوار کے تخمینے میں کوتاہی کہاں ہوتی ہے؟

وفاقی وزارت برائے فوڈ سکیورٹی کے کمشنر ڈاکٹر سید وسیم الحسن کا کہنا تھا کہ گندم کے معاملے میں متوقع پیداوار میں کوتاہی صوبوں کی جانب سے ان اہداف کا تعین کرنے میں ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ گندم کی فصل کی پیداوار کے زیادہ ذمہ دار صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ ہیں۔

حالیہ بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس مرتبہ وفاقی حکومت نے صوبوں کو 25.6 ملین ٹن پیداوار کا ہدف دیا تھا جس میں تقریباً 19 ملین ٹن صرف پنجاب کا ہدف تھا۔

لیکن اس ضمن میں ویٹ ریویو کمیٹی یعنی ان اہداف کا جائزہ لینے سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان نے سرکاری سطح پر گندم کی خریداری نہیں کی اور زیادہ تر فصل اوپن مارکیٹ میں سرکاری ریٹ فی من گندم جو 1300 روپے مقرر تھا سے مہنگی بیچ دی گئی۔

جبکہ ڈاکٹر تصور کا کہنا ہے کہ اگر گندم کی بات کی جائے تو وفاقی حکومت کو ہر وقت ملک میں سٹریٹیجک ریزرو میں کم از کم دس لاکھ ٹن گندم ذخیرہ رکھنی ہوتی ہے۔

تاہم اس مرتبہ حکومت نے گندم کی فصل کی متوقع پیدوار کو بمپر فصل قرار دیا تھا اور اپنے ذخیرہ میں سے گندم کو برآمد کر دیا جس کے وجہ سے موجودہ بحران پیدا ہوا۔

گندم

اگر فصل کا جائزہ لینے والی کمیٹی کی بات کریں تو ہر ماہ اس کا اجلاس ہونا چاہیے لیکن سنہ 2019 میں اس کے صرف دو رسمی اجلاس ہوئے

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی فصل کی متوقع پیدوار کے تخمینے کے لیے متعین طریقہ کار اور نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے لیکن بعض اوقات یہ نظام موجود ہونے کے باوجود بھی کام نہیں کرتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پورے نظام کا تعلق گڈ گورننس سے ہے اگر وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی تو نیچے کے تمام محکمے اپنا کام مناسب انداز سے نہیں کرتے، اس میں فیلڈ میپنگ، پلانٹ پاپولیشن ڈینسٹی اور پلانٹ سیمپلنگ کو بہتر انداز سے سرانجام نہیں دیا جاتا۔

انھوں نے بتایا کہ اگر فصل کا جائزہ لینے والی کمیٹی کی بات کریں تو ہر ماہ اس کا اجلاس ہونا چاہیے لیکن سنہ 2019 میں اس کے صرف دو رسمی اجلاس ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں صوبائی سطح پر مفروضوں کے بنیاد پر ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے غیر حقیقی اہداف مقرر کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ملک میں گندم کی پیداوار 22 ملین ٹن ہوتی ہے تو ہدف 26 ملین ٹن رکھ دیا جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے کپاس کی پیدوار ساڑھے سات ملین کاٹن بیلز ہے لیکن وفاقی حکومت اس کا ہدف 15 ملین بیلز رکھ دیتی ہے۔ تو یہ فرق کہاں سے پورا ہو گا۔

تصویر

ایک اور عمل جو اس میں کار فرما ہوتا ہے وہ جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے کاٹن بیل کے مقرر کردہ 170 کلو گرام وزن سے کم کی بیل تیار کرنا ہوتا ہے

ان کا کہنا تھا اس میں سٹیک ہولڈرز کی جانب سے پریشر گروپ بنایا جاتا ہے اور سیاسی طور پر حکومت کو دباؤ میں لایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر تصور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذراعت میں دو گروپ کام کرتے ہیں۔ ایک وہ حکومتی ادارے مثلاً ذرعی تحقیق کا محکمہ، کروپ رپورٹنگ کا محکمہ اور خود وزارت بھی شامل ہوتی ہے جو کسان کو فائدہ دینے کی کوشش میں ہوتے ہیں کیونکہ سالانہ پیداوار سے کسی بھی فصل کے ریٹ کا تعین ہوتا ہے۔

تو دوسرا گروپ انڈسٹری اور سٹیک ہولڈرز جن کا مقصد ہوتا ہے کہ متوقع سالانہ پیداوار کا ہدف زیادہ رکھا جائے تاکہ کسان کو کم قیمت پر فصل بیچنا پڑے۔

اس کا فائدہ صنعتکاروں اور سٹیک ہولڈرز کو ملتا ہے۔

ایک اور عمل جو اس میں کار فرما ہوتا ہے وہ جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے کاٹن بیل کے مقرر کردہ 170 کلو گرام وزن سے کم کی بیل تیار کرنا ہوتا ہے۔

اکثر اوقات ان جنرز نے بینکوں سے قرضہ لیا ہوتا ہے جو ان شرائط پر ملتا ہے کہ وہ ماہانہ کتنی کاٹن بیلز تیار کریں گے۔ لہٰذا یہ تعداد بڑھانے کے لیے اس کا وزن کم کر کے 150 کلو گرام تک لے آتے ہیں۔

تصویر

ڈاکٹر تصور حسن ملک بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہ صرف فیلڈ میپنگ بلکہ پلانٹ سیمپلنگ کے وقت بھی سپارکو کی مدد حاصل کرنی چاہیے

اس نظام میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

ڈاکٹر وسیم الحسن کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام میں سپارکو کا محکمہ ساتھ تو ہے لیکن فنڈنگ کے مسائل کی وجہ سے زیادہ متحرک نہیں ہے اگر اس کو بہتر طریقے سے شامل کریں اور کسی بھی فصل کے فیلڈ میپنگ کے وقت ہم سپارکو سے سیٹلائٹ امیجز سے بہتر رہنمائی لے تو فصل کی پیداوار اور اس کی بیجائی کے عمل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر تصور حسن ملک بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہ صرف فیلڈ میپنگ بلکہ پلانٹ سیمپلنگ کے وقت بھی سپارکو کی مدد حاصل کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ فصل کا جائزہ لینے والی کمیٹی اور متعلقہ محکموں کو ماہانہ کی بنیاد پر سنجیدگی کے ساتھ اجلاس کرنے چاہیئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گندم کے معاملے میں پاسکو کو زیادہ بہتر انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی سطح پر باردانہ، اناج کی چوری، ذخیرہ کرنے کے قیمت اور اس دوران ہونے والی بے قاعدگیوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp