کرونا وائرس اور اس کی علامات


کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ جب اسے خردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرآئے جوعموما تاج جیسی شکل بناتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔

دنیا نے پہلی بار انیس سو ساٹھ کے عشرے میں کرونا وائرس کا نام سنا، ان ساٹھ برسوں میں اس وائرس کی تیرہ تبدیل شدہ اقسام سامنے آئیں جنہیں کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ان تیرہ اقسام میں سے زیادہ تر نے جانداروں میں مرغی اور خنزیر کو متاثر کیا لیکن اس وائرس کی تیرہ میں سے سات اقسام ایسی بھی ہیں جو انسانوں میں منتقل ہو کراس میں بیماری پیدا کرتی ہیں۔ رواں سال چین کے شہر ووہان میں آنے والا وائرس بھی کرونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے جسے نوول کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے۔

کرونا وائرس کی تین اقسام انسانوں کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئی ہیں جن میں سے دو چین میں ہی دریافت ہوئے ہیں۔ ان تین اقسام میں سے پہلی قسم سیویئر ریسپریٹری سنڈ روم سارس، دوسری مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم، مرس مشرقِ وسطی سے اور اب تیسرا نوول کرونا وائرس بھی چین سے شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل سن دوہزار تین میں سارس وائرس سے چین میں سینکٹروں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں تھیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ مرس کی قسم سارس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ اس وائرس میں سانس کا نظام شدید متاثر ہوتا ہے اور جان لیوا فلو کی وجہ بن جاتا ہے۔

چین کے ووہان شہر میں پائے جانے والے موجودہ وائرس سے متاثرہ مریضوں میں جو علامات ظاہر ہوئی ہیں ان میں سردی کا لگنا، بد ہضمی، کھانسی اور بخار شامل ہیں۔ جو لوگ اس وائرس سے شدید متاثر ہوئے انہیں سانس لینے میں شدید دشواری بھی ہوئی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے والے لوگوں میں دو دن سے دو ہفتوں کے دوران ظاہری علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد لازم ہے کہ مریض کو علیحدہ ایک قرنطینہ میں رکھا جائے۔

تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ نوول کرونا وائرس کی اب تک کوئی اینٹی وائرل ویکسین یا میڈیسن سامنے نہیں آسکی جس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ یہ وائرس گذشتہ سال دسمبر کے وسط میں ماضی کی بنسبت ایک نئی شکل میں سامنے آیا ہے جس پر تحقیق جاری ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس پاکستان میں بھی آسکتا ہے کیوں کہ جس وائرس میں حیوان سے انسان میں اور انسان سے انسان میں منتقل ہونے کی اور انسان میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت ہو وہ کہیں بھی پھیل سکتا ہے جس کی ماضی میں مثال موجود ہے کہ اسی طرح کا سوائن فلو وائرس ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں دنیا کے کئی ممالک میں سرایت کرچکا تھا۔

پاکستان کے ہوائی اڈوں پر اس حوالے سے اسکیننگ کے انتظامات ضرور کیے گئے ہیں لیکن وزیرِ مملکت برائے صحت ظفرمرزا کے اس اعتراف کے بعد کہ پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں ہیں حکومت پاکستان کو اس حوالے سے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سی پیک سمیت پاکستان میں جاری کئی منصوبوں پر چینی ماہرین کی آمد و رفت روزآنہ کی بنیاد پر جاری رہتی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دنوں اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں کرونا وائرس سے متاثرہ نوجوان کو داخل کرایاتھا، وائرس سے متاثرہ مشتبہ نوجوان ووہان کی یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہے، نوجوان کواسپتال کے ایچ آئی وی کرٹسی سینٹر منتقل کردیاگیا تھا۔ کئی نجی ٹی وی چینل کے مطابق کرونا وائرس سے متاثرہ نوجوان پمزاسپتال سے فرارہوگیا، ترجمان پمز نے مشتبہ نوجوان کی آمد اور فرار کی تصدیق کر دی۔ ترجمان پمز کاکہنا ہے کہ نوجوان سے بیماری کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا۔

چینی سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پہلی مرتبہ کرونا وائرس سانپ اور چمگادڑ کے فضلے کے ذریعے پھیلا ہے جنہیں ووہان کے بازار میں زندہ چمگادڑوں کے ساتھ رکھا گیا تھا تاہم دوسرے ممالک کے ماہرین نے یہ امکان رد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں سانپ، حشرات اور چمکادڑوں کے سوپ اور کھانے عام ہیں۔ اس کے برعکس دنیا کے کئی ممالک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے کی طرح یہ وائرس بھی ایسے جانوروں سے پھیلا ہے جو چینی بازاروں میں پھل اور سبزیوں کے پاس ہی زندہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ لوگ ان سے متاثر ہوسکتے ہیں اور سارس بھی ایسے ہی پھیلا تھا۔

ایک طرف تو چین اس وائرس سے عوام کو بچانے کے لئے نبرد آزما ہے تو دوسری جانب ان حالات میں مغرب کی جانب سے گمراہ کن پروپیگنڈے سے بھی افسردہ ہے، اس کا کہنا ہے کہ چینی عوام متحد ہو کر اس وبا کی روک تھام کے لیے انتھک جدوجہد کر رہے ہیں۔ چینی حکومت نے برق رفتار، موثر، کشادہ اور شفاف اقدامات کیے ہیں، ان اقدامات کو بین الاقوامی برادری نے نہ صرف سراہا بلکہ اس حوالے سے چین کو ان کا اعتماد اور حمایت حاصل ہے لیکن اس صورتحال میں بھی چند مغربی ذرائع ابلاغ نے چین پر بے جا ردعمل یا یہاں تک کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے چین کا کہنا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کا یہ فعل انسانی جان کو لاحق خطرات سے فائدہ اٹھانے اور چین کو نقصان پہنچانے کی ایک عملی مثال ہے۔ یہ انسانی حقوق کی آڑ میں چین کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے اور طب کی بنیادی روح کے بھی خلاف ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ تیس صوبائی علاقوں اور خطوں میں اب تک نوول کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد چار ہزار پانچ سو پندرہ ہو چکی ہے اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں چینی حکومت نے ووہان جانے والے راستوں کی بندش سمیت مختلف اقدامات کیے۔ وسیع پیمانے پر اجتماعی سرگرمیوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ جشن بہار کی تعطیلات میں توسیع کردی گئی۔ ان تمام اقدامات پر عمل درآمد، چینی حکومت اور عوام کے لیے انتہائی دشوار ہے لیکن اپنے عوام اور عالمی صحت عامہ کے تحفظ کے لیے چین ایک ذمہ دار ملک ہے۔ اسی باعث عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر بین الاقوامی برادری نے چین کے اقدامات کو بھرپور سراہا ہے۔

چین کے متعلقہ ادارے واضح کر چکے ہیں کہ نوول کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں اور مشتبہ مریضوں کے علاج معالجے کے لیے حکومت تمام اخراجات برداشت کرے گی۔ اگرچہ اس وقت ووہان شہر کا رابطہ عارضی طور پر بیرونی دنیا سے منقطع ہے لیکن چین کے دوسرے علاقوں سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء پہنچائی جا رہی ہیں۔

چین کا کہنا ہے کہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ووہان شہر عارضی بندش سے ایک تنہا جزیرے میں تبدیل نہیں ہو رہا ہے بلکہ تمام چینیوں کی مشترکہ کوششوں سے موجودہ وبائی صورتحال پر موثر طور پر قابو پانے کا ایک حفاظتی جزیرہ بن رہا ہے۔ یہ چینی حکومت کی عوامی مفادات پر مبنی ترز حکمرانی کے تصور کا ٹھوس عملی اظہار ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے چین کی اہمیت کا عکاس ہے۔ وبا کی روک تھام ایک آئینے کی طرح ہے لیکن چند مغربی ذرائع ابلاغ کے نفسیاتی ابہام سے انسانی حقوق کی اصل روح کو پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تصویری خاکوں کے ساتھ احتیاطی تدابیر کی ہدایات جاری کی ہیں جو کچھ یوں ہیں۔

بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments