قبلہ بیچ کر ہتھیار خریدنے والو!


وائٹ ہاؤس کے وسیع ہال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب ”مشرق وسطیٰ امن منصوبہ“ کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے پہلو میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کھڑے تھے جبکہ سامنے سامعین کے بارے میں ایک غیر ملکی میڈیا نے ”اسرائیل نواز“ کا لفظ استعمال کیا تھا، جن میں متحدہ عرب امارت، عمان اور بحرین کے سفراء بھی شریک تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم، صیہونی سامعین اور جی حضوری کرنے والے مسلمان ممالک کے نمائندگان کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا پیش کردہ منصوبہ دو ریاستی حل کا عظیم نمونہ ہے لیکن تقریب میں منصوبہ پیش کرنے والے، منصوبے پر تالیاں بجانے والے اور منصوبے کو عظیم قرار دینے والے، سب ایک ہی ریاست کے نمائندے تھے، دوسری ریاست جو صرف کاغذوں تک محدود ہوگئی ہے، اس وقت بھی صرف کاغذوں میں ہی موجود تھی۔

صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جن تین ممالک کا خصوصی شکریہ ادا کیا وہ ممالک وطن عزیزمیں برادر اسلامی ممالک کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جس تقریب میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے قبلہ اول کی بندر بانٹ ہورہی تھی اس تقریب میں برادر اسلامی ملک متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان کے سفراء بیٹھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم آئے تو تینوں ممالک کے لیے الگ سے تالیاں بجوائی اور اسرائیل کے دوستوں کی صفوں میں کھڑے ہونے پر خراج تحسین پیش کیا۔

میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے اسرائلی وزیر اعظم نے صدر ٹرمپ کے مجوزہ ”مشرق وسطیٰ امن منصوبہ“ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو مشروط اور محدود خودمختاری دی جائے گی، اسرائیل کالونیوں پر اسرائیل کا ہی قبضہ ہوگا، وادی اردن بھی اسرائیل کے پاس ہی رہے گی اور بیت المقدس بلا شرکت غیرے اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔ منصوبے میں فلسطین کے لیے کیا تھا تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب ان شرائط کو فلسطین تسلیم کرے گا تو پھر بتایا جائے گا کہ اس کے لیے منصوبے میں کیا ہے۔

محفل میں ایک اور برادر اسلامی ملک کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ وہ ملک ہمارے خادمین حرمین شریفین کے زیر سایہ دن دگنی رات چکنی ترقی کرنے والا ملک سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب کے حکمران ویسے تو اس محفل میں تالیاں بجانے والوں کے ساتھ کھڑے رہنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے لیکن ان کی بھی مجبوری ہے، پورے عوام کو کچھ اس طرح اسلام کے نام پر ورغلا رکھا ہے کہ اب وہ کمبل چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل انہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

سعودی عرب کے ارادے تو اس وقت ہی عیاں ہوگئے تھے جب چند دن پہلے اسرائیل وزیر داخلہ نے اپنے شہریوں کو سعودی عرب جانے کے لیے راہیں ہموار ہونے کی نوید سنا ئی تھی لیکن سعودی وزیر خارجہ نے یہ کہہ کر ان خبروں کی تردید کہ فی الحال اسرائیلی شہری سعودی عرب کا دورہ نہیں کرسکتے۔ اس جملے میں اگر ”فی الحال“ پر غور کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کی گنجائش موجود ہے۔

قبلہ دوم کی کمائی پر پلنے والے سعودی فرمانرواؤں کو کبھی یہ توفیق تو نہیں ہوئی کہ وہ قبلہ اول کی آزادی کے لیے کسی سے الجھ بیٹھیں، لیکن امریکا سے ایک سو تین ارب ڈالر کے ہتھیاروں خریدنے کے لیے معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔ کسی کی نیت پر شک کرنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا، کیا پتہ قبلہ اول بیچ کر خریدے گئے یہ ہتھیار قبلہ دوم کی حفاظت کے لیے بھی تو ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قبلہ اول کو بیچ کر ہتھیار خریدنے والے کیا امریکی ہتھیاروں سے قبلہ دوم کی حفاظت کر پائیں گے؟

جب وائٹ ہاؤس میں یہ منصوبہ پیش ہورہا تھا تو خود کو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن سمجھنے والے پاکستان کے حکمران گہری نیند سو چکے تھے۔ ہم جیسے دو ٹکے کے صحافی کئی دنوں سے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ صدر ٹرمپ فلان تاریخ کو اپنا منصوبہ پیش کرنے والے ہیں لیکن ہمارے دفتر خارجہ کی نا اہلی کا یہ عالم تھا کہ جب یہ منصوبہ پیش کیا گیا تب بھی فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آتا۔ ہمارے وزیر خارجہ، خود کو میڈیا سے دور رکھنے کے لیے ایک ایسے ملک کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے ”جہاں سے آگے، سنا ہے دنیا ختم ہوتی ہے“ تاکہ نہ کوئی پوچھنے والا ہو اور نہ کسی کو جواب دینا پڑے۔

حسب توقع ایک ایران تھا جس نے اس منصوبے کو یک طرفہ اور اسرائیل نواز قرار دے کر مسترد کر دیا، باقی پوری امت مسلمہ پر ایسی خاموش طاری تھی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ خود کو تسلی دینے کے لیے مسلمانوں کی نام نہاد نمائندہ تنظیم ”اؤ آئی سی“ کا ٹویٹر اکاؤنٹ چیک کیا تو وہا لکھا تھا کہ ”ہز ہائی نس شیخ محمد بن زید نے او آئی سی کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تنظیم کی سرگرمیوں کو سپورٹ کرنے پر متحدہ عرب امارات کو خراج تحسین پیش کیا ہے“۔ جب ہماری نمائندہ تنظیم متحدہ عرب امارات کو خراج تحسین پیش کر رہی تھی، ٹھیک اسی وقت متحدہ عرب امارات کا سفیر واشنگٹن میں ”امن کا عظیم منصوبہ“ پیش کرنے پر صدر ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

اس منصوبے کا صرف ایک خوش کن پہلو ہے اور وہ یہ کہ خود کو فلسطین کا حقیقی ترجمان قرار دینے والے الفتح اور حماس نے نہ صرف مشترکہ اجلاس بلایا بلکہ امریکی اقدام کے خلاف دونوں فلسطینی نمائندہ جماعتوں نے مشترکہ جدوجہد کرنے پربھی اتفاق کیا لیکن کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک ہی ملک کی دو جماعتوں کو متحد ہونے کے لیے قبلہ اول کو قربان ہونا پڑتا ہے، بیت المقدس کو تقسیم ہونا پڑتا ہے اور بیس لاکھ مہاجرین کو اپنی سرزمین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہونا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments